نقشہ تری گلی کا ہماری نظر میں ہے اِک کیف اِک سرور سا قلب و جگر میں ہے کیوں کر جبیں جھکے نہ دو عالم کی اس جگہ تکمیل رفعتوں کی ترے سنگِ در میں ہے آسُودہ ہوگیا ہے مرا اِضطرابِ دِید کیا دِلکشی مدینے کے دیوار دور میں ہے نقشِ قدم سے تیرے منوّر ہیں دو جہاں ہر ذرّہ آفتاب تری رِہگذر میں ہے منزل بقدر شوق ہےمجھ سے بہت قریب راہِ دیار قدس مری چشم تر میں ہے اپنے ہی جیسا کیسے انہیں مان لیجئے! جو وصف ہے بشیر میں وہ کب بشر میں ہے خاؔلد ہیں راہ ِ شوق کے آداب مختلف بیٹھا ہوا ہوں اور مرا دِل سفر میں ہے۔۔۔
مزیدمریض ہجر کا مشکل ہے جینا یارسول اللہ دکھا دیجئے دکھا دیجئے مدینہ یا رسول اللہ غریقِ بحرِ عصیاں ہیں گرفتار ِ مصیبت ہیں کنارے سے لگا دیجئے سفینہ یا رسو ل اللہ نچھاور گنبدِ خضرا پہ جا کر جان و دل کردوں کوئی ایسا بھی آجائے مہینہ یا رسول اللہ چھپا لو اب چھپا لو اپنے دامانِ شفاعت میں خطاؤں پر ہے نادم یہ کمینہ یا رسول اللہ کشادہ ہوگئی آغوش رحمت اے زہے قسمت جو آیا شرمِ عصیاں سے پسینہ یا رسول اللہ غمِ دنیا کی ظلمت مجھ سے کترا کر گزر جائے منّور اس قدر ہوجائے سینہ یا رسول اللہ خزانہ رحمتوں کا رات دن بٹتا ہے منگتوں میں تمہارا دَر ہے رحمت کا خزینہ یا رسول اللہ حضور اپنے کرم اپنی عطاؤں پر نظر کیجئے دعاء کا بھی نہیں مجھ کو قرینہ یا رسول اللہ عطا کردو وہ معراج ِ تصّور اپنے خاؔلد کو جدھر دیکھے نظر آئے مدینہ یا رسول اللہ۔۔۔
مزیدمصطفی مجتبی محمد ہیں شانِ رب العلیٰ محمد ہیں دردِ دِل کی دَوا محمد ہیں ہر مرض کی شفا محمد ہیں رحمتِ دو جہاَ ں نوید ِ کرم بحرِ جو دو سخا محمد ہیں آدم و نوح سے کوئی پوچھے کیسے حاَجت روا محمد ہیں چشم ِ بینا سے دیکھ اے زاہد ہر طرف جا بجا محمد ہیں ان سے کونین میں اجالا ہے نورِ حق کی ضِیاء محمد ہیں یہ ملائک بھی راز پا نہ سے کون بتلائے کیا محمد ہیں میرا ایمان ہے یہی خاؔلد میرے مشکل کشا محمد ہیں۔۔۔
مزیدمرحبا صَل علیٰ شافعِ عصیاں آئے چارہ ساز آئے مرے درد کا درماں آئے ذرّے ذرے کی زباں پر ہے انہیں کی توصیف بزمِ کونین میں کونین کے سلطان آئے مل گیا ہے مجھے دامانِ نبی کا سایہ اب مرے پاس ذرا گردش دَوراں ہے ٹوٹی زنجیر غلامی کی کھلا بابِ کرم آپ جب کرتے ہوئے مشکلیں آساں آئے ہم نے لُٹ کر رہ ِ طیبہ میں یہ منظر دیکھا پیشوائی کو ہماری سروساماں آئے اللہ اللہ یہ غلامانِ محمد کا مقام در پہ ارماں گدائی لیے سلطاں آئے رفعت ِ عرش نے بھی فرش ِ زمیں کو چوما خاؔلد ِ اس شانِ سے وہ خسروِ خوباں آئے۔۔۔
مزیدہیں اہل محبت نغمہ سرا سبحان اللہ سبحان اللہ ہر سمت ہے شورِ صلی علیٰ سبحان اللہ سبحان اللہ ضو بار ہوئے محبوب خدا سبحان اللہ سبحان اللہ ہیں نور سے جگمگ ارض وسما سبحان اللہ سبحان اللہ یکتائے جہاں ہیں جو بخدا ثانی ہی نہیں کوئی جن کا وہ آج ہوئے عالم آرا سبحان اللہ سبحان اللہ اے ختم ِ رسل اے سرورِ کل اے غایت کل ہادی سبل ہے کعبۂ جاں دربار ترا سبحان اللہ سبحان اللہ جو رحمت ہے سرتا بقدم ہیں جس کے سب ممنونِ کرم وہ ابرِ کرم ہرسوبرسا سبحان اللہ سبحان اللہ اے نازش ِ آدم جانِ کرم اے مظہر ِحق سے نورِ اتم ہے دیدِ تری دیدارِ خدا سبحان اللہ سبحان اللہ ہر مشکل میں کام آتے ہیں ہر بگڑی بات بناتے ہیں کونین کے ہیں وہ عقدہ کشا سبحان اللہ سبحان اللہ خاؔلد یہ وظیفہ ہےمیرا ضائع تو نہیں کوئی لمحہ یا سیّدنا یا ملجا نا سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔
مزیدترے کرم کا خدائے مجیب کیا کہنا عطا کیا مجھے عشقِ حبیب کیا کہنا مریض ِ غمِ ہیں بڑے خوش نصیب کیا کہنا کہ ہے حبیب ِ دو عالم طبیب کیا کہنا خدا گواہ کہ آسودۂ حیات ہیں ہم غمِ حبیب ہے ہم کو نصیب کیا کہنا جِدھر بھی جاتا ہوں پاتا ہوں سامنے ان کو نظر نوازی حسنِ حبیب کیا کہنا مریض ہجر سے کہتی ہے دل کی ہر دھڑکن سکوں نواز ہے ذِکر حبیب کیا کہنا قسم خدا کی شہنشاہِ ہفت کشور ہے گدائے دَر گہہ کوئے حبیب کیا کہنا خدائی مانگنے والوں کو بخش دیتے ہیں عطا نرالی ہے بخشش عجیب کیا کہنا نظر میں سرور عالم کا آستانہ ہے میں دور رہ کے ہوں اتنا قریب کیا کہنا اس آستانہ اقدس کی خیر ہو خاؔلد جہاں پہ پلتے ہیں مجھ سے غریب کیا کہنا۔۔۔
مزیداہل جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب جب تک تری نظر کا اِرشاد انہیں نصیب اس کی جگہ ہے دامنِ رحمت پناہ میں جِس بے نوا کو کائی سہارا نہیں نصیب ایمان و آگہی ہیں وہی، زندگی وہی ان کی عطا نہ ہو تو گزارا نہیں نصیب وہ عرصۂ حیات تو بدتر ہے موت سے جِس لمحہ ہم کو ان کا نظارا نہیں نصیب کس پر کرم نہیں شہ بے کس نواز کا ہے کون جس کو ان کا اتارا نہیں نصیب محروم ہے وہ رحمت ِ پروردِگار سے جس انجمن کو ذِکر تمہارا نہیں نصیب جو پا چکا سفینہ عُشاقِ مصطفی موجو! تمہیں بھی ایسا کنارا نہیں نصیب دل بھی دیا تو سرورِ کونین کو دیا ہم نے خدا کے فضل سے ہارا نہیں نصیب خاؔلد اس آستاں پہ جبیں جگمگا اٹھی یہ کیسے مان لوں کہ ستارا نہیں نصیب۔۔۔
مزیدغم کے بھنور سے کون نکالے ترے سوا دِل کا سفینہ کون سنبھالے ترے سوا اے تاجدارِ حشریہ کس کی مجال ہے کھولے درِ نجات کے تالے ترے سوا لارَیب تیری ذات سراجٌ منیر ہے منسوب ہوں تو کس سے اُجالے ترے سوا قہار تختِ عدل پہ اور دم بخود ہے حشر دیکھیں خدا کو کوئی منالے ترے سوا تجھ سے نہیں تو کس سے کہیں داستانِ غمِ ہے کون مشکلوں کو جو ٹالے ترے سوا سب دے رہے ہیں وسعت ِ داماں کا واسطہ کوئی نہیں جو سب کو چھپالے ترے سوا خاؔلد یہ پو چھنا ہے تو محبوب ِ رب سے پوچھ کیا چاہیں تیرے چاہنے والے ترے سوا۔۔۔
مزیدمُحمَّد مُحمَّد پکارے چلا جا کرم کے سہارے سہارے چلا جا محمد ہیں جب دینے والے تو کیا غم مرادوں کا دامن پسارے چلا جا اگر حشر میں آبرو چاہتا ہے جو پائے محمد پہ وارے چلا جا خدا کی قسم ہر مصیبت ٹلے گی انہیں کو مسلسل پکارے چلا جا دُرودوں کے موتی ہیں تارِ نفس میں یہی زندگی ہے گزارے چلا جا مُحمّد تو ہیں نقشِ نقاشِ ہستی یہی نقش دل میں اتارے چلا جا سنا نعتیں کہہ کہہ کے دنیا کو خاؔلد سنورتا چلا جا سنوارے چلا جا۔۔۔
مزیدہر رنگ میں ان کا جلوہ ہے ہرحُسن میں اُن کی رعنائی ہر قلب میں اُن کا مسکن ہے ہر آنکھ میں ان کی زیبائی بے چین ہوں یاد بطحا میں، سہتا ہوں جُدائی کے صدمے دِل ہجر نبی میں روتا ہے، تڑپاتی ہے شب کی تنہائی منہ مانگی مرادیں ملتی ہیں، ہر غم کا مداوا ہوتا ہے دَربار نبی اکرم سے جو چیزبھی مانگی وہ پائی! جو راحت جاں ہے وجہ سکوں ہر درد کا درماں کیوں نہ کہوں وہ یاد تمہاری ہے آقا جو ھر مشکل میں کام آئی کہتے ہیں جسے سب خلدِ نظر سایہ ہے تمارے دامن کا نسبت ہے جسے اس دامن سےکچھ غم نہ فِکر رُسوائی جب لطف ہے شاہِ دو عالم اے حُسن ِ مجسم جانِ کرم ہم بھی ہوں وہاں حاضر کہ جہاں ہے آپ کی جلوہ آرائی یہ ان کے کرم کا صدقہ ہے، یہ ان کی عطا کی باتیں ہیں خُدّام کو بخشا تاجِ شہی منگتوں پہ تصّدق دارائی کشتی محبت سے لاکھوں طوفانِ حوادث ٹکرائے پِھر بھی سرِ۔۔۔
مزیددعا ہے زندگانی یوں بسر ہو ثنا خوانی نبی کی عمر بھر ہو اسی جانب کو جھک جاتا ہے کعبہ مرے محبوب رُخ تیرا جِدھر ہو الہٰی اس طرح دنیا سے جاؤں جمالِ مصطفی پیش نظر ہو جسے نسبت ہے ان کے نقشِ پا سے وہ ذَرّہ کیوں نہ صدر شکِ قمر ہو مدینے اِس طرح جاؤں خدایا تمنّائے نبی زادِ سَفر ہو مری تاریک راتیں جگمگا دو کبھی سوئے غریباں بھی نظر ہو ہر اساں ہو مصیبت میں وہ کیو ں کر تمہارے لطف پر جس کی نظر ہو وہیں تربت بنے خالدؔ کی یارب ترے محبوب کی جو رِہ گزر ہو۔۔۔
مزیدتعیّنات کی حد میں نہیں مقام ِ حضور کہ اوجِ عرش سے بالا ہے اَوجِ بامِ حضور جبیں حرم میں جھکی دِل جھکا مدینے میں ضرور روحِ عبادت ہے احترام ِ حضور لبِ خلوص پہ جب مصطفی کانامِ آیا تو روح جھوم کے پڑھنے لگی سلامِ حضور خدا گواہ سراپا دُرود بن جائے جسے نصیب ہو قسمت سے ایک جامِ حضور خدا غنی ہے کمی کچھ نہیں خزانے میں جو مانگتا ہے وہ مانگو مگر بنامِ حضور جہاں جہاں بھی مصائب ہمیں ستاتے ہیں ہزاروں رحمتیں آتا ہے لے کے نام ِ حضور وہی ہیں ساقئ تسنیم وساقئ کوثر! ! نہ تشنہ کام رہیں گے یہ تشنہ کامِ حضور زبان ِ خواجۂ کونین ہے خدا کی زبان کلام ِ خالق ِ کونین ہے کلامِ حضور سلام کرتی ہے ہر موج مجھ کو یوں خاؔلد مرے سفینے پہ لکھا ہو ا ہے نامِ حضور۔۔۔
مزید