آنکھیں رو رو کے سُجانے والےجانے والے نہیں آنے والے کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہےارے او چھاؤنی چھانے والے ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے ارے بد فال بری ہوتی ہے دیس کا جنگلا سنانے والے سن لیں اَعدا! میں بگڑنے کا نہیںوہ سلامت ہیں بنانے والے آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغاماو درِ یار کے جانے والے پھر نہ کروٹ لی مدینے کی طرفارے چل جھوٹے بہانے والے نفس! میں خاک ہوا تو نہ مٹاہے مِری جان کے کھانے والے جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو!طیبہ سے خُلد میں آنے والے نیم جلوے میں دو عالم گلزار واہ وا رنگ جمانے والے حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا کہتے ہیں اگلے زمانے والے وہی سدھوم ان کی ہے مَا شَآءَ اللہ!مِٹ گئے آپ مٹانے والے لبِ سیراب کا صدقہ پانیاے لگی دل کی بجھانے والے ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے ہو گیا دَھک سے کلیجا میرا ہائے رخصت کی سنانے والے ۔۔۔
مزیدکیا مہکتے ہیں مہکنے والےبو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے جگمگا اٹھی مِری گور کی خاکتیرے قربان چمکنے والے مہِ بے داغ کے صدقے جاؤںیوں دمکتے ہیں دمکنے والے عرش تک پھیلی ہے تابِ عارضکیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے گُل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں نخل طوبیٰ پہ چہکنے والے عاصیو! تھام لو دامن اُن کاوہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے ابرِ رحمت کے سلامی رہناپھلتے ہیں پودے لچکنے والے ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے سنّیو! ان سے مدد مانگے جاؤپڑے بکتے رہیں بکنے والے شمعِ یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے خاک ہو جائیں بھڑکنے والے موت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب اِک ذرا سو لیں بلکنے والے کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دوکس کے ہو کر رہیں تکھنے والے دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط بجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھیکیا ہنسا غنچے چٹکنے والے نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہواآہ او پتّے کھڑکنے والے جب گرے منھ سوئ۔۔۔
مزیدراہ پُر خار ہے کیا ہونا ہےپاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے خشک ہے خون کہ دشمن ظالم سخت خوں خوار ہے کیا ہونا ہے ہم کو بدِ کر وہی کرنا جس سےدوست بیزار ہے کیا ہونا ہے تن کی اب کون خبر لے ہے ہےدل کا آزار ہے کیا ہونا ہے میٹھے شربت دے مسیحا جب بھیضد ہے انکار ہے کیا ہونا ہے دل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے پَر کٹے تنگ قفس اور بلبل نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ وہ خبر دار ہے کیا ہونا ہے ارے او مجرم بے پروا دیکھسر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے تیرے بیمار کو میرے عیسیٰ غش لگاتار ہے کیا ہونا ہے نفسِ پُر زور کا وہ زور اور دل زیر ہے زار ہے کیا ہونا ہے کام زنداں کے کیے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے ہائے رے نیند مسافر تیری کوچ تیار ہے کیا ہونا ہے دور جانا ہے رہا دن تھوڑاراہ دشوار ہے کیا ہونا ہے گھر بھی جانا ہے مسافر کہ نہیں مت پہ کیا مار ہے کیا ہونا ہے ج۔۔۔
مزیدکس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہےہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے مانگ من مانتی منھ مانگی مرادیں لے گا نہ یہاں ’’نا‘‘ ہے نہ منگتا سے یہ کہنا ’’کیا ہے‘‘ پند کڑوی لگے ناصح سے ترش ہواے نفس زہرِ عصیاں میں ستمگر تجھے میٹھا کیا ہے ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرےاس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجایوں نہ فرما کہ تِرا رحم میں دعویٰ کیا ہے صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع اتنی نسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے ق: بے بسی ہو جو مجھے پرسشِ اعمال کے وقت دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے کاش فریاد مِری سُن کے یہ فرمائیں حضور ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے کون آفت زدہ ہے کس پہ بلا ٹوٹی ہےکس مصیبت میں۔۔۔
مزیدسَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے باغِ خلیل کا گُلِ زیبا کہوں تجھے حرماں نصیب ہوں تجھے امّید گہ کہوں جانِ مراد و کانِ تمنّا کہوں تجھے گلزارِ قُدس کا گُلِ رنگیں ادا کہوں درمانِ دردِ بلبلِ شیدا کہوں تجھے صبحِ وطن پہ شامِ غریباں کو دوں شرف بے کس نواز گیسوؤں والا کہوں تجھے اللہ رے تیرے جسمِ منوّر کی تابشیں اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے بے داغ لالہ یا قمرِ بے کلف کہوں بے خار گلبنِ چمن آرا کہوں تجھے مجرم ہوں اپنے عفو کا ساماں کروں شہا یعنی شفیع روزِ جزا کا کہوں تجھے اِس مردہ دل کو مژدہ حیاتِ ابد کا دوں تاب و توانِ جانِ مسیحا کہوں تجھے تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے کہہ لے گی سب کچھ اُن کے ثنا خواں کی خامشیچپ ہو رہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے لیکن رضؔا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیاخالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے حدائقِ بخشش ۔۔۔
مزیدمژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے عرش سا فرشِ زمیں ہے فرشِ پا عرشِ بریں کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں بَارَکَ اللہ مرجعِ عالَم یہی سرکار ہے جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھر دیےصدقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی درکار ہے لب زلالِ چشمۂ کُن میں گندھے وقتِ خمیر مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے گورے گورے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے نور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے تیرے ہی دامن پہ ہر عاصی کی پڑتی ہے نظر ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بار ہے جوشِ طوفاں بحرِ بے پایاں ہَوا ناساز گار نوح کے مولیٰ کرم کر لے تو بیڑا پار ہے رحمۃُ لّلعالمیں تیری دہائی دب گیااب تو مولیٰ بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے حیرتیں ہیں آئینہ دارِ وُفورِ وصفِ گُل اُن کے بلبل کی خموشی بھی لبِ اظہار ہے گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضؔا سے ۔۔۔
مزیدعرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو ساری بہارِ ہشت خُلد چھوٹا سا عطردان ہے عرش پہ جاکے مرغِ عقل تھک کے گراغش آ گیااور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دھام کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے اِک تِرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہوجان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ!گلبنِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ تِرا گمان ہے پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز سدرہ سے تاز میں جسے نرم سی اک اڑان ہے ۔۔۔
مزیداٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلالِ باری عتاب میں ہے جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عشقِ چشمِ والا کبابِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے اُنھیں کی بو مایۂ سمن ہے اُنھیں کا جلوہ چمن چمن ہے اُنھیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنھیں کی رنگت گلاب میں ہے تِری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا! حیات جاں کا رکاب میں ہے ممات اَعدا کا ڈاب میں ہے سیہ لباسانِ دارِ دنیا و سبز پوشانِ عرشِ اعلیٰ ہر اک ہے اُن کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے وہ گُل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوۂ مُبارک دکھا دو وہ لب کہ آبِ حیواں کا لطف جن کے ۔۔۔
مزیداندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے نہ ہو مایوس آتی ہے صدا گورِ غریباں سے نبی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لےاندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آ گئی سر پرکہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹتا دل اُکتاتا خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے زمیں تپتی کٹیلی راہ بھاری بوجھ گھائل پاؤںمصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے نہ چونکا دن ہے ڈھلنے پر تِری منزل ہوئی کھوٹیارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے رضؔا منزل تو جیسی ہے وہ اک میں کیا سبھی کو ہے تم اس کو روتے ہو یہ تو کہو یاں ہاتھ خالی ہے حدائقِ بخشش۔۔۔
مزیدگنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے اسے بو کر تِرے رب نے بنا رحمت کی ڈالی ہے تمھاری شرم سے شانِ جلالِ حق ٹپکتی ہے خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے زہے خود گم جو گم ہونے پہ ڈھونڈے کہ کیا پایا ارے جب تک کہ پانا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے میں اک محتاجِ بے وقعت گدا تیرے سگِ در کا تِری سرکار والا ہے تِرا دربار عالی ہے تِری بخشش پسندی عذر جوئی توبہ خواہی سے عمومِ بے گناہی جرم شانِ لا اُبالی ہے ابو بکر و عمر، عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں تِرا سروِ سہی اس گلبنِ خوبی کی ڈالی ہے رضؔا قسمت ہی کھل جائے جو گیلاں سے خطاب آئے کہ تو ادنیٰ سگِ درگاہِ خدامِ معالی ہے حدائقِ بخشش ۔۔۔
مزیدسونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں تیری گھٹری تاکی ہے اور تونے نیند نکالی ہے یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گاہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اٹھ پیارے تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جمائی انگڑائی نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے جگنو چمکے پتّا کھڑکے مجھ تنہا کا دل دھڑ کے ڈر سمجھائے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے بن میں گھٹا کی بھیانک صورت کیسی کالی کالی ہے پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اوندھے منھمینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے ساتھی ساتھی کہہ کے پکاروں ساتھی ہو تو جواب آئے پھر جھنجھلا کر سر دے پٹکوں چل رے مولیٰ وا۔۔۔
مزیدنبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِیْ ہے وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے ہے بے تاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہروِ لا مکاں کی گلی ہے نکیریں کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبِیْ اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے صبا ہے مجھے صرصرِ دشتِ طیبہ اِسی سے کلی میرے دل کی کھلی ہے تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دل ابو بکر، فاروق، عثماں، علی ہے خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے کروں عرض کیا تجھ سے اے عالِمُ السّر کہ تجھ پر مِری حالتِ دل کھلی ہے تمنّا ہے فرمائیے روزِ محشر یہ تیری رہائی کی چٹّھی ملی ہے جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو نہ کچھ قصد کیجے یہ قصدِ دلی ے تِرے در کا درباں ہے جبریلِ اعظم تِرا مدح خواں ہر نبی و ولی ہے ش۔۔۔
مزید