بہاءالدین محمد بن جلال الدین رومی معروف بہ سلطان ولد رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:بہاءالدین محمد۔لقب:سلطان ولد۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا بہاءالدین محمد بن مولائےروم مولانامحمد جلال الدین رومی بن محمدبہاؤالدین بن محمد بن حسین بلخی بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔آپ مولائےروم حضرت مولانا محمد جلال الدین رومی کے فرزندِ اکبر اور دوسرے جانشین تھے۔
تاریخ ِولادت: آپ کی ولادت باسعادت 25/ربیع الآخر623ھ،مطابق ماہ اپریل/1226ءکو"لارندہ"میں ہوئی، جسےاب"قرامان"کہتےہیں۔
قرامان یہ قونیہ شریف سے100کلومیٹرجنوب میں واقع ترکی کاایک مرکزی شہرہے۔
تحصیل علم:ابتدا ہی سے دانائے امت مولانا جلال الدین رومی ان پر خاص لطف و عنایت روا رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے قول و فعل سے بارہا اس توجہ اور مہربانی کا ذکرفرماتےتھے۔ مولانا نے خود انہیں برہان الدین ابوبکر مرغینانی کی کتاب ہدایہ پڑھائی تھی اور جب وہ سنِ بلوغ کو پہنچ گئے تو بہاءالدین اور ان کے بھائی علاءالدین کو انہوں نے حلب اور دمشق بھیج دیا۔ شام سے واپسی کے بعد بہاءالدین نے اپنے والد مولانا روم،برہان الدین محقق ترمذی،حضرت شمس تبریزی،صلاح الدین فریدون زرکوب اور حسام الدین چلپی سےعلمی وروحانی استفادہ کیا۔
بیعت وخلافت: مولانا سلطان ولد نےاپنےوالدگرامی حضرت مولائےروم دانائےامت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ سے ظاہر وباطنی علوم کی تحصیل کی،اوران کےبعد ان کےسلسلہ مولویہ کےمنتظم وجانشین قرارپائے۔اسی طرح حضرت شمس تبریزی،اورمولانا حسام الدین چلپی سےبھی روحانی استفادہ فرمایا۔
سیرت وخصائص: شیخ الاجل،عالم اکمل،صاحبِ اوصافِ کثیرہ،نائب ِ دانائےامت مولائےروم،بہاءالدین محمدالمعروف سلطان ولدرومی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ حضرت مولائےروم کےپرتوجمیل،اورجانشینِ صادق تھے۔علم وعمل،ذہانت وفطانت،اورشکل وشباہت میں ثانیِ مولائےروم حضرت جلال الدین رومی تھے۔ان کےوصال کےبعدسلسلہ مولویہ کی تربیت واشاعت کی ذمہ دای آپ پرآئی،اورآپ نےاس کوبطریق احسن نبھایا۔یہاں یہ بات بہت اہم ہےکہ مولانانےاپنی وفات کےبعداپنےمریدوخلیفہ خاص مولاناحسام الدین چلپی علیہ الرحمہ کواپنانائب وجانشین منتخب کیاتھا۔جوگیارہ سال تک مولاناروم کےوصال کےبعدان کےجانشین،اورعلمی وروحانی امانتوں کےوارث رہے۔اس وقت مولاناروم کےصاحبزادےسلطان ولدبھی موجودتھے،اورتمام کمالات کےجامع تھے۔لیکن ان کامقام مولاناچلپی سےکم تھا۔اس لئےان کومنتخب کیاگیا،اورسلطان ولد علیہ الرحمہ گیارہ سال تک ان کی خدمت کرتےرہےاوران کےحکم کی تعمیل فرماتےرہے۔(فی زمانہ اس کی مثال ہمیں نظرنہیں آئی،پیرصاحب کےوصال کےبعدہرحال میں ان کاصاحبزادہ ہی جانشین ہوگا،چاہےوہ بالکل صفرہی کیوں نہ ہو،اورپیرصاحب کےمریدوں میں چاہےکوئی کتناہی صاحب کمال کیوں نہ ہو،وہ ان کی گدی کاوارث نہیں بن سکتاہے۔اس موروثی سلسلےنےہمارےخانقاہی نظام کو تباہ وبرباد کردیاہے، اورپھرجہالت نےرہی سہی کسرپوری کردی۔اوراب مدارس میں بھی یہی موروثی سلسلہ شروع ہوچکاہے،جس سےمدارس کی حالت ترقی کی بجائےتنزلی کی طرف جارہی رہے۔الاماشاء اللہ) ۔
مولانابہاءالدین کا اپنے والد کے ساتھ بڑا قریبی تعلق تھا اور اپنے بھائی کے برخلاف، کہ جنہیں صوفیانہ طریقِ زندگی اور سلوک سے چنداں علاقہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ مولانا کی پیروی کرتے تھے، ان کے دوستوں اور مریدوں کے بیچ حاضر ہوتے اور ان کی روش و منش کو اپنے لیے نمونہ قرار دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا اپنے مریدوں اور اقرباء میں سے صلاح الدین زرکوب، حسام الدین چلبی اور بہاءالدین محمد کو اپنے نزدیک ترین لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ بہاءالدین صوفیوں کی اکثر محفلوں میں اپنے والد کے ہمراہ حاضر ہوتے تھے اور ان کی اپنے والد سے اتنی شباہتِ ظاہری تھی کہ اغلب انہیں مولانا کا بھائی سمجھا جاتا تھا۔شکل وشباہت میں اپنےوالدکےمشابہ تھے۔
مولاناحسام الدین چلپی کےوصال کےبعدسلسلۂ مولویہ کی ازسرتشکیل نو اور شکل گیری کا آغازمولانا سلطان ولد کی خلافت ہی میں ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے والد کے مریدوں کو اپنے گرد جمع کیا اور اس طریقے کے امور کو نظم بخشااورمریدوں کی مدد سے قونیہ میں واقع مولانا کے مزار پر قبہ بنوایا جس نے اس شہر کو مرکزیت بخش دی۔ اس کے بعدانہوں نے اپنی تیس سالہ پیشوائی کے دور میں مولویہ طریقے کے آداب وضع کیے اور مختلف شہروں میں مولویہ خانقاہیں قائم کروا کر اور اپنے نائبوں اور نمائندوں کو بھیج کر مولویہ طریقے کی ترویج کی کوشش کی۔
سلطان ولد اپنے والد کے پہلے سوانح نگار اور ان کے افکار و اشعار کے پہلے مفسر تھے۔ انہوں نے سپہ سالار اور افلاکی سے قبل مولانا کی زندگی اور مولویہ سلسلے کی تاریخ کی تدوین کا آغاز کیا اور ان کی کتابیں مولانا رومی کے بارے میں قابلِ اعتماد ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ چند محققوں کے مطابق وہ اولین شخص تھے جنہوں نے مولانا رومی کے خطبوں اور مجالس کو جمع کرنا شروع کیا تھا۔ نیز کچھ لوگوں کے مطابق مقالاتِ شمس کا قدیم ترین نسخہ بھی سلطان ولد کے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے۔
اسی طرح مولاناسلطان ولدعلیہ الرحمہ ایک زبردست محقق،فاضل علوم عقلیہ ونقلیہ،اورادیب وشاعرتھے،ان کی شاعری میں حضرت مولائےروم کی جھلک پائی جاتی تھی۔آپ پہلےشاعرہیں جنہوں نےترکی شاعری کوفارسی اوزان وقواعدمیں بیان کیا۔ترکی کی مقامی اورقومی زبان کی وجہ سےان کی شاعری کوبہت اہمیت حاصل ہوئی۔اسی بناءپرآپ کوعثمانی ملت کاقومی شاعر،اوراس طرزادب کابانی کہاہے۔آپ کادیوان تیرہ ہزاراشعارپرمشتمل ہے،اوراس کےعلاوہ مثنوی ولدنامہ یاابیات نامہ یہ دس ہزارابیات پرمشتمل ہے۔ان کی شاعری عربی،فارسی،ترکی،یونانی زبانوں پرمحیط ہے۔لیکن ان کووہ مقام نہیں مل سکاجوان کےوالد گرامی مولائےروم کےحصے میں آیا۔اس کےعلاوہ اوربھی نظم ونثرمیں ان بہترین کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 10/رجب المرجب 712ھ،مطابق اول ماہ نِومبر/1312ءکوہوا۔اپنےوالدکےقرب "قونیہ شریف"ترکی میں محواستراحت ہیں۔
ماخذ ومراجع: مقدمہ مثنوی معنوی۔اردودائرہ معارف اسلامیہ۔