اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیںجس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں جلتے بھجا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہوجب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گےاب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمھاری جانب کشتی تمھیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیے ہیں دولھا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکومشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سرد ہوگارو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رؔضا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ۔۔۔
مزیدہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میںسنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں بے نواؤں کی نگاہیں ہیں کہاں تحریرِ دسترہ گئیں جو پا کے جودِ یزالی ہاتھ میں کیا لکیروں میں ید اللہ خط سرو آسا لکھاراہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں جودِ شاہِ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپکیا عجب اڑ کر جو آپ آئے پیالی ہاتھ میں ابرِ نیساں مومنوں کو تیغِ عریاں کفر پرجمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیںدو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الٰہی! جھوم کرجب لِوَاءُ الْحَمْد لے امّت کا والی ہاتھ میں ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضائے کلیمموج زن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں وہ گراں سنگی قدرِ مِس وہ ارزانیِ جودنوعیہ بدلا کیے سنگِ ولالی ہاتھ میں دستگیرِ ہر دو عالم کر دیا سبطین کواے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیالی ہاتھ میں آہ وہ عالم کہ آنکھیں ب۔۔۔
مزیدراہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیںمصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں ہوں مسلماں گرچہ ناقص ہی سہی اے کاملو!ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں غنچے مَآ اَوْحٰی کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں اُس میں زم زم ہےکہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیشکثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں پنجۂ مہرِ عرب ہے جس سے دریا بہہ گئےچشمۂ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں ایسا امّی کس لیے منّت کشِ استاد ہوکیا کفایت اُس کو اِقْرَأْ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں اوس مہرِ حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں ہے انھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار وہ نہ تھے عالَم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالَم نہیں سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رؔضاخواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں (حدائقِ بخشش)۔۔۔
مزیدوہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیںیہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیِ دل و جاں نہیںکہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیںوہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقرجو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں کرے مصطفیٰ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیںکہ میں کیا نہیں ہوں محمدی! ارے ہاں نہیں تِرے آگےیوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑےکوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیںکوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرومگر اے مدینے کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں ہے انھیں کے نو۔۔۔
مزیدرخ دن ہے یا مہرِ سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیںشب زلف یا مشکِ ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاںحیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں حق یہ کہ ہیں عبدِ الٰہ اور عالمِ امکاں کے شاہبرزخ ہیں وہ سرِّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں بلبل نے گل اُن کو کہا قمری نے سروِ جاں فزاحیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمربے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ڈرتا تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزِ جزا دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں کوئی ہے نازاں زہد پر یا حُسنِ توبہ ہے سِپریاں ہے فقط تیری عطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں دن لَہْو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھےشرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیاشکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ہے ۔۔۔
مزیدوصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیںاُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھومصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارےانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکارکہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیمسنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچامرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاریجوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی د۔۔۔
مزیدبر تر قیاس سے ہے مقامِ ابو الحسینسدرہ سے پوچھو رفعتِ بام ابو الحسین وارستہ پائے بستۂ دامِ ابو الحسینآزاد نار سے ہے غلامِ ابو الحسین خطِّ سیہ میں نورِ الٰہی کی تابشیں کیا صبحِ نور بار ہے شام ابو الحسین ساقی سنادے شیشۂ بغداد کی ٹپک مہکی ہے بوئے گل سے مدامِ ابو الحسین بوئے کبابِ سوختہ آتی ہے مے کشو!چھلکا شرابِ چشت سے جامِ ابو الحسین گلگوں سحر کو ہے سَہَرِ سوزِ دل سے آنکھسلطانِ سہرورد ہے نامِ ابو الحسین کرسی نشیں ہے نقشِ مراد اُن کے فیض سے مولائے نقش بند ہے نامِ ابو الحسین جس نخلِ پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاںاک شاخ ان میں سے ہے بنامِ ابو الحسین مستوں کو اے کریم بچائے خمار سےتا دورِ حشر دورۂ جامِ ابو الحسین اُن کے بھلے سے لاکھوں غریبوں کا ہے بھلایا رب زمانہ باد بکامِ ابو الحسین میلا لگا ہے شانِ مسیحا کی دید ہےمُردے جِلا رہا ہے خرامِ ابو الحسین (ق) سر گشتہ مہر و مہ ہیں پر اب تک کھلا ن۔۔۔
مزیدزائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو آنکھیں اندھی ہوئی ہیں اُن کو ترس جانے دو سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتیبوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں نغمۂ ’’قُم‘‘ کا ذرا کانوں میں رس جانے دو ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو گھٹریاں توشۂ امّید کی کس جانے دو دیدِ گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پرہم صفیرو! ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو آتشِ دل بھی تو بھڑکاؤ ادب واں نالوکون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو یوں تنِ زار کے در پے ہوئے دل کے شعلو شیوۂ خانہ براندازیِ خس جانے دو اے رؔضا! آہ کہ کیوں سہل کٹیں جرم کے سالدو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو (حدائقِ بخشش)۔۔۔
مزیدچمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسوحور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو کی جو بالوں سے تِرے روضے کی جاروب کشیشب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو ہم سیہ کاروں پہ یا رب! تپشِ محشر میں سایہ افگن ہوں تِرے پیارے کے پیارے گیسو چرچے حوروں میں ہیں دیکھو تو ذرا بالِ براق سنبلِ خلد کے قربان اتارے گیسو آخرِ حج غمِ امّت میں پریشاں ہو کرتیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوشکہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائےچھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمھارے گیسو کعبۂ جاں کو پنھایا ہے غلافِ مشکیں اُڑ کر آئے ہیں جو ابرو پہ تمھارے گیسو سلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیںسجدۂ شکر کے کرتے ہیں اشارے گیسو مشک بو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑا ان سےحوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو دیکھو قرآں میں شبِ قدر ہے تا مطلعِ فجر یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو بھینی۔۔۔
مزیدزمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہدِ گل کوالٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو بہاریں آئیں جوبن پر گھرا ہے ابر رحمت کالب مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو ملے لب سے وہ مشکیں مُہر والی دم میں دم آئےٹپک سن کر ’’قُمِ‘‘ عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو مچل جاؤں سوالِ مدّعا پر تھام کر دامنبہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تأمل کو دُعا کر بختِ خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے ہٹایا صبحِ رخ سے شانے نے شب ہائے کاکُل کو زبانِ فلسفی سے امن خرق والتیام اسراپناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو دو شنبہ مصطفیٰ کا جمعۂ آدم سے بہتر ہےسکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمل کو وفورِ شانِ رحمت کے سبب جرأت ہے اے پیارےنہ رکھ بہرِ خُدا شرمندہ عرضِ بے تأمل کو پریشانی میں نام ان کا دلِ صد چاک سے نکلااجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسّل کو رؔضا نُہ سبزۂ گردوں ہیں کوتل جس کے موکب کےکوئی کیا لکھ سکے اس کی سوا۔۔۔
مزیدیاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کوپھر دکھا دے وہ رخ اے مہر ِفروزاں ہم کو دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلیپھر دکھا دے وہ ادائے گُلِ خنداں ہم کو کاش آویزۂ قندیلِ مدینہ ہو وہ دل جس کی سوزش نے کیا رشکِ چراغاں ہم کو عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوادو قدم چل کے دکھا سروِ خراماں ہم کو شمعِ طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دورہاں جَلا دے شرِرِ آتشِ پنہاں ہم کو خوف ہے سمع خراشیِّ سگِ طیبہ کاورنہ کیا یاد نہیں نالۂ و افغاں ہم کو خاک ہو جائیں درِ پاک پہ حسرت مٹ جائےیا الٰہی! نہ پھرا بے سر و ساماں ہم کو خارِ صحرائے مدینہ نہ نکل جائے کہیںوحشتِ دل نہ پھرا کوہ و بیاباں ہم کو تنگ آئے ہیں دو عالَم تِری بے تابی سےچین لینے دے تپِ سینۂ سوزاں ہم کو پاؤں غربال ہوئے راہِ مدینہ نہ ملی اے جنوں اب تو ملے رخصتِ زنداں ہم کو میرے ہر ۔۔۔
مزیدحاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھوکعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو رکنِ شامی سے مٹی وحشتِ شامِ غربتاب مدینے کو چلو صبحِ دل آرا دیکھو آبِ زم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں آؤ جودِ شہِ کوثر کا بھی دریا دیکھو زیرِ میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹےابرِ رحمت کا یہاں زور برسنا دیکھو دھوم دیکھی درِ کعبہ پہ بے تابوں کیاُن کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو مثلِ پروانہ پھرا کرتے تھے جس شمع کے گرد اپنی اُس شمع کو پروانہ یہاں کا دیکھو خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ قصرِ محبوب کے پردے کا بھی جلوہ دیکھو واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایایاں سیہ کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو اوّلیں خانۂ حق کی تو ضیائیں دیکھیں آخریں بیتِ نبی کا بھی تجلّا دیکھو زینتِ کعبہ میں تھا لاکھ عروسوں کا بناؤجلوہ فرما یہاں کونین کا دولھا دیکھو ایمنِ طور کا تھا رکنِ یمانی میں فروغ شعلۂ طور یہاں انجمن آرا دیکھو مہرِ مادر کا مزہ۔۔۔
مزید