حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نام ونسب: اسم گرامی: خواجہ محمد معصوم سرہندی۔کنیت: ابوالخیر۔لقب: قیوم ثانی،عروۃ الوثقیٰ،مجددالدین۔سلسلہ نسب: اس طرح ہے:خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی بن شیخ عبدالاحدبن شیخ زین العابدین بن شیخ عبدالحی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ رفیع الدین بن شیخ نصیرالدین بن شیخ سلیمان۔آپ کاشجرۂ نسب امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق اعظم سےجاکر ملتا ہے۔الیٰ آخرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 10/شوال المکرم 1007ھ مطابق اوائل مئی 1599ء کوہوئی۔کیونکہ ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہم حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی ملازمت سے مشرف ہوئے اور ان کی خدمت میں دیکھا جو کچھ دیکھا۔(تذکرہ مشائخِ نقشبند: 344) ایام طفولیت: لڑکپن ہی میں آپ کے والد بزرگوار آپ کی بلند استعداد کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اور فرماتے ۔۔۔
مزیدحضرت شاہ صفی اللہ سیف الرحمٰن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سیّد شاہ مقیم محکم الدین صاحب حجرہ کے فرزندِ ارجمند تھے۔ جامع علومِ ظاہر و باطنی اور واقفِ رموزِ صوری و معنوی تھے۔ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہُوئے۔ آپ کی زبان سے جو کچھ نکلتا تھا ویسا ہی ظہور میں آتا تھا اس لیے سیف الرحمٰن مشہور ہُوئے۔نقل ہے ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے باغ کا فلاں درخت خشک ہوگیا ہے۔ فرمایا: نہیں سرسبز ہے۔ وہ شخص فوراً بنظرِ امتحان وہاں پہنچا، دیکھا کہ وہ درخت واقعی سرسبز و شاداب ہے۔ نقل ہے آپ نے جب اپنے پدر بزگوار کا مقبرہ تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا تو معمار کو بلا کر کہا کہ تعمیرِ مقبرہ کا تمام تخمینہ کاغذ پر لکھ دو تاکہ تمام خرچ یک بار تمھیں پیشگی دے دیا جائے۔ معمار نے اسی وقت تخمینہ لگا کر اور کاغذ پر لکھ کر حاضرِ خدمت کیا جو چند ہزار روپے پر مشتمل تھا۔ آپ نے کاغذ کو دیکھ کر مصل۔۔۔
مزیدحضرت شمس الدین محمد احمد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ شیخ حسن محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاجزادے اور خلیفہ ہیں، صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے تقریباً بیالس کتابیں تحریر فرمائیں جو سب کی سب تصوف کے حوالے سے صوفیانہ افکار و نظریات کی ترجمان ہیں، ان میں آداب الطالبین، راحت المریدین، تحفۃ السلوک اور تفسیر حسینی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، فرماتے تھے: * کھانا شروع کرو تو ہر لقمہ پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھو، اس سے تمہارے باطن میں نورانیت پیدا ہوگی۔ * سونے لگو تو وضو کر لیا کرو، ممکن نہ ہو تو تیمّم کر لو، تمام رات عبادت میں شمار ہو گی۔ * اتباع رسالت سے ہی ربالعالمین کے محبوب بن سکیں گے۔ * انسان کو چاہیے کہ وہ صرف رضائے الہٰی ک۔۔۔
مزیدحضرت شیخ عبدالرشید جالندھری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ جالند شہر کے سادات میں سے تھے والد کا نام سید اشرف تھا۔ آپ چھوٹے ہی تھے کہ آپ کو تلاشِ حق کی لگن لگ گئی ظاہری علوم پڑھنے کے بعد اپنے وطن سے نکلے اور مختلف شہروں کی سیر کرتے حضرت شاہ ابو المعالی کی خدمت میں حاضر ہوئے اُس وقت حضرت شاہ ابو المعالی کی عمر کافی ہوچکی تھی۔ آپ نے شیخ عبدالرشید کو سید میران بہیکہ کے حوالے کردیا جنہوں نے آپ کی تربیت بھی کی اور خرقۂ خلافت بھی دیا۔ خزنیتہ السالکین کے مصنف لکھتے ہیں ایک دن حضرت میراں بہیکہ نے سید علیم اللہ جالندھری کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے پاس جو مرید بھی آتا ہے میں چھ سال تک اس کا امتحان لیتا ہوں اگر اس کا اعتقاد درست ہو تو میں اُسے اپنے خادموں میں شمار کرتا ہوں لیکن سید عبدالرشید جالندھری ایک ایسے شخص ہیں جنہیں میں نے پہلے دن سے ہی پکے اعتقاد کا پایا اور اپنا خادم بنالیا۔ آپ یکم ماہ ربی۔۔۔
مزیدحضرت شیخ پیر محمد قادری نوشاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت حاجی محمد نوشاہی گنج بخش کے اکابر خلیفوں سے تھے۔ خورد سالی ہی میں خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر تربیت اور تکمیل پائی تھی۔ بڑے صاحبِ ذوق و شوق تھے۔ وجد و سماع مین غلو رکھتے تھے۔ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی نظر فیض اثر سے صاحبِ وجد و حالت ہوجاتا تھا۔ اپنی راست گفتاری اور تقویٰ کے باعث بارگاہِ مرشد سے سچ یار یعنی راست گفتار کے خطاب سے معزز تھے۔ وفاتِ مرشد کے بعد موضع نوشہرہ مغلاں میں جارہے تھے جو دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے اور گجرات سے چھ کوس مشرق کی طرف ہے۔ شیخ پیر محمد کی صحیح تاریخ وفات ۲۵ ربیع الاوّل ۱۱۲۰ھ ہے۔ شیخِ دیں پیرِ محمّد مقتداءسالِ ترحیلش چو جستم از خردشد چوں از دنیا بجنّت راہگیرشد عیاں معصوم پیرِ دستگیر(خزینۃ الاصفیا قادریہ)۔۔۔
مزیدحضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ نام و نسب: اسم گرامی:شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی۔لقب:شیخ المشائخ،عالم و عارف،محدثِ کامل،مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ۔ سلسلہ ٔنسب: حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی بن حاجی نور اللہ صدیقی بن شیخ احمد صدیقی۔علیہم الرحمہ۔ آپ حضرت صدیقِ اکبرکی اولاد سےتھے۔آپ کے دادا عہد ِشاہجہانی میں ’’خُجَند‘‘ ترکمانستان موجودہ تاجکستان سےدہلی آئے۔وہ علوم عمارات،ہیئت،ریاضی،اور نجوم میں مہارت رکھتےتھے۔ اسی لئے شاہ جہاں نے ان کو لال قلعہ،اور جامع مسجد دہلی کی تعمیر کےسلسلے میں بلایا تھا۔تاج محل آگرہ ،اور محل آصف خان لاہور بھی انہیں کا تعمیر کردہ ہے۔شاہ جہاں نے ان کو ’’نادر العصر‘‘کا خطاب دیاتھا۔ان کی وفات 1649ء کو دہلی میں ہوئی۔(چشتی خانقاہیں اور سربراہان ِ برصغیر: 142) تاریخِ ولادت: آپ کی ولا۔۔۔
مزید