حُسن ِ رسول پاک کی تنویر دیکھئے اللہ کے جمال کی تصویر دیکھئے ان کی عطا سےمہر جہاں تاب ہوگیا سرکار کے غلام کی تقدیر دیکھئے مختارِ کل کیا ہے خدا نے حبیب کو دونوں جہاں ہیں آپ کی جاگیر دیکھئے وَالشمس وَالضّحٰی سے عبارت ہے اور کیا رُخسارِ مصطفی کی ہیں تفسیر دیکھئے ان کے سوا ہیں اور ہر اک شے سے بے نیاز ہاں دیکھئے گداؤں کی توقیر دیکھئے کچھ رخصتِ سفر بھی عطا کیجئے حضور حالات کی بھی پاؤں میں زنجیر دیکھئے خاؔلد نہ درمیاں ہو اگر ان کا واسطہ! ملتی نہیں دعاؤں کو تاثیر دیکھئے۔۔۔
مزیداوّلیں آخریں ترے صدقے خاتم المرسلین ترے صدقے حُسن ِ یوسف تجھے سلام کرے کل جہاں کے حسیں ترے صدقے رُخِ زیبا ہے مصحفِ ایماں اے مرے مہ جبیں ترے صدقے تجھ پہ شیدا ہے خود خدائے جمال اے حسیں نازنیں ترے صدقے ناز بر دارِ امت ِ عَاصی میرے دنیا و دیں ترے صدقے بن گئی بات شرم ساروں کی شافعِ مژدا سنائیں ترے صدقے زینت زمیں و عرش کی رونق لا مکاں کے مکیں ترے صدقے جانِ خاؔلد قرارِ جان ِ جہاں آفتاب ِ یقیں ترے صدقے۔۔۔
مزیدجوش میں آگئی رحمت کبریا ہم غریبوں کے حاجت روا آگئے غم کے ماروں کے غم دور ہونے لگے شور اُٹھا کہ مشکل کشا آگئے حُسن پر جن کے نازاں ہے شانِ خدا جن کے نقشِ قدم پر دو عالم فدا ہیں جو مقصود ِ خلق اور مطلوب حق مرحبا وہ حبیب خدا آگئے ابرِ رحمت مسلسل برسنے لگا دل کے پژ مردہ غنچے مہکنے لگے مونسِ بیکساں ہادئی گمرہاں کشتی نوح کے ناخدا آگئے بے نشانوں کو اپنے نشاں مل گئے نا مرادوں کو دونو ں جہاں مل گئے کُنتُ کنزاً کا خلوت کدہ چھوڑ کر بزم ہستی میں خیرالورا آگئے آفتاب ِ رسالت در خشاں ہوا دُور دنیا سے سارا اندھیرا ہوا ذِکر سے ان کے دل جگمگانے لگا لیکے انوار نور الہدی آگئے ہم گنہ گار جاتے نہ جانے کہاں مل گئی اے خوشا ان کے در پر اماں فیض و بخشش کے در کھل گئے ہر طرف ہو مبارک شفیع الوریٰ آگئے کون ہے اس قدر محترم دیکھئے اللہ اللہ یہ حُسن ِ کرم دیکھئے۔۔۔
مزیددل ہے ذِکر ِ حضور کے صدقے آنکھ بھی ان کے نور کے صدقے رِفعتِ عرش بھی ہے زیر ِ قدم خاک ِ پائے حضور کے صدقے مل رہی ہے دُرود سے مستی اس شرابِ طہور کے صدقے نار کرتا ہے صرف جو تم پر اس گدائے غیور کے صدقے ماہ و خور شید نے ضیاء پائی جب بٹے ان کےنور کے صدقے جو مدینہ بنادے انساں کو ایسے کیف و سرور کے صدقے بہرِ تسکیں وہ آگئے خاؔلدِ میں دلِ نا صبور کے صدقے۔۔۔
مزیدنقشہ تری گلی کا ہماری نظر میں ہے اِک کیف اِک سرور سا قلب و جگر میں ہے کیوں کر جبیں جھکے نہ دو عالم کی اس جگہ تکمیل رفعتوں کی ترے سنگِ در میں ہے آسُودہ ہوگیا ہے مرا اِضطرابِ دِید کیا دِلکشی مدینے کے دیوار دور میں ہے نقشِ قدم سے تیرے منوّر ہیں دو جہاں ہر ذرّہ آفتاب تری رِہگذر میں ہے منزل بقدر شوق ہےمجھ سے بہت قریب راہِ دیار قدس مری چشم تر میں ہے اپنے ہی جیسا کیسے انہیں مان لیجئے! جو وصف ہے بشیر میں وہ کب بشر میں ہے خاؔلد ہیں راہ ِ شوق کے آداب مختلف بیٹھا ہوا ہوں اور مرا دِل سفر میں ہے۔۔۔
مزیدمریض ہجر کا مشکل ہے جینا یارسول اللہ دکھا دیجئے دکھا دیجئے مدینہ یا رسول اللہ غریقِ بحرِ عصیاں ہیں گرفتار ِ مصیبت ہیں کنارے سے لگا دیجئے سفینہ یا رسو ل اللہ نچھاور گنبدِ خضرا پہ جا کر جان و دل کردوں کوئی ایسا بھی آجائے مہینہ یا رسول اللہ چھپا لو اب چھپا لو اپنے دامانِ شفاعت میں خطاؤں پر ہے نادم یہ کمینہ یا رسول اللہ کشادہ ہوگئی آغوش رحمت اے زہے قسمت جو آیا شرمِ عصیاں سے پسینہ یا رسول اللہ غمِ دنیا کی ظلمت مجھ سے کترا کر گزر جائے منّور اس قدر ہوجائے سینہ یا رسول اللہ خزانہ رحمتوں کا رات دن بٹتا ہے منگتوں میں تمہارا دَر ہے رحمت کا خزینہ یا رسول اللہ حضور اپنے کرم اپنی عطاؤں پر نظر کیجئے دعاء کا بھی نہیں مجھ کو قرینہ یا رسول اللہ عطا کردو وہ معراج ِ تصّور اپنے خاؔلد کو جدھر دیکھے نظر آئے مدینہ یا رسول اللہ۔۔۔
مزیدمصطفی مجتبی محمد ہیں شانِ رب العلیٰ محمد ہیں دردِ دِل کی دَوا محمد ہیں ہر مرض کی شفا محمد ہیں رحمتِ دو جہاَ ں نوید ِ کرم بحرِ جو دو سخا محمد ہیں آدم و نوح سے کوئی پوچھے کیسے حاَجت روا محمد ہیں چشم ِ بینا سے دیکھ اے زاہد ہر طرف جا بجا محمد ہیں ان سے کونین میں اجالا ہے نورِ حق کی ضِیاء محمد ہیں یہ ملائک بھی راز پا نہ سے کون بتلائے کیا محمد ہیں میرا ایمان ہے یہی خاؔلد میرے مشکل کشا محمد ہیں۔۔۔
مزیدمرحبا صَل علیٰ شافعِ عصیاں آئے چارہ ساز آئے مرے درد کا درماں آئے ذرّے ذرے کی زباں پر ہے انہیں کی توصیف بزمِ کونین میں کونین کے سلطان آئے مل گیا ہے مجھے دامانِ نبی کا سایہ اب مرے پاس ذرا گردش دَوراں ہے ٹوٹی زنجیر غلامی کی کھلا بابِ کرم آپ جب کرتے ہوئے مشکلیں آساں آئے ہم نے لُٹ کر رہ ِ طیبہ میں یہ منظر دیکھا پیشوائی کو ہماری سروساماں آئے اللہ اللہ یہ غلامانِ محمد کا مقام در پہ ارماں گدائی لیے سلطاں آئے رفعت ِ عرش نے بھی فرش ِ زمیں کو چوما خاؔلد ِ اس شانِ سے وہ خسروِ خوباں آئے۔۔۔
مزیدہیں اہل محبت نغمہ سرا سبحان اللہ سبحان اللہ ہر سمت ہے شورِ صلی علیٰ سبحان اللہ سبحان اللہ ضو بار ہوئے محبوب خدا سبحان اللہ سبحان اللہ ہیں نور سے جگمگ ارض وسما سبحان اللہ سبحان اللہ یکتائے جہاں ہیں جو بخدا ثانی ہی نہیں کوئی جن کا وہ آج ہوئے عالم آرا سبحان اللہ سبحان اللہ اے ختم ِ رسل اے سرورِ کل اے غایت کل ہادی سبل ہے کعبۂ جاں دربار ترا سبحان اللہ سبحان اللہ جو رحمت ہے سرتا بقدم ہیں جس کے سب ممنونِ کرم وہ ابرِ کرم ہرسوبرسا سبحان اللہ سبحان اللہ اے نازش ِ آدم جانِ کرم اے مظہر ِحق سے نورِ اتم ہے دیدِ تری دیدارِ خدا سبحان اللہ سبحان اللہ ہر مشکل میں کام آتے ہیں ہر بگڑی بات بناتے ہیں کونین کے ہیں وہ عقدہ کشا سبحان اللہ سبحان اللہ خاؔلد یہ وظیفہ ہےمیرا ضائع تو نہیں کوئی لمحہ یا سیّدنا یا ملجا نا سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔
مزیدترے کرم کا خدائے مجیب کیا کہنا عطا کیا مجھے عشقِ حبیب کیا کہنا مریض ِ غمِ ہیں بڑے خوش نصیب کیا کہنا کہ ہے حبیب ِ دو عالم طبیب کیا کہنا خدا گواہ کہ آسودۂ حیات ہیں ہم غمِ حبیب ہے ہم کو نصیب کیا کہنا جِدھر بھی جاتا ہوں پاتا ہوں سامنے ان کو نظر نوازی حسنِ حبیب کیا کہنا مریض ہجر سے کہتی ہے دل کی ہر دھڑکن سکوں نواز ہے ذِکر حبیب کیا کہنا قسم خدا کی شہنشاہِ ہفت کشور ہے گدائے دَر گہہ کوئے حبیب کیا کہنا خدائی مانگنے والوں کو بخش دیتے ہیں عطا نرالی ہے بخشش عجیب کیا کہنا نظر میں سرور عالم کا آستانہ ہے میں دور رہ کے ہوں اتنا قریب کیا کہنا اس آستانہ اقدس کی خیر ہو خاؔلد جہاں پہ پلتے ہیں مجھ سے غریب کیا کہنا۔۔۔
مزیداہل جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب جب تک تری نظر کا اِرشاد انہیں نصیب اس کی جگہ ہے دامنِ رحمت پناہ میں جِس بے نوا کو کائی سہارا نہیں نصیب ایمان و آگہی ہیں وہی، زندگی وہی ان کی عطا نہ ہو تو گزارا نہیں نصیب وہ عرصۂ حیات تو بدتر ہے موت سے جِس لمحہ ہم کو ان کا نظارا نہیں نصیب کس پر کرم نہیں شہ بے کس نواز کا ہے کون جس کو ان کا اتارا نہیں نصیب محروم ہے وہ رحمت ِ پروردِگار سے جس انجمن کو ذِکر تمہارا نہیں نصیب جو پا چکا سفینہ عُشاقِ مصطفی موجو! تمہیں بھی ایسا کنارا نہیں نصیب دل بھی دیا تو سرورِ کونین کو دیا ہم نے خدا کے فضل سے ہارا نہیں نصیب خاؔلد اس آستاں پہ جبیں جگمگا اٹھی یہ کیسے مان لوں کہ ستارا نہیں نصیب۔۔۔
مزیدغم کے بھنور سے کون نکالے ترے سوا دِل کا سفینہ کون سنبھالے ترے سوا اے تاجدارِ حشریہ کس کی مجال ہے کھولے درِ نجات کے تالے ترے سوا لارَیب تیری ذات سراجٌ منیر ہے منسوب ہوں تو کس سے اُجالے ترے سوا قہار تختِ عدل پہ اور دم بخود ہے حشر دیکھیں خدا کو کوئی منالے ترے سوا تجھ سے نہیں تو کس سے کہیں داستانِ غمِ ہے کون مشکلوں کو جو ٹالے ترے سوا سب دے رہے ہیں وسعت ِ داماں کا واسطہ کوئی نہیں جو سب کو چھپالے ترے سوا خاؔلد یہ پو چھنا ہے تو محبوب ِ رب سے پوچھ کیا چاہیں تیرے چاہنے والے ترے سوا۔۔۔
مزید