کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلافاُن کی مدد رہے تو کرے کیا اَثر خلاف اُن کا عدو اسیرِ بَلاے نفاق ہےاُس کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف کرتا ہے ذکرِ پاک سے نجدی مخالفتکم بخت بد نصیب کی قسمت ہے بر خلاف اُن کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہےبالفرض اک زمانہ ہو اُن سے اگر خلاف اُٹھوں جو خوابِ مرگ سے آئے شمیم یاریا ربّ نہ صبحِ حشر ہو بادِ سحر خلاف قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پرہوتی نہیں غریب سے اُن کی نظر خلاف شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیںلاکھ اِمتثالِ امر میں دل ہو ادھر خلاف کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیںکرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف تعمیل حکمِ حق کا حسنؔ ہے اگر خیالارشادِ پاک سرورِ دیں کا نہ کر خلاف ذوقِ نعت ۔۔۔
مزید
رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرفرحمٰن خود ہے میرے طرفدار کی طرف جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہاربُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سےمائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلیمنہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کیجس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیںچُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھرآنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنےگردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہکچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرامیں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہےمرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاںمنہ ہون۔۔۔
مزید
طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال اس طرف بھی اک نظر اے برق تابان جمال اک نظر بے پردہ ہو جائے جو لمعان جمال مر دم دیدہ کی آنکھوں پر جو احسان جمال جل گیا جس راہ میں سرد خرامان جمال نقش پا سے کھل گئے لاکھوں گلستان جمال ہے شب غم اور گرفتاران ہجران جمال مہر کر ذرّوں پہ اے خورشید تابان جمال کر گیا آخر لباسِ لالہ و گل میں ظہور خاک میں ملتا نہیں خون شہیدانِ جمال ذرّہ ذرّہ خاک کا ہو جائے گا خورشید حشر قبر میں لے جائیں گے عاشق جو ارمانِ جمال ہو گیا شاداب عالم آ گئی فصل بہار اٹھ گیا پردہ کھلا باب گلستان جمال جلوۂ موئے محاسن چہرۂ انور کے گرد آبنوسی رحل پررکھا ہے قرآنِ جمال اُس کے جلوے سے نہ کیوں کافور ہوں ظلمات کفر پیش گاہِ نور سے آیا ہے فرمانِ جمال کیا کہوں کتنا ہے ان کی رہ گزر میں جوش حسن آشکارا ذرّہ ذرّہ سے ہے میدانِ جمال ذرّۂ دَر سے ترے ہم سفر ہوں کیا مہر و قمر یہ ہے سلطان جمال اور و۔۔۔
مزید
بزم محشر منعقد کر مہر سامان جمال دل کے آئینوں کو مدت سے ہے ارمان جمال اپنا صدقہ بانٹتا آتا ہے سلطان جمال جھولیاں پھیلائے دوڑیں بے نوایان جمال جس طرح سے عاشقوں کا دل ہے قربان جمال ہے یونہی قربان تیری شکل پر جان جمال بے حجابانہ دکھا دو اک نظر آن جمال صدقے ہونے کے لئے حاضر ہیں خواہان جمال تیرے ہی قامت نے چمکایا مقدر حسن کا بس اسی اِکّے سے روشن ہے شبستان جمال روح لے گی حشر تک خوشبوئے جنت کے مزے گر بسا دے گا کفن عطر گریبانِ جمال مر گئے عشاق لیکن وا ہے چشم منتظر حشر تک آنکھیں تجھے ڈھونڈیں گی اے جانِ جمال پیشگی ہی نقد جاں دیتے چلے ہیں مشتری حشر میں کھولے گا یارب کون دو مکان جمال عاشقوں کا ذکر کیا معشوق عاشق ہو گئے انجمن کی انجمن صدقے ہے اے جان جمال تیری ذُرّیت کا ہر ذرّہ نہ کیوں ہو آفتاب سر زمینِ حُسن سے نکلی ہے یہ کان جمال بزم محشر میں حسینان جہاں سب جمع ہیںپر نظر تیری طرف اٹھتی ہے۔۔۔
مزید
ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالمتو سلطانِ عالم ہے اے جانِ عالم یہ پیاری ادائیں یہ نیچی نگاہیںفدا جانِ عالم ہو اے جانِ عالم کسی اور کو بھی یہ دولت ملی ہےگداکس کے دَر کے ہیں شاہانِ عالم میں دَر دَر پھروں چھوڑ کر کیوں ترا دَراُٹھائے بَلا میری احسانِ عالم میں سرکارِ عالی کے قربان جاؤںبھکاری ہیں اُس دَر کے شاہانِ عالم مرے دبدبہ والے میں تیرے صدقےترے دَر کے کُتّے ہیں شاہانِ عالم تمہاری طرف ہاتھ پھیلے ہیں سب کےتمھیں پورے کرتے ہو ارمانِ عالم مجھے زندہ کر دے مجھے زندہ کر دےمرے جانِ عالم مرے جانِ عالم مسلماں مسلماں ہیں تیرے سبب سےمری جان تو ہی ہے ایمانِ عالم مرے آن والے مرے شان والےگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم تُو بحرِ حقیقت تو دریاے عرفاںترا ایک قطرہ ہے عرفانِ عالم کوئی جلوہ میرے بھی روزِ سیہ پرخدا کے قمر مہرِ تابانِ عالم بس اب کچھ عنایت ہوا اب ملا کچھانھیں تکتے رہنا فقیرانِ عالم ۔۔۔
مزید
چاند سے اُن کے چہرے پر گیسوئے مشک فام دودن ہے کھلا ہوا مگر وقتِ سحر ہے شام دو روئے صبیح اک سحر زلفِ دوتا ہے شام دوپھول سے گال صبح دم مہر ہیں لَالَہ فام دو عارضِ نور بار سے بکھری ہوئی ہٹی جو زلفایک اندھیری رات میں نکلے مہِ تمام دو اُن کی جبینِ نور پر زلفِ سیہ بکھر گئیجمع ہیں ایک وقت میں ضِدّیں صبح و شام دو خیر سے دن خدا وہ لائے دونوں حرم ہمیں دکھائےزمزم و بیرِ فاطمہ کے پئیں چل کے جام دو ذاتِ حَسن حُسین ہے عَینِ شبیہِ مصطفیٰذات ہے اک نبی کی ذات ہیں یہ اسی کے نام دو پی کے پِلا کے مَے کشو! ہم کو بچیکُھچی ہی دوقطرہ دو قطرہ ہی سہی کچھ تو برائے نام دو ہاتھ سے چار یار کے ہم کو ملیں گے چار جامدستِ حَسن حُسین سے اور ملیں گے جام دو ایک نگاہِ ناز پر سیکڑوں جامِ مَے نثارگردشِ چشمِ مست سے ہم نے پئے ہیں جام دو وسطِ مُسَبِّحَہ پہ سر رکھیے انگوٹھے کا اگرنامِ اِلٰہ ہے لکھا ’’ہ‘&۔۔۔
مزید
رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہکہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو!اُن کے خوانِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ ماہِ من یہ نیّرِ محشر کی گرمی تابکےآتشِ عصیاں میں خود جلتی ہے جانِ سوختہ برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی اس پر ایک بارآج تک ہے سینۂ مہ میں نشانِ سوختہ مہرِ عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روزپیشِ ذرّاتِ مزارِ بیدلانِ سوختہ کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم بال و پر افشاں ہوں یا رب بلبلانِ سوختہ بہرِ حق اے بحرِ رحمت اک نگاہِ لطف بارتابکے بے آب تڑپیں ماہیانِ سوختہ روکشِ خورشیدِ محشر ہو تمھارے فیض سےاک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ آتشِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کبابخضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ آتشِ گُلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ لطفِ برقِ جلوۂ معراج لایا وجد میںشعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ اے رؔضا! مضمو۔۔۔
مزید
ہیں عرشِ بریں پر جلوہ فگن محبوبِ خدا سُبْحَانَ اللہ!اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سُبْحَانَ اللہ! حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفرراکب نے کہا اَللہُ غَنِیّ مَرکَب نے کہا سُبْحَانَ اللہ! طالب کا پتا مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقفپردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سُبْحَانَ اللہ! ہے عبد کہاں معبود کہاں معراج کی شب ہے راز نہاںدو نور حجابِ نور میں تھے خود رب نے کہا سُبْحَانَ اللہ! جب سجدوں کی آخری حدّوں تک جا پہنچا عُبودیّت والاخالق نے کہا مَاشَآءَاللہ! حضرت نے کہا سُبْحَانَ اللہ! سمجھے حاؔمد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حُسن و الفت کےخالق کا ’’حَبِیْبِیْ‘‘ کہنا تھا خَلقت نے کہا سُبْحَانَ اللہ! بیاض پاک۔۔۔
مزید
مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دل سےتعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مَرے دل سے واللہ وہ سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گےاتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے بچھڑی ہے گلی کیسی بگڑی ہے بنی کیسیپوچھو کوئی یہ صدمہ ارمان بھرےدل سے کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھےخاک اُس کو اٹھائے حشر جو تیرے گرے دل سے بہکا ہے کہاں مجنوں لے ڈالی بنوں کی خاک دم بھر نہ کیا خیمہ لیلیٰ نے پَرے دل سے سونے کو تپائیں جب کچھ مِیل ہو یا کچھ مَیلکیا کام جہنّم کے دھرے کو کھرے دل سے آتا ہے درِ والا یوں ذوقِ طواف آنادل جان سے صدقے ہو سر گِرد پھرے دل سے اے ابرِ کرم فریاد فریاد جلا ڈالااس سوزشِ غم کو ہے ضد میرے ہرے دل سے دریا ہے چڑھا تیرا کتنی ہی اڑائیں خاکاتریں گے کہاں مجرم اے عفو ترے دل سے کیا جانیں یمِ غم میں دل ڈوب گیا کیساکس تہ کو گئے ارماں اب تک نہ ترے دل سے کرتا تو ہے یاد اُن کی غفلت کو ذرا رو کےللہ رؔضا دل سے ۔۔۔
مزید
عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ کیدیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کےجلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی کافروں پر تیغِ والا سے گری برقِ غضباَبر آسا چھا گئی ہیبت رسول اللہ کی لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو ملا اُن سے ملابٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی وہ جہنّم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہواہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی سورج الٹے پاؤں پلٹے چاند اشارے سے ہو چاکاندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب وہابی دور ہوہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی ذکر رو کے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہےپھر کہے مردک کہ ہوں امّت رسول اللہ کی نجدی اُس نے تجھ کو مہلت دی کہ اِس عالم میں ہےکافر و مرتد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی ہم بھکاری وہ کریم اُن کا خدا اُن سے فزوںاور ’’نا‘‘ کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی اہلِ سنّت کا ہے۔۔۔
مزید
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گےآپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے دل نکل جانے کی جا ہے آہ کن آنکھوں سے وہ ہم سے پیاسوں کے لئے دریا بہاتے جائیں گے کُشتگانِ گرمیِ محشر کو وہ جانِ مسیح آج دامن کی ہوا دے کر جِلاتے جائیں گے گُل کِھلے گا آج یہ اُن کی نسیمِ فیض سےخون روتے آئیں گے ہم مسکراتے جائیں گے ہاں چلو حسرت زدو سنتے ہیں وہ دن آج ہےتھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے آج عیدِ عاشقاں ہے گر خدا چاہے کہ وہابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے کچھ خبر بھی ہے فقیرو! آج وہ دن ہے کہ وہ نعمتِ خلد اپنے صدقے میں لٹاتے جائیں گے خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہےخود وہ گر کر سجدے میں تم کو اُٹھاتے جائیں گے وسعتیں دی ہیں خدا نے دامنِ محبوب کوجرم کُھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے آنکھ کھولو غمزدو!۔۔۔
مزید
اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہوکیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہوسایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہےاُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پراُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کرجس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبوگر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہےوہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبتمِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتاایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہتم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیںکب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو ہو سلسلہ اُلفت۔۔۔
مزید