ممتاز حسین قادری شہید، غازی ملک
اسمِ
گرامی: ملک ممتازحسین قادری۔
اَلقاب: غازیِ اسلام،غازیِ ملّت،محافظِ
ناموسِ رسالت،پروانۂ شمعِ رسالت،شہیدِ ناموسِ مصطفیٰﷺ۔
والدِ
ماجد: ملک
بشیراعوان صاحب مدظلہ العالی(ملک صاحب نہایت ہی ایمان دارشخص ہیں۔محنت مزدوری کرتے
ہیں۔آپ فرماتے ہیں:’’میں نے ہمیشہ اپنی اولادکورزقِ حلال کھلایا ہے،کبھی اپنی
اولادکوحرام کالقمہ نہیں کھلایا‘‘۔)
نسب:
غازی صاحب نسبا ً ’’قطب شاہی اعوان‘‘ برادری سےہیں۔آپ
کاسلسلۂ نسب حضرت محمد بن حنفیہ بن مولاعلی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ تک منتہی ہوتا
ہے۔اس قوم میں میں بڑے بڑے اولیاء،اورنامور سپہ سالارپیداہوئے ہیں۔[2]
سلسلۂ نسب اِس طرح ہے:
غازی
ملک ممتاز حسین قادری شہید بن ملک بشیراعوان بن ملک خان محمد بن ملک دادن خان ۔
ملک دادن خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غازی صاحب کے پرداداتھے۔یہ
خدارسیدہ اورخداترس بزرگ تھے۔مسافروں کوکھانا کھلانا فرض جانتے تھے۔آج بھی لوگ ان
کی پرہیزگاری و سخاوت کو بیان کرتےہیں،اورقدرکی نگاہ سےدیکھتے ہیں۔ان کامزارشریف
اسلام آبادمیں’’کھڈامارکیٹ‘‘کےساتھ سی۔ ڈے۔ اے۔ کی عمارت
کےعقب میں ہے۔[1]
آبائی گاؤں:
غازی صاحب کاآبائی گاؤںباغ بھٹاں ہے۔ باغ بھٹاں موجودہ ’’آب پارہ‘‘
کےقریب واقع تھا۔اسلام آباد کی تعمیر کی غرض سےحکومت نے سب دیہاتوں کومنہدم
کرکےان کے مکینوں کویہاں سے بے دخل کر دیاتھا۔
ولادت:
غازی صاحب 8؍ ربیع الاوّل1405ھ مطابق یکم جنوری
1985ء بروزمنگل صادق آبادکے علاقے مسلم ٹاؤن (راولپنڈی،پاکستان )میں
پیداہوئے۔[3]
ولادت سے قبل بشارت:
غازی صاحب کے والدِ محترم فرماتے ہیں:
’’ممتاز کی ولادت سےدوسال قبل میں نے ایک عجیب واقعہ
دیکھا۔میرامعمول تھاکہ میں رات کےپچھلے پہراُٹھ کرتہجدکی نماز اداکرتاتھااوراس
مقصد کےلیے ہمارے گھر کاایک کونہ مختص تھاجہاں مصلیٰ بچھاہوتا تھا، گھروالوں میں
سے جس نے نماز اداکرنی ہوتی، وہ اسی جگہ نمازاداکرتا۔ایک رات میں بیدارہوا
اورنمازکےلیے مذکورہ گوشے میں پہنچا تودیکھا کہ ایک نورانی شخصیت اس مصلے پرنماز
اداکررہی ہے،میں انہیں دیکھنے لگا،انہوں نے نماز مکمل کی اور خاموشی سے جانے
لگے،پھراچانک واپس مڑے اورمجھ سے فرمایا: ’اِس گھر کے جنوبی کونے میں اللہ کا ایک ولی
پیدا ہوگا،جوپوری دنیا میں اسلام کی عزت کاپرچم بلندکرےگااورتمہارانام روشن کرے گا۔‘
یہ کہتے ہوئے وہ تشریف لے گئے۔دوسال بعد میرے بیٹے ممتازحسین کی ولادت اسی جگہ
ہوئی،جہاں بزرگ نے نشان دِہی فرمائی تھی۔اس کے بعد میں اس بات کوبھول گیاتا آں کہ
4؍جنوری 2011ء کوسلمان تاثیرقتل ہوا،اور یوں سارے معاملات سامنے آئے۔پھر مجھے وہ
بزرگ والاواقعہ یاد آیا کہ جس شخص کے متعلق اس بندۂ خدانے خبر دی تھی وہ
توممتازحسین نکلا[4]۔ ایک اوربات کہ غازی صاحب کی ولادت سے ہمارے گھرکے معاشی حالات
بھی بہترہوگئے۔‘‘
تحصیلِ
علم:
غازی صاحب نے میٹرک تک تعلیم اپنے گھرکےقریب پرائیویٹ انگلش
میڈیم اسکول’’عائشہ لاثانی پبلک اسکول‘‘ مسلم ٹاؤن میں حاصل کی۔ بچپن ہی سے غازی
صاحب خامو ش طبع، اپنے کا م سے کا م رکھنے والے، بغیرکسی کی مددکےسکول کےلیے تیارہوجانااپنا
ہوم ورک بغیر کسی کی مدد کے کر لینا وغیرہ وغیرہ۔اسکول کی تقریبات میں نعتیں
شوق سےپڑھتےتھے۔نعتیہ مقابلوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔اسی طرح محلے میں جہاں کہیں
نعت خوانی،یامیلادشریف کاپروگرام ہوتا اس میں ضرورشرکت کرتے۔میٹرک کےبعدسویڈش کالج
میں الیکٹرونکس میں ڈپلوما کیا۔پھر اسی دوران 2002ء میں محکمۂ پولیس میں بھرتی
ہوگئے۔آپ جسمانی اور ذہنی طورپر انتہائی مضبوط اورنشانہ بازی میں اپنے بیج کے
تمام لڑکوں سے مسابقت رکھتے تھے۔
بیعت:
میٹرک کے بعد امیرِ دعوتِ اسلامی ابوبلال حضرت علامہ مولانا
محمد الیاس عطارقادری مدظلہ العالی کےدستِ حق پرست پر بذریعۂ خط بیعت
ہوگئے،اوردعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے۔
ممتازسیرت:
غازیِ اسلام، غازیِ ملّت،محافظِ ناموسِ رسالتﷺ،پروانۂ شمعِ رسالتﷺ،پیکرِغیرت وحمیت، شہیدِ ناموسِ مصطفیٰﷺ، جناب ملک
ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔آپ فنا فی الرسولﷺتھے۔رسول اللہﷺکی
محبت آپ کاسرمایۂ حیات تھی۔ہروقت ذکرِ مصطفیٰﷺکرنا،اورسنناان کامحبوب مشغلہ
تھا۔غازی صاحب کامسلک عشق ومحبت ہے۔
ایک مرتبہ غازی صاحب فرمانے لگے:
اگراللہ جل شانہ مجھ سے پوچھےممتازقادری! مانگ
کیامانگتاہے؟تومیں عرض کروں گااےباری تعالیٰ !اپنے نبی ﷺکےساری امتیوں
کواپنے نبیﷺکاعشق عطافرما۔[5]
غازی صاحب کی سیرت کی چندجھلکیاں:
غازی صاحب بچپن ہی سے سعادت مندتھے۔والدین، اساتذہ،بزرگوں،سبھی
مسلمانوں کےساتھ ادب سے پیش آتے تھے۔کبھی کسی سے لڑائی جھگڑانہیں کیا۔ہمیشہ
نمازباجماعت اداکرتے تھے۔
بزرگ فرماتے ہیں:
’’جونمازی
نہیں بن سکتا وہ غازی کیسے بن سکتا ہے؟‘‘
اکثرلوگوں کومحبت بھرے انداز میں نیکی کی دعوت اوربرائی سے منع
کرتے رہتے تھے۔اعلیٰ حضرت امام اہلِ
سنت کےنعتیہ کلام ’’حدائقِ بخشش‘‘ کا اکثر حصہ زبانی یادتھا۔علمائے کرام کےبیانات شوق سےسنتے تھے۔اسی سےمحبتِ
مصطفیٰ ﷺ میں اضافہ ہوا۔غازی صاحب انتہائی بااخلاق اورنیک سیرت کےمالک تھے۔محلے کی
بوڑھی خواتین بازارسےسودا سلف منگوانے کےلیے اکثر غازی صاحب کو پیسے دےدیتیں اور غازی
صاحب بلاچوں چرا سودا سلف خریدکر آتے۔ جب کوئی بوڑھا شخص یامحلے کی عمر
رسیدہ خواتین بازارسےسامان لےکرآرہی ہوتیں توآپ سامان اٹھاکر گھر پہنچادیتے۔بعض
مرتبہ بوڑھی خواتین سے گھرکاکوڑاکرکٹ لےکرپھینک آتے۔آپ کی طبیعت میں عاجزی
وانکساری،خلوص وایمان داری کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دینِ اسلام سےسچی محبت واطاعت کاندازہ آپ کی سنّت کےمطابق
شادی سے لگایاجاسکتا ہے۔ان مواقع پرتوبڑے بڑے حاجی صاحبان کےپاؤں بھی
ڈگمگاجاتے ہیں،جواز یہ پیش کرتے ہیں: جی بچے نہیں مان رہے،بچوں کاشوق ہے۔ حالاں کہ
خلافِ شرع اور فضول وبےہودہ رُسومات کےلیے
پیسہ حاجی صاحب کےہاتھ سے جارہاہوتا ہے۔۔۔۔غازی صاحب کے بھائی کہتے
ہیں: ہم نے سوچاتھا کہ سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہے،اورخوب ارمان نکالیں
گے۔جیسےہی غازیِ ملّت کومعلوم ہوا فرمایا میری شادی انتہائی سادگی سے ہوگی،میرے
سسرال والوں کو جہز دینے سے بالکل منع کردیں،اورمیری
شادی پردیگرپروگراموں کی بجائے نعت خوانی ہوگی۔
گونرسےکیادشمنی تھی؟
غازیِ ملّت کی گورنرپنجاب سے کوئی ذاتی رنجش یادشمنی نہیں تھی۔
وہ شراب کا رسیا تھا، ایک سکھ عورت سے اس کا ناجائزبیٹا یہ کہہ رہا
تھاکہ اس کا باپ سچا مسلمان نہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس کا ذاتی فعل قرار دےکرنظر
اندازکیاجاسکتاتھا،لیکن کیاایک سچا مسلمان رسول اللہﷺ کی شان میں اس کی گستاخی کو
برداشت کرسکتا تھا؟ 14؍جون 2009ءکوضلع ننکانہ میں ایک عیسائی عورت آسیہ
مسیح نے رسول اللہﷺکی شان میں گستاخی کی،عدالت میں اس نے اعترفِ جرم
کیا۔عدالت نے اسے 8؍نومبر2010ءکوسزائےموت اورایک لاکھ جرمانے کاحکم سنایا (یہ
عدالت نہ کسی مولوی کی تھی،اورنہ ہی جج صاحب کوئی عالم یامفتی تھے؛ بلکہ یہ سب کچھ
ریاست کےقوانین کے ماتحت ہوا)۔ 20؍نومبرکوگورنرپنجاب نےملعونہ
سےملاقات کرکےکانفرنس کی،اوراسے رہائی کایقین دلایا(یہ توہینِ مذہب کےساتھ توہینِ عدالت بھی تھا،لیکن تمام ادارے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے)۔ اس سزا کو ’’ظالمانہ سز‘‘ اورتحفّظِ
ناموسِ رسالت کےقانون (جوکہ قرآن وسنّت سے ماخوذہے)کو ’’کالاقانون‘‘ کہا: علما
کےفتووں کو’’جوتے کی نوک پررکھتاہوں‘‘کےالفاظ بکے۔ پورے ملک میں تمام شعبۂ ہائے
زندگی کے افراد نے گورنرکےاس طرزپراحتجاج کیا۔یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل
پیش کردیاگیا کہ اس قانون کو ختم کردیاجائے، یااس میں ترمیم کی جائے۔ادھرغازی صاحب
نےوُکلاءسےمعلوم کیا کہ گورنرکے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج ہو رہی؟وہ
کہنے لگے کہ ان کو’’استثنا‘‘ حاصل ہے۔
غازی صاحب کے بھائی فرماتے ہیں: اس دوران میں
نےدیکھا کہ ہرکسی سےمسکراکر ملنے والے،اوربااخلاق شخصیت کےحامل میرےبھائی نے
اپنی جسمانی اور ظاہری حالت بہت خراب کرلی تھی،لباس پرتوجہ نہیں، کھانےپینےکا ہو ش
نہیں،رات بھرجا گتےرہتے،ایک ماہ کے بیٹے کی کو ئی خبر نہیں، بیماربیوی پرکو ئی
توجہ نہیں،ہروقت بے چینی کا شکار اورمضطرب نظر آتے تھے۔ جیسے کچھ کھو گیا
ہو،جیسے کو ئی لٹ گیا ہو، میں بتا نہیں سکتا کہ غازی ممتاز صاحب کی
حالت دیکھ کرگھروالےکس قدرپر یشان ہو گئےتھے۔کیو ں کہ نہ کچھ بتاتےتھے،اورنہ
کچھ نظرآتاتھاکہ ماجراکیاہے؟میں نےکہا بھائی جان! آپ کےبیٹےکی طبیعت ناسازہے،کسی
ڈاکٹرکودِکھاؤ۔
کہنے لگے:
’’آپ
اسے کل ڈاکٹر کے پاس لے جا نامجھ میں ہمت نہیں کہ اسےڈاکٹر کےپاس لےجاسکوں۔‘‘
عدالتی رپورٹ کے مطابق آپ کابیان:"مجھے سلمان تاثیر
سےملاقات کاموقع ملا:میں نےکہا:محترم! آپ نے بحیثیتِ گورنرقانونِ تحفّظِ
ناموس رسالت کو’’کالاقانون‘‘ کہا ہے؟اگرایساہےتویہ آپ کوزیب نہیں دیتا۔اس پراچانک
وہ چلایااورکہنےلگا: ’’نہ وہ صرف کالاقانون ہے بلکہ (نعوذ باللہ)وہ میری نجاست ہے‘‘۔
میں نےٹریگردبادیااوروہ میرےسامنے ڈھیرہوگیا۔مجھے کوئی پچھتاوانہیں ہے،میں نےیہ
تحفّظِ ناموسِ رسول ﷺ کےلیے کیا ہے۔[6]
آپ کےاس اقدام سےاٹھنےوالےسب فتنےتھم گئے،گستاخان پرزمین تنگ
ہوگئی،اورجواس قانون کوختم کرنےکی قراردادیں پیش کررہےتھے،ان کی زبانیں گنگ
ہوگئیں،پھروہ بھی اس قانون کے تحفّظ کی باتیں کرنے لگے۔پورے ملک میں مسلمانوں میں
خوشی کی لہردوڑ گئی،سارے مسلمانوں کاقرض وفرض ایک غازی صاحب نےچکادیا۔
گورنرکاجنازہ تازیانۂ عبرت:
پاک وطن کے پلید ذہنیت رکھنے والے،اوراغیارکےنظام
کےمتوالےسیاست دانوں کےلیے ان کے ’’بڑے‘‘ کاجنازہ نشانِ عبرت ہے۔ پورے ملک میں
جنازہ پڑھانےکوکوئی تیارنہ تھا۔ بالآخر پیپلزپارٹی کے ایک باریش کارکن کےساتھ
علامہ کا لاحقہ لگا کر چالیس سیکنڈمیں جنازہ پڑھایا گیا۔آج چندموم بتی والی
آنٹیاں،اورلنڈےکےکوٹ پہننے والےبینگنوں کےعلاوہ کوئی نام لیوانہیں
ہے،اورغازیِ ملّت لاکھوں مسلمانوں کےدل کی دھڑکن ہیں۔اس بات کی گواہی جنازہ
دےچکاہے۔
جیل میں کرم نوازیاں:
جب غازی صاحب کو جیل لے جایا گیا تو قیدیوں نےشان دار استقبال کیا۔
ہرطرف سےیہ صدا آتی تھی:
’’ہماراسردار آ گیا، مصطفیٰ کا کاجاں نثار آ گیا۔‘‘
غازی صاحب فرماتےہیں:
’’مجھےبارہا رسول اللہﷺکی زیارت ہوئی۔ جب مجھ پرتشددکےپہاڑتوڑےجارہے ہوتے تھے،تو میں اُس
وقت خانۂ کعبہ اور گنبدِ خَضراکےقریب اپنے آپ کوموجودپاتاتھا۔‘‘
غازی صاحب کی بشارتوں کےواقعات بہت زیادہ ہیں۔
غیرشرعی
عدالتی فیصلہ:
یکم اکتوبر 2011ء کو دہشت گردی کی عدالت کےجج پرویزعلی شاہ
نےپرویزی فیصلے میں آپ کو دو مرتبہ سزائے موت،اوردولاکھ جرمانےکی سزا سنائی،
پھر دہشت گردی کی دفعات ختم کر دی گئیں۔7؍ اکتوبر 2015ءکوجج آصف کھوسہ نے
کسی کے دباؤپر تمام دفعات بحال کر دیں۔
علامہ اقبال اورقائدِ اعظم کی روح سے غداری:
انگریزکےدورِ حکومت میں بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ غازی
علم الدین شہیدکی وکالت کررہے تھےاورمفکرِپاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد
اقبال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جنازےکوکندھادینے اور لحد میں اُتارنے والوں میں سےتھے۔اسی طرح غازی عبدالقیوم شہید کی
شہادت پران کی شان میں نظم تحریرفرمائی،لیکن بعد میں ان کےبنائے ہوئے ملک میں
عاشقِ رسولﷺکوتختۂ دارپرلٹکایا گیا۔اس وقت
ایک رپورٹ کےمطابق تقریباً1400گستاخانِ رسول جیلوں میں ہیں۔کسی کواس قانون کے تحت
سزانہیں دی گئی ہ۔ملعونہ آسیہ مسیح ابھی زندہ ہے۔ایک امریکی جس نے دن دہاڑے
چارافرادکوقتل کردیا اس کوباعزت رہاکردیا گیا۔ ہروقت قانون قانون کی گردانیں رٹنے
والوں کی زبانیں یہاں پرکیوں خاموش ہوجاتی ہیں؟ ممتازقادری ایک
جذبےاورفکرکانام ہے،فکراورجذبہ کبھی طاقت سےختم ہواہےاور نہ ہوگا۔
کس شان سے کوئی مقتل میں گیا:
عوامی ردِّعمل کےخوف سے آپ کوشہیدکرنےکامنصوبہ مکمل خفیہ رکھا
گیا۔عوام اورغازی صاحب کے خاندان کودھوکہ دیاگیا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا
نہیں ہوا۔ نیند کی حالت میں آپ کوبیدارکرکےبتایاگیا کہ صبح آپ کوپھانسی دی جائے
گی۔ اُدھرسے گھروالوں کوجھوٹ بول کربلایا گیا۔آپ نے گھروالوں سے ملاقات میں انہیں
اطمینان کےساتھ جھوم جھوم کر نعتیں سنائیں اور بتایا کہ بیداری کی حالت میں رسول
اللہﷺ، خلفاءراشدین، غوثِ اعظم اور داتاعلی ہجویری کی زیارتیں ہوئی ہیں اوران
حضرات نے میری قربانی کی قبولیت کی بشارت دی ہے۔آپ کوشہیدکرنےکےلیے چاربجےکاوقت
مقررکیا گیا۔اہلِ خانہ سےملاقات کے بعدآپ نے آبِ زم زم اورعجوہ کھجورسے روزہ
رکھا، نمازِ تہجدادا کی اور وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پھانسی گھاٹ کی طرف جانے
لگے۔
آپ سے کہا گیا:
’’ابھی
کچھ وقت باقی ہے۔‘‘
فرمانے لگے:
’’سامنے
رسول اللہﷺجلوہ افروزہیں اورانتظارفرمارہے ہیں۔‘‘[7]
آپ نے دورکعت نفل اداکیے،نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت لگاتے
ہوئے، فدائےمصطفیٰﷺ، بارگاہِ مصطفیٰﷺمیں حاضر ہوگیا۔
تاریخِ
شہادت:
بروزپیر 20؍ جُمادی الاولیٰ 1437ھ مطابق29؍ فروری2016ء کو آپ کی شہادت ہوئی ؎
سن دو ہزار سولہ اُنتیس فروری کو
نا حق ہُوئی ہے پھانسی ممتاز قادری کو
(ندیم احمد نؔدیم نورانی)
تاریخی
جنازہ:
غازی ملّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا جنازہ ملکی تاریخ کاسب سےبڑاجنازہ تھا، جس میں حکومتی
رکاوٹوں،میڈیا کی بےغیرتی،کےباوجودایک محتاط اندازےکےمطابق 60لاکھ افرادشریک ہوئے۔
چشمِ فلک نے دیکھا اِس پاک سر زمیں کا
سب سے بڑا جنازہ ممتاز قادری کا
(ندیم احمد نؔدیم نورانی)
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)
[1] پروانۂ
شمعِ رسالت،ص،25۔
[2] محافظِ
ناموسِ رسالت،ص36۔
[3] محافظِ
ناموسِ رسالت،ص36۔
[4]
محافظِ ناموسِ رسالت،ص36۔
[5] محافظ
ناموس رسالت،ص41۔
[6] پروانۂ شمعِ رسالت،ص10۔
[7] پروانۂ شمعِ رسالت،ص14۔