منگل , 25 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Tuesday, 16 December,2025

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن عمرو انصاری۔ بدر میں شریک تھے ان کا تذکرہ صرف ابو نعیم نے لکھاہے اور موسی بن عقبہ سے انھوں نے ابن شہاب سے ان لوگوں ے نام میں جو انصار کی شاخ بنی نجار سے بدر میں شریک ہوئے ثابت بن عمرو بن زید بن عدی کا نام بھی رویت کی اہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نام وہی ہے جو اس سے پہلے تذکرہ میں گذر چکا ہے پھر میں نہیں سمجھتا کہ ابو نعیم نے باوجود ان کے نسب سے واقف ہون کے ان کا تذکرہ علیحدہ کیوں لکھا۔ اس کے متعلق وہ کوئی عذر بھی نہیں کرسکتے سوا اس کے کہ انھوں نے پہلے تذکرہ میں ان کو اشجعی لکھا دیکھ اور انھیں خیال ہوا کہ یہ بنی مالک بن نجارا سے ہیں اس وجہس ے ان دونوں کو انھوں نے علیحدہ علیحدہ سمجھ لیا۔ ایسا اکثر ہوا کرتا ہے کہ علمائے نسب میں سے بعض لوگ ایک شخص کو اس کے قبیلہ ی طرف منسوب کرتے ہیں اور بعض لوگ اسی شخص کو حلف کی وجہس ے دوسرے قبیلہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کبھی نسب بھی اسی قبیل۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن عمرو بن بن عبدی بن سواد بن اشجع انصاری۔ بنی نجار میں سے ہیں انصار کے حلیف تھے۔ احد میں شہید ہوئے۔ یہ ابن اسحاق اور زہری وغیرہ کا قول ہے۔ ابن مندہ نے ان کا نسب اسی طرح بیانکیا ہے حالانکہ اس میں خبط ہے کیوں کہ انھوںنے ان کا نسب قبیلہ اشجع سے قرار دیا ہے اور ان کو انصاری بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ بنی نجار سے تھے انصار کے حلیف تھے پس بنی نجار تو خود انصار میں سے ہیں (انصار کا حلیف ہونا کیا معنی) پھر اگر ان کا نسب اشجع میں ہے تو یہ بنی نجار میں نہیں ہوسکتے بنی نجار قبیلہ اشجع کی شاخ نہیں ہے وہ تو خود انصاری ہیں پس اگر وہ ان کا نسب قبیلہ اشجع میں ملا دیتے اور کہتے کہ یہ انصار کے یا بنی نجار کے حلیف ہیں تو ٹھیک ہوتا۔ علاوہ اس کے یہ نسب تو انصار کے نسب کے مشابہ ہے اشجع کا نسب نہیں معلوم ہوتا۔ اور ابو عمر نے کہا ہے کہ ثابت بن عمرو بن عدی بن سواد بن مالک بن غنم بن نجار۔ یہ نسب نجار۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن عدی بن مالک بن حرام بن خدیج بن معاویہ بن مالک بن عوف بن عمرو انصاری اوسی معاوی۔ عبدالرحمن اور سہل اور حارث کے بھائی ہیں۔ یہ سب لوگ احد میں شریک تھے ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے اور انھوں نے ان کا نسب معاویہ سے آگے نہیں بیان کیا۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

  ابن عتیک انصاری بنی عمرو بن مبذول سے ہیں جسر کے دن ابو عبید ثقفی کے ہمراہ سن۱۵ھ میں شہید ہوئے اس کو ابن مندہ نے عروہ سے اور زہری سے نقل کیا ہے اور ابو نعیم نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ عروہ نے کہا ہے کہ جو لوگ بنی عمرو بن مبذول کے انصار میں سے جسر مدائن میں سعد بن ابی وقاص کے ہمراہ شہید ہوئے ان میں ثابت بن عتیک بھی تھے میں کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں کیوں کہ سعد نے مدائن میں جسر کے پاس کوئی جنگ نہیں کی ہاں ان لوگوں نے اپنی سواریوں پر سوار ہو کر دجلہ کا عبور کیا تھا جسر کا واقعہ تو قس ناطف کے دن ابو عبید ثقفی والد مختار کے ساتھ ہوا ہے اسی میں ابو عبید مقتول بھی ہوئے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت ابن عبید (رضی اللہ عنہ)

     انصاری۔ جنگ بدر میں شریک تھے اور جنگ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب رضیاللہ عنہ کے ہمراہ تھے ان کا تذکرہ ابو عمر نے مختصر لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

  ابن عامر بن زید انصاری بدر میں شریک تھے ابو عمر نے ان کا تذکرہ اسی طرح مختصر لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن ابی عاصم۔ ابو نعیمنے کہا ہے کہ ابن عاصم نے ان کا تذکرہ صحابہ میں کیا ہے حالانکہ یہ تابعی معلوم ہوتے ہیں ہمیں ابو موسینے کتابۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہیں ابو علی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو نعیم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن محمد قباب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر بن ابی عاصم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن منصور طوسینے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد ابن ضبیح نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں بقیہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عقیل بن مدرک نے ثعلبہ بن مسلمس ے انھوںنے ثابت بن ابی عاصمس ے نقل کر کے خبر دیکہ نبی ﷺ نے (ایک مرتبہ) فرمایا بے سک ادنی عبادت مجاہدین فی سبیل اللہ تمام سال کے روزے اور نماز کے برابر ہے ایک عرض کرنے والے نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ادنی مجاہد کون ہے فرمایا وہ شخص جس کا کوڑا بحالت غنودگی گر جائے اور وہ اتر کے خود اس کو اٹھائے (یہ نہ گوارا کرے کہ کسی دوس۔۔۔

مزید

سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

  ابن طریف مرادی ثم العرنی۔ فتح مصر وغیرہ میں شریک تھے انھوں نے نبی ﷺ کی زیارت کی ہے ان سے ابو سالم جیشانی نے رویت کیہے ان کا تذکرہ ابن مندہ نے ابن یونس بن عبدالاعلی سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ثابت بن طریف مرادی ثم العرنی فتح مصر وغیرہ میں شریک تھے اہل عربس ے ہیں ان کا صحابی ہونا ثابت ہے کیوں کہ اہل عرب جب بعد مرتد (٭آںحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرب کے بعض قبیلے مرتد ہوگئے تھے جن سے حضرت ابوبکر و عمر رضیاللہ عنہما نے جہاد کیا تھا) ہو جانے کے پھر مسلمان ہوئے تو ابوبکر و عمر رضیا للہ عنہما نے انھیں جہاد کی ترغیب دی چنانچہ اہل عرب شام اور عراق کی طرف (جہاد کے لئے) گئے جو لوگ شام گئے تھے وہ بعد فتح سام کے مصر کی طرف گئے اور مصر کو فتح کیا ان لوگوں میں بعضے وہ تھے جن کو شڑف صحبت حاصل تھا اور بعضے وہ تھے جو صحابی نہ تھے اگرچہ انھوں نے زمانہ جاہلیت پایا تھا اس لئے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ بن عدی بن کعب بن عبد الاشہل۔ ابو عمر نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے مگر ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب خلیفہس ے آگے نہیں بیان کیا اور کہا ہے کہ یہ ابو جبیرہ بن ضحاک کے بھائی ہیں۔ حدیبیہ میں شریک تھے اور ابن مندہ نے کہا ہے کہ بخاری نے بیان کیا ہے کہ یہ بدر میں نبی ﷺ کے ہمراہ شریک تھے ابونعیم نے کہا ہے کہ یہ وہی ہے بخارینے اپنی کتاب میں صرف یہ ذکر کیا ہے کہ یہ حدیبیہ میں شریک تھے اور انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو ابو قلایہ نے ان سے اور انھوںنے نبی ﷺ سے رویت کی ہے یہ حدیث ابو الفرج بن کلبی بن محمود بن سعد نے ہم سے اپنی اسناد کے ساتھ مسلمبن حجاج تک بیان کی کہ وہ کہتے تھے ہمس ے یحیی بن یحیی نے بیان کیا وہ کہتے تھے میں معاویہ بن ابی سلام بن ابی سلام دمشقی نے یحیی بن ابی کثیر سے نقل کر کے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ ابو قلابہ نے مجھ سے بیان کیا و۔۔۔

مزید

(سیدنا) ثابت (رضی اللہ عنہ)

    ابن ضحاک بن امیہ بن ثعلبہ بن جشمبن مالک بن سالم بن غنم بن عوف بن خزرج۔ انصاری خزرجی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے اور ابو عمر نے (ان کے نسب میں) سالم کو عمرو بن عوف بن خزرج کا بیٹا کہا ہے اور کلبی نے کہا ہے کہ سالمبن عوف بن عمرو بن عوف بن خزرج۔ کنیت ان کی ابو یزید ہے۔ شام میں رہتے تھے پھر بصرہ چلے گئے تھے۔ یہ بھائی ہیں ابو جبیرہ بن ضحاک کے۔ ثابت بن ضحاک جنگ خندق میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ (سواری پر سوار تھے اور مقام حمراء الاسد کی طرف جنگ احد میں رسول خدا ﷺ کے رہبر یہی تھے۔ یہ ان لوگوں میں ہیں جنھوں نے درخت کے نیچے بیعۃ الرضوان کی تھی۔ یہ اس زمانے میں کم سن تھے۔ یہ سب بیان ابو عمر کا ہے مگر س میں اعتراض ہے کیوں کہ جو شخص مقام حمراء الاسد تک نبی ﷺ کا رہبر ہو یہ سن۲ھ کا واقعہ ہے اور بیعۃ الرضوان سن۶ھ کا واقعہ ہے وہ بیعۃ الرضوان میں صغیر السن کیوں کر ہوگا ۔۔۔

مزید