شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا حافظ محمد احسان الحق قادری، فیصل آباد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شاہسوار تدریس علامہ ابوالبیان[۱] مولانا حافظ احسان الحق قادری رضوی بن مولانا نصیر احمد علیہ الرحمہ بمقام شمس آباد ضلع کیمبل پور (اب اٹک) اعوان خاندان کے ایک علمی و روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
[۱۔حضرت محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ نے ایک جلسہ میں آپ کی تقریر سن کر فرمایا کہ ہمارے مولانا ’’ابوالبیان‘‘ ہیں۔]
آپ کے دادا جان مولانا برہان الدین علومِ دینیہ کے بہت بڑے فاضل تھے جن سے خلقِ کثیر نے استفادہ کیا۔ آپ کے نانا جان نہایت عابدو زاہد باکرامت ولی تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے خاندان میں اکثر افراد علومِ اسلامیہ اور حفظِ قرآن کی لازوال دولت سے بہرہ ور ہیں[۱]۔
[۱۔ حضرت مولانا انوار الاسلام قادری، مالک مکتبہ حامدیہ گنج بخش روڈ لاہور، آپ کے بھائی ہیں جو بہترین مقرر اور مدرس ہیں اور مکتبہ حامدیہ کے ذریعے اسلامی کتب کی اشاعت کا اہتمام کرکے خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔]
آپ نے قرآن مجید، موضع برج ضلع فیصل آباد میں مولانا سیّد مقبول حسین شاہ رحمہ اللہ سے حفظ کیا اور درسِ نظامی کی تمام کتب متداولہ استاذالعلماء حضرت مولانا غلام رسول شیخ الحدیث جامعہ رضویہ فیصل آباد و صدر جماعتِ اہل سنّت پنجاب سے جامعہ حضرت میاں صاحب شرقپور میں پڑھیں۔
دورۂ حدیث حضرت محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے پڑھ کر ۱۳۷۱ھ میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ دورۂ حدیث پڑھنے سے ایک سال قبل شرقپور شریف پڑھاتے رہے۔ فراغت کے بعد ایک سال منڈی داربرٹن، شیخو پورہ اور کئی سال جامعہ رضویہ فیصل آباد میں مسندِ تدریس پر فائز رہے۔ چند سال مدرسہ سراج العلوم گوجرانوالہ اور جامعہ امینیہ فیصل آباد میں پڑھانے کے بعد آج کل جامعہ رضویہ فیصل آباد میں (دوبارہ) تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تدریس کے ساتھ ساتھ آپ فرائضِ خطابت بھی سرانجام دیتے ہیں۔ فراغت کے بعد ایک سال غلہ منڈی واربرٹن، چند سال جامع مسجد لوکوشیڈ فیصل آباد اور آٹھ سال گوجرانوالہ میں جمعہ پڑھانے کے بعد آج کل جامع مسجد ہجویری جناح کالونی فیصل آباد میں خطبۂ جمعہ بھی ارشاد فرماتے ہیں اور روزانہ صبح کی نماز کے بعد درسِ قرآن بھی دیتے ہیں اور اسی مسجد میں جامعہ غوثیہ شیرِ ربانی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہوا ہے جہاں حفظِ قرآن اور تجوید و قراءت کا معیاری انتظام ہے۔ اس جامعہ کے جملہ انتظامات آپ سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں آپ ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغی دورے بھی فرماتے ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے وقت آپ کمسن تھے۔ تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا منڈی وار برٹن سے گرفتار ہوئے شیخو پورہ،لاہور اور میانوالی کی جیلوں میں تین ماہ مقید رہے۔
تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء اور تحریکِ نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۹۷۷ء میں بھی علماء اہل سنت کے شانہ بشانہ احتجاجی جلوسوں میں شرکت کے علاوہ جمعہ کے خطبہ اور درسِ قرآن میں عوام الناس کو ان تحریکوں کے پس منظر سے آگاہ فرماتے رہے اور اسی جذبے سے اپنے صاحبزادگان کو بھی سرشار کیا؛ چنانچہ آپ کے منجھلے صاحبزادے محمد سراج الحق نے تحریکِ نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں گرفتاری پیش کی اور چالیس دن قید رہے۔
آپ کا سیاسی تعلق جمعیت علماء پاکستان سے ہے، چنانچہ آپ قائد اہلِ سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اور مجاہد ملت مولاناعبدالستار خاں نیازی کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے وطنِ عزیز میں مقامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ اور نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں، علاوہ ازیں جماعتِ اہلِ سنت ضلع فیصل آباد کے صدر کی حیثیت سے مسلکِ اہل سنت کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہتے ہیں۔
حضرت مولانا حافظ احسان الحق قادری نے حضرت محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ مدینہ منورہ میں حاضری کے موقعہ پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفےٰ رضا خاں دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت پیر طریقت مولانا ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ نے بھی سند خلافت عطا فرمائی۔
آپ چار مرتبہ حج و زیارت کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ پہلے تین مواقع پر دو دو مرتبہ مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوئی اور دو مرتبہ رمضان شریف کے موقع پر مدینہ منورہ میں اعتکاف کا شرف بھی حاصل ہوا۔
آپ نے قادیانی دجال، غیر مقلدوں اور سرفراز ککھڑوی کے رد میں کتابچے تحریر فرمائے جو ابھی طبع نہیں ہوئے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی مولانا شاہ احمد رضا خاں قدس سرہ العزیز کی تصنیف ’’الاجازات المتینہ لعلماء مکۃ والمدینہ‘‘ کا ترجمہ کیا، جو مکتبہ حامدیہ لاہور کی طرف سے چھپ چکا ہے۔ آج کل بخاری شریف کی وہ احادیث جن کو فقہ حنفی کے خلاف سمجھا جاتا ہے، کی تشریح اور علماء احناف کی بیان کردہ تطبیق مرتب فرما رہے ہیں۔
آپ نے ایک ہفت روزہ ’’محبوبِ حق‘‘ بھی فیصل آباد سے جاری کیا جو تقریباً دو سال تک چلتا رہا اور پھر مالی مشکلات کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔
آپ نہایت فاضل مدرس ہیں، چنانچہ کثیرالتعداد طلباء نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔ چند مشہور تلامذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں:
حضرت مولانا صاحبزادہ قاضی محمد فضلِ رسول حیدر، سجادہ نشین دربارِ عالیہ حضرت محدث اعظم رحمہ اللہ
مولانا سیّد زاہد علی شاہ رحمہ اللہ، جامعہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد
مولانا صوفی عبدالرشید، سمندری (فیصل آباد)
مولانا محمد فرید ہزاروی، صدر مدرس مدرسہ فاروقیہ، گوجرانوالہ
مولانا محمد شریف ہزاروی، مدرس دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ، ہری پور ہزارہ
مولانا محمد نصراللہ خان، سباق مدرس جامعہ امجدیہ، کراچی
مولانا صاحبزادہ حبیب اللہ، خطیب سرائے عالمگیر (جہلم)
مولانا حافظ محمد ظاہر شاہ، مہتمم مدرسہ چشتیہ رضویہ، پہاڑ پور ڈیرہ اسماعیل خاں
مولانا صاحبزادہ علاؤ الدین صدیقی، نیریاں شریف، آزاد کشمیر
مولانا احمد خان، مدرس احسن المدارس پنہالہ، ڈیرہ اسماعیل خاں
مولانا صوفی نذیر احمد، صدر مدرس مدرسہ حضرت سلطان عالم علیہ الرحمہ، متصل جہلم
آپ کے تین صاحبزادے ہیں، صاحبزادہ نور الحق قرآن مجید کے حافظ اور قاری ہیں، صاحبزادہ سراج الحق نے ایف اے کا امتحان دیا ہے جبکہ صاحبزادہ محمد فضل الرحمٰن ابھی کمسن ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاحبزادگان کو آپ کا صحیح جانشین بنائے۔ آمین۔[۱]
[۱۔ مکتوب حضرت علامہ مولانا حافظ محمد احسان الحق قادری مدظلہ بنامِ مرتب]
(تعارف علماءِ اہلسنت)