قطب لاہور استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی عزیز احمد قادری بدایونی(لاہور)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فقیہہِ جلیل حضرت علامہ مفتی عزیز احمد قادری بدایونی بن مولانا علاؤ الدین (متوفی ۱۹۲۵ء) ۱۳۱۹ھ / ۱۹۰۱ء میں آنولہ ضلع بانس بریلی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مولانا علاؤ الدین مقتدر فاضل اور بلسی ضلع بدایوں میں خطیب تھے۔
تحصیلِ علوم:
آپ نے ۱۹۱۲ء میں مولانا حافظ محمد بخش سے قرآن مجید حفظ کیا۔ درسِ نظامی کی کُتب متداولہ مدرسہ محمدیہ اور مدرسہ شمس العلوم (بدایوں) میں علامہ احمد دین بنیری قادری (سوات) علامہ مولانا محبّ احمد قادری (بدایونی) علّامہ شاہ محمد ابراہیم قادری، مولانا محمد قدیر بخش بدایونی اور علامہ واحد حسین فلسفی (بدایونی) سے پڑھیں۔ اکثر و بیشتر کتب اصول فقہ، نحو، تفسیر، منطق، فلسفہ، شرح اشارات اور ہئیت میں شرح چغمینی وغیرہ اوّل الذکر (حضرت علامہ احمد دین قادری) سے پڑھیں۔
آپ کے تمام مذکورہ بالا اساتذہ، جامع شریعت و طریقت مولانا شاہ عبدالقادر قادری عثمانی بدایونی رحمۃ اللہ کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے۔
۱۹۲۲ء میں شیخ الحدیث و التفسیر مولانا شاہ محمد ابراہیم قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث پڑھا اور سند فراغت حاصل کی۔
۱۹۲۰ء میں حضرت مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
تبلیغ و تدریس:
آپ سولہ سال تک مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں میں تدریس، افتاء اور تبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے، تین سال مدرسہ حنفیہ قصبہ جنیّر، ضلع پُونہ (ہند) اور تین سال ریاست گوالیار میں منصبِ تدریس و تبلیغ پر فائز رہے اور اب پچیس سال سے عید گاہ گڑھی شاہو لاہور (جہاں ان دنوں اہل سنّت و جماعت کا مرکزی ادارہ جامعہ نعیمیہ قائم ہے) فرائض خطابت و تدریس انجام دیتے ہیں۔
بیعت:
آپ دورانِ تعلیم ہی سلسلۂ عالیہ قادریہ کے چشم و چراغ سید العرفا شیخ المشائخ حضرت مولانا الحاج مطیع الرسول شاہ محمد عبد المقتدر قادری عثمانی قدس سرہ (خلف اکبر امام اہلِ شریعت شمس العارفین محب الرسول مولانا شاہ محمد عبد القادر قدّس سرہ العزیز کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔
حج بیت اللہ شریف:
حج بیت اللہ و زیارت روضۂ رسول علیٰ صاحبہا الصّلوٰۃ والسلام سے بھی مشرف ہوچکے ہیں۔
اعلیٰ حضرت بریلوی سے ملاقات:
آپ نے امام اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز سے ملاقات کی اور مارہرہ شریف میں آپ کی تقریر سنی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’آپ (اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ) بے شک اپنے دَور کے مجدّد تھے، آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا، اسے انتہا تک پہنچایا۔ آپ کے رسائل مسلک اہل سنّت کے لیے کافی دوافی ہیں، چونکہ زبان عالمانہ ہے، اس لیے آپ کی تحریر اکثر و بیشتر عوام کی سجمھ سے بالاتر ہے‘‘۔
تصانیف:
آپ نے زیادہ وقت تدریس و تبلیغ میں گزارا، لیکن اس کے با وجود مندرجہ ذیل رسائل تحریر فرمائے۔
۱۔ صلوٰۃ المشقین فی قرآن مبین (آیاتِ قرآنی سے پانچ نمازوں کا ثبوت و دیگر مسائلِ نماز۔
۲۔ حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق)
۳۔ حقوق الوالدین (ماں باپ کے حقوق)
۴۔ احکامِ جنازہ (جنازہ کے مسائل)
۵۔ چہل حدیث (نبی پاک علیہ الصلّوۃ والسلام کی چالیس احادیث مبارکہ)
۶۔ اکرام الٰہی بجواب انعام الٰہی (مرزا بشیر الدین (مرزائی) کی ایک تقریر کا رَد)
مفتی صاحب مدظلہ نے قرآن مجید کا عام فہم ترجمہ بھی کیا ہے، جو ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکا۔
عطائے الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کو گونا گوں صفات سے موصوف فرمایا آپ بیمثال حافظ کے مالک ہیں چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ مجھے تمام بخاری یاد تھی، نصف بمع اسانید اور نصف متن۔ آپ حافظ، قاری اور بے مثل فقیہ و محدّث ہیں۔ شریعت کے نہ صرف خود پابند ہیں، بلکہ دوسروں کی خلافِ شرع حرکات کی فوراً اصلاح فرماتے ہیں۔
مشہور تلامذہ:
کثیر التعداد علماء نے آپ سے استفادہ کیا، جن میں سے چند علماء کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ مولانا صاحبزادہ عبد الہادی، پروفیسر اسلامیات حیدر آباد دکن۔
۲۔ حکیم الامّت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ، گجرات۔
۳۔ حضرت علامہ مفتی امین الدّین بدایونی رحمہ اللہ کا مونکے۔
۴۔ مولانا احمد میاں جُنیر، مدرس مدرسہ غوثیہ، ضلع پُونہ (ہندوستان)۔
۵۔ مولانا عبد الرشید آنولوی، مدرس مدرسہ اسلامیہ (بدایوں، ہند)۔
۶۔ مولانا محمد اکرم خطیب چوبچہ، اسلام آبا۔
۷۔ مولانا احمد حسن نوری، فاضل جامعہ نعیمیہ لاہور۔
۸۔ مولانا غلام رسول سعیدی، شیخ الحدیث دار العلوم نعیمیہ کراچی۔
۹۔ مولانا عبد الغفار صاحب، فیصل آباد۔
صاحبزادگان:
۱۹۱۹ء میں آپ کی شادی ہوئی، جس سے آپ کے دس صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تولّد ہوئیں۔ [۱]
[۱۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: ضمیمہ کتاب مسائل اہلِ سنّت بجواب مسائلِ نجدیّت ص ۶۰۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)