جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


نعت   (894)





دشمن ہے گلے کا ہار آقا

دشمن ہے گلے کا ہار آقالُٹتی ہے مری بہار آقا تم دل کے لیے قرار آقاتم راحتِ جانِ زار آقا تم عرش کے تاجدار مولیٰتم فرش کے با وقار آقا دامن دامن ہوائے دامنگلشن گلشن بہار آقا بندے ہیں گنہگار بندےآقا ہیں کرم شعار آقا اِس شان کے ہم نے کیا کسی نےدیکھے نہیں زینہار آقا بندوں کا اَلم نے دل دُکھایااَور ہو گئے بے قرار آقا آرام سے سوئیں ہم کمینےجاگا کریں با وقار آقا ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھابندوں کا اُٹھائیں بار آقا جن کی کوئی بات تک نہ پوچھےاُن پر تمھیں آئے پیار آقا پاکیزہ دلوں کی زینت ایمانایمان کے تم سنگار آقا صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیںہم بھی ہیں اُمیدوار آقا چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی!آنا مرے غمگسار آقا اﷲ نے تم کو دے دیا ہےہر چیز کا اختیار آقا ہے خاک پہ نقشِ پا تمہاراآئینہ بے غبار آقا عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھیبگڑی کے تمھیں ہو یار آقا سرکار کے تاجدار بندےسرکار۔۔۔

مزید

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

واہ کیا مرتبہ ہوا تیراتو خدا کا خدا ہوا تیرا تاج والے ہوں اِس میں یا محتاجسب نے پایا دیا ہوا تیرا ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرےہے خزانہ بھرا ہوا تیرا آج سنتے ہیں سننے والے کلدیکھ لیں گے کہا ہوا تیرا اِسے تو جانے یا خدا جانےپیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا گھرہیں سب بند دَرہیں سب تیغایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا کام توہین سے ہے نجدی کوتو ہوا یا خدا ہوا تیرا تاجداروں کا تاجدار بنابن گیا جو گدا ہوا تیرا اور میں کیا لکھوں خدا کی حمدحمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا جو ترا ہو گیا خدا کا ہواجو خدا کا ہوا ہوا تیرا حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کےہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئینام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا جسے تو نے دیا خدا نے دیادَین رب کا دیا ہوا تیرا ایک عالم خدا کا طالب ہےاور طالب خدا ہوا تیرا بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلےکہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا میری طاعت سے میرے جرم فزوںلطف سب سے بڑھا ہوا تیر۔۔۔

مزید

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیاجب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھاغم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنےتیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیببند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطےقسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھااُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پرجان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیالناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا ذرّۂ کوے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیبپاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمالخود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتن۔۔۔

مزید

سر سے پا تک ہر ادا ہے لاجواب

سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجوابخوبرویوں میں نہیں تیرا جواب حُسن ہے بے مثل صورت لاجوابمیں فدا تم آپ ہو اپنا جواب پوچھے جاتے ہیں عمل میں کیا کہوںتم سکھا جاؤ مرے مولیٰ جواب میری حامی ہے تری شانِ کریمپُرسشِ روزِ قیامت کا جواب ہے دعائیں سنگِ دشمن کا عوضاِس قدر نرم ایسے پتھر کا جواب پلتے ہیں ہم سے نکمّے بے شمارہیں کہیں اُس آستانہ کا جواب روزِ محشر ایک تیرا آسراسب سوالوں کا جوابِ لاجواب میں یدِ بیضا کے صدقے اے کلیمپر کہاں اُن کی کفِ پا کا جواب کیا عمل تو نے کیے اِس کا سوالتیری رحمت چاہیے میرا جواب مہر و مہ ذرّے ہیں اُن کی راہ کےکون دے نقشِ کفِ پا کا جواب تم سے اُس بیمار کو صحت ملےجس کو دے دیں حضرت عیسیٰ جواب دیکھ رِضواں دشتِ طیبہ کی بہارمیری جنت کا نہ پائے گا جواب شور ہے لطف و عطا کا شور ہےمانگنے والا نہیں سنتا جواب جرم کی پاداش پاتے اہلِ جرماُلٹی باتوں کا نہ ہو سیدھا جواب پر ت۔۔۔

مزید

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاببھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب جلوہ فرما ہو جو میرا آفتابذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب عارضِ پُر نور کا صاف آئینہجلوۂ حق کا چمکتا آفتاب یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہےزُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیےعارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب ہے شبِ دیجور طیبہ نور سےہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب بخت چمکا دے اگر شانِ جمالہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھےکیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب ناخدائی سے نکالا آپ نےچشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب ذرّہ کی تابش ہے اُن کی راہ میںیا ہوا ہے گِر کے ٹھنڈا آفتاب گرمیوں پر ہے وہ حُسنِ بے زوالڈھونڈتا پھرتا ہے سایہ آفتاب اُن کے دَر کے ذرّہ سے کہتا ہے مہرہے تمہارے دَر کا ذرّہ آفتاب شامِ طیبہ کی تجلی دیکھ کرہو تری تابش کا تڑکا آفتاب روے مولیٰ سے اگر اُٹھتا نقابچرخ کھا کر غش میں گرتا آفتاب کہہ رہی۔۔۔

مزید

پر نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادتپرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت جلوہ ہے حق کا جلوہ صبح شبِ ولادتسایہ خدا کا سایہ صبح شبِ ولادت فصلِ بہار آئی شکلِ نگار آئیگلزار ہے زمانہ صبح شبِ ولادت پھولوں سے باغ مہکے شاخوں پہ مُرغ چہکےعہدِ بہار آیا صبح شبِ ولادت پژ مُردہ حسرتوں کے سب کھیت لہلہائےجاری ہوا وہ دریا صبح شبِ ولادت گل ہے چراغِ صرَصَر گل سے چمن معطرآیا کچھ ایسا جھونکا صبح شبِ ولادت قطرہ میں لاکھ دریا گل میں ہزار گلشننشوونما ہے کیا کیا صبح شبِ ولادت جنت کے ہر مکاں کی آئینہ بندیاں ہیںآراستہ ہے دنیا صبح شب ولادت دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہےپھیلا نیا اُجالا صبح شبِ ولادت چِٹکے ہوئے دِلوں کے مدّت کے میل چھوٹےاَبرِ کرم وہ برسا صبح شب ولادت بلبل کا آشیانہ چھایا گیا گلوں سےقسمت نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت اَرض و سما سے منگتا دوڑے ہیں بھیک لینےبانٹے گا کون باڑا صبح شبِ ولادت ۔۔۔

مزید

کیا مژدہٗ جاں بخش سنائے گا قلم آج

کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آجکاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج آمد ہے یہ کس بادشہِ عرش مکاں کیآتے ہیں فلک سے جو حسینانِ اِرم آج کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میںآتا ہے نظر نقشۂ گلزارِ اِرم آج نذرانہ میں سر دینے کو حاضر ہے زمانہاُس بزم میں کس شاہ کے آتے ہیں قدم آج بادل سے جو رحمت کے سرِ شام گھرے ہیںبرسے گا مگر صبح کو بارانِ کرم آج کس چاند کی پھیلی ہے ضیا کیا یہ سماں ہےہر بام پہ ہے جلوہ نما نورِ قدم آج کھلتا نہیں کس جانِ مسیحا کی ہے آمدبت بولتے ہیں قالبِ بے جاں میں ہے دَم آج بُت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہےمِل مِل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج کعبہ کا ہے نغمہ کہ ہوا لوث سے میں پاکبُت نکلے کہ آئے مرے مالک کے قدم آج تسلیم میں سر وجد میں دل منتظر آنکھیںکس پھول کے مشتاق ہیں مُرغانِ حرم آج اے کفر جھکا سر وہ شہِ بُت شکن آیاگردن ہے تری دم میں تہِ تیغِ ۔۔۔

مزید

دشت مدینہ کی ہے عجب پر بہار صبح

دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبحہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح منہ دھو کے جوے شِیر میں آئے ہزار صبحشامِ حرم کی پائے نہ ہر گز بہار صبح ﷲ اپنے جلوۂ عارض کی بھیک دےکر دے سیاہ بخت کی شب ہاے تار صبح روشن ہے اُن کے جَلوۂ رنگیں کی تابشیںبلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح رکھتی ہے شامِ طیبہ کچھ ایسی تجلیاںسو جان سے ہو جس کی اَدا پر نثار صبح نسبت نہیں سحر کو گریبانِ پاک سےجوشِ فروغ سے ہے یہاں تار تار صبح آتے ہیں پاسبانِ درِ شہ فلک سے روزستر ہزار شام تو ستر ہزار صبح اے ذرّۂ مدینہ خدارا نگاہِ مہرتڑکے سے دیکھتی ہے ترا انتظار صبح زُلفِ حضور و عارضِ پُر نور پر نثارکیا نور بار شام ہے کیا جلوہ بار صبح نورِ ولادت مہِ بطحا کا فیض ہےرہتی ہے جنتوں میں جو لیل و نہار صبح ہر ذرّۂ حَرم سے نمایاں ہزار مہرہر مہر سے طلوع کناں بے شمار صبح گیسو کے بعد یاد ہو رُخسارِ پاک کیہو مُشک بار شام کی کافور۔۔۔

مزید

جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیح

جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیحہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح زوال مہر کو ہو ماہ کا جمال گھٹےمگر ہے اَوج ابد پر شبابِ حُسنِ ملیح زمیں کے پھول گریباں دریدۂ غمِ عشقفلک پہ بَدر دل افگار تابِ حُسنِ ملیح دلوں کی جان ہے لطفِ صباحتِ یوسفمگر ہوا ہے نہ ہو گا جوابِ حُسنِ ملیح الٰہی موت سے یوں آئے مجھ کو میٹھی نیندرہے خیال کی راحت ہو خوابِ حُسنِ ملیح جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھیہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حُسنِ ملیح زمینِ شور بنے تختہ گل و سنبلعرق فشاں ہو اگر آب و تابِ حُسنِ ملیح نثار دولتِ بیدار و طالعِ ازواجنہ دیکھی چشمِ زلیخا نے خوابِ حُسنِ ملیح تجلیوں نے نمک بھر دیا ہے آنکھوں میںملاحت آپ ہوئی ہے حجابِ حُسنِ ملیح نمک کا خاصہ ہے اپنے کیف پر لاناہر ایک شے نہ ہو کیوں بہرہ یابِ حُسنِ ملیح عسل ہو آب بنیں کوزہائے قند حبابجو بحرِ شور میں ہو عکس آبِ حُسنِ ملیح دل صباحتِ ۔۔۔

مزید

سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ

سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخکرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخعدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گلبہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماںاُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباںخوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہےزمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشیہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ دِلوں کے میل دُھلے گل کھلے ُسرور ملےعجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کیخدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورےکہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہےہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ ہمیشہ تو نے غلاموں کے ۔۔۔

مزید

ذاتِ والا پہ بار بار درود

ذاتِ والا پہ بار بار درودبار بار اور بے شمار درود رُوئے اَنور پہ نور بار سلامزُلفِ اطہر پہ مشکبار درود اُس مہک پر شمیم بیز سلاماُس چمک پہ فروغ بار درود اُن کے ہر جلوہ پر ہزار سلاماُن کے ہر لمعہ پر ہزار درود اُن کی طلعت پر جلوہ ریز سلاماُن کی نکہت پہ عطر بار درود جس کی خوشبو بہارِ خلد بسائےہے وہ محبوبِ گلعذار درود سر سے پا تک کرور بار سلاماور سراپا پہ بے شمار درود دل کے ہمراہ ہوں سلام فداجان کے ساتھ ہو نثار درود چارۂ جان درد مند سلاممرھمِ سینۂ فگار درود بے عدد اور بے عدد تسلیمبے شمار اور بے شمار درود بیٹھتے اُٹھتے جاگتے سوتےہو الٰہی مرا شعار درود شہر یارِ رُسل کی نذر کروںسب درودوں کی تاجدار درود گور بیکس کو شمع سے کیا کامہو چراغِ سرِِ مزار درود قبر میں خوب کام آتی ہےبیکسوں کی ہے یارِ غار درود اُنھیں کس کے دُرود کی پروابھیجے جب اُن کا کردگار درود ہے کرم ہی کرم کہ سنتے ہیں۔۔۔

مزید

رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسندصحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہےہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاساے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجبتیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاکدنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظرعاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند قُلْ کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنیاﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند حُورو فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیںہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کوپہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پرکونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔآئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید