حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب: اسم گرامی:شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی۔لقب:شیخ المشائخ،عالم و عارف،محدثِ کامل،مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ۔ سلسلہ ٔنسب: حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی بن حاجی نور اللہ صدیقی بن شیخ احمد صدیقی۔علیہم الرحمہ۔ آپ حضرت صدیقِ اکبرکی اولاد سےتھے۔آپ کے دادا عہد ِشاہجہانی میں ’’خُجَند‘‘ ترکمانستان موجودہ تاجکستان سےدہلی آئے۔وہ علوم عمارات،ہیئت،ریاضی،اور نجوم میں مہارت رکھتےتھے۔ اسی لئے شاہ جہاں نے ان کو لال قلعہ،اور جامع مسجد دہلی کی تعمیر کےسلسلے میں بلایا تھا۔تاج محل آگرہ ،اور محل آصف خان لاہور بھی انہیں کا تعمیر کردہ ہے۔شاہ جہاں نے ان کو ’’نادر العصر‘‘کا خطاب دیاتھا۔ان کی وفات 1649ء کو دہلی میں ہوئی۔(چشتی خانقاہیں اور سربراہان ِ برصغیر: 142)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 24/جمادی الثانی 1060ھ مطابق 24/جون 1650ء،بروز جمعۃ المبارک دہلی میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: مولانا شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سےتھا۔بالخصوص فنِ تعمیرمیں جہاں میں اپنا ثانی نہیں رکھتےتھے۔اس وقت دہلی علوم وفنون کا مرکزتھا۔بڑے بڑے علماء و صوفیاء نے ظاہری و باطنی علوم کےمیخانے سجا رکھےتھے۔ان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کےبزرگ بھی تھے۔دہلی کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتےرہے۔سندِ حدیث حضرت شیخ ابوالرضا ہندی (تایا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)اور مولانا شیخ برہان الدین المعروف شیخ بہلول سےحاصل کی۔حضرت مولانا شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کو تمام علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔دہلی کے متبحر علماء میں شمارکیے جاتےتھے۔
بیعت وخلافت: تحصیل ِ علم کےبعد کسی برترنسبت کی طلب ہوئی،تو ایک بزرگ ’’رسول نما‘‘کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور بیعت کے خواستگارہوئے۔صاحبِ بصیرت و عرفان بزرگ نے جواب دیا کہ تمہارا حصہ یہاں نہیں،حضرت شیخ یحیٰ مدنی کےپاس ہے۔اور وہ مدینہ منورہ میں ہیں، وہاں جاؤ اور اس دسترخوانِ محبت ومعرفت سے خوشہ چینی کرو۔بس یہ سننا تھا کہ طالبِ صادق عازم حجاز مقدس ہوئے،اور مدینہ منورہ میں حضرت شیخ یحیٰ مدنی کی خدمت میں حاضر ہوگئے،ان سے بیعت ہوئے،اور کچھ عرصہ تربیت میں رہے،مجاہدات و سلوک کےبعد خلافتِ عالیہ چشتیہ سے مشرف ہوئے۔اسی طرح قیام ِ حجاز میں ہی حضرت امیرِ محترم لاہوری سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور سید محمد کبریٰ سے سلسلہ عالیہ قادریہ کی خلافت پائی۔(بہار ِ چشت:117)
سیرت وخصائص:جامع العلوم،بحر العلوم،عارف باللہ،واصل باللہ،مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ حضرت علامہ مولانا خواجہ شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی۔آپ کا شمار اکابر و اعظام اولیائے ہند میں ہوتا ہے۔آپ کے خوارق عادات اور زہد و طاعت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔بڑے نامور شیخ تھے۔علم و فضل میں یگانہ روزگار تھے۔بڑے بڑے علماء آپ کے تبحر علمی کے معترف تھے۔مدینۃ المنورہ سے دہلی میں واپسی پر خانم بازار کی ایک مسجد میں قیام کیااور تعلیمی بساط بچھائی۔علمی استطاعت تو حد درجہ کی تھی۔کیونکہ اپنے وقت کے عظیم محدثین اور شیوخ سے تحصیلِ علم کیا تھا۔آپ کا درس علم و معرفت کا بحرِ مواج ہوتا تھا۔دور دور سے طلبہ شریک درس ہوتے۔کھانے پینے کا انتظام مفت تھا۔حدیث کے درس کی شہرت عام ہوچکی تھی۔ایک مرتبہ حضرت مرزا جانِ جاناں ملاقات کےلئے تشریف لائے تو آپ صحیح بخاری کا درس دے رہےتھے۔(اردو دائرہ معارف اسلامیہ:17/280)
مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ:آپکو مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔کیونکہ جس وقت آپ دہلی میں مسند آرا ہوئے اس وقت سلسلہ عالیہ چشتیہ کا خانقاہی نظام زوال پذیر تھا۔خانقاہیں ویرانی کا منظر پیش کررہی تھیں۔آپ ہی کی ذاتِ مبارکہ ہے جن کی وجہ سے سلسلہ عالیہ کو پھر سےعروج نصیب ہوا۔دورِ انحطاط کو دورِ عروج میں بدلنے کا سہرا آپ کے سر ہے۔شیخ الاسلام حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلویکےبعدایک خلا پیدا ہوگیا تھا۔اس خلا کو آپ نے ہی پر کیا۔حضرت شاہ کلیم اللہ نے خانقاہی نظام کی ایسی بنیاد رکھی جس نےبالخصوص اسلامیانِ ہند کوپھر سے ایمان وایقان کی قوت اور علم و حکمت اور معرفت کےخزینے عطاکیے۔وہ خانقاہیں پھر ایسی نہ رہیں جن میں صرف ہر وقت لنگر چلتا رہے،اور درویش صرف نعرے لگاتے رہیں۔ملت اسلامیہ اور تعلیم اسلام سے کوئی سروکار نہ ہو۔بلکہ حضرت شاہ کلیم اللہ نے ایسی خانقاہ کی بنیاد رکھی کہ جس میں ہر مرید وخلیفہ پر لازم تھا کہ وہ پہلے علومِ ظاہری میں مہارت ِ تامہ حاصل کرے،تاکہ دین ِ اسلام کے تمام شعبہ جات کی بنیادی معلومات حاصل ہوں،اور وسیع بنیادوں پر دین کی خدمت کرسکے۔پھر عوام میں جاہل صوفیاءنے جو غلط فہمی پھیلادی تھی کہ اصل صوفی وہ ہوتا ہے کہ جس کا علم و شریعت سے دور کاواسطہ بھی نہ ہو۔حضرت شاہ صاحب نے تمام علوم ِ نقلیہ و عقلیہ کا درس دےکر اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا۔
سلسلۃ الذہب:آپ کی ذات والاصفات سے سلسلہ عالیہ چشتیہ کو ایک اورمنہج ملا۔آپ کے خلیفہ حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی جید عالم دین کے ساتھ شیخِ طریقت بھی تھے۔اسی طرح ان کے صاحبزادے و جانشین حضرت فخرالدین فخرِ جہاںاپنے زمانے کےتمام علماء میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔پھر ان کےخلیفہ حضرت قبلۂ عالم خواجہ نور محمدمہاروی،اور شاہ نیاز بریلوی وغیرہ رحمہم اللہ،اور پھرآپکےخلفاء، حضرت خواجہ نور محمد نارو والا،حضرت قاضی عاقل محمد کوٹ مٹھن شریف،حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی،حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی،پھر ان سے حضرت خواجہ خدابخش خیر پوری،حضرت خواجہ عبیداللہ ملتانی،مولانا عبدالعزیز پرہاروی ،حضرت خواجہ شمس العارفین،حضرت شیخ الاسلام پیر مہر علی شاہ،حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالییہ سب حضرات اور پھر ان کے خلفاء در خلفاء سب آفتابِ شریعت اور ماہتابِ طریقت تھے۔اپنے وقت میں یہ ہستیاں علم و معرفت میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔اس نظام کی بنیاد رکھنے والے حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی ہیں۔اللہ تعالیٰ پھر سے کوئی مرد قلندر بھیج دے جو پھر سے ہماری ویران خانقاہوں کا آباد کردے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ۔(فقیرتونسویؔ غفرلہ)
فیضِ عام:آپ کی خدمت میں مخلوقِ خدا جوق در جوق حاضر ہونے لگی۔حتیٰ کہ امراء و وزراء اور اورنگ زیب عالمگیر حاضر ہوئے،اور پھر باربار حاضر ہوتے رہے۔آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد ان کے فرزندبھی عاجزانہ حاضر ہوتے رہے،اور محمد شاہ بادشاہ تک جتنے سلاطین بھی تختِ دہلی پر متمکن ہوئے سب ہی اس آستانہ کے غلام تھے۔(شانِ اولیاء:469)
توکل و استغناء: دہلی میں حضرت شاہ صاحب کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو توکل اور قناعت کی بے پناہ دولت دے رکھی تھی۔ کبھی کبھار تو فاقے بھی ہوجاتےتھے،لیکن اس مردِ قلندر نے کبھی کسی حاکم سے نذرانہ نہیں لیا۔ہمارے زمانے (1449ھ/2018ء) میں، میں نے کوئی ایسا پیر نہیں دیکھا جس کا رہن سہن ٹھاٹھ باٹھ،کسی بادشاہ یا وزیر سے کم ہو۔الا ماشاء اللہ۔اور پھر عوام کا بھی یہی نظریہ بن چکا ہے کہ جو خود بھوکا بیٹھا ہے وہ ہمیں کیا دےگا۔بلکہ جس کا لنگر اچھا ہوتا ہے وہاں رش بھی زیادہ ہوتا ہے۔
کئی مرتبہ شاہِ دہلی فخر سیر نے بڑی عاجزی سے اصرار کیا کہ حضرت اپنی ضروریات کےلئے سرکاری خازنے سےرقم لےلیاکریں۔لیکن آپ نے ہر بار پیشکش مسترد کردی اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہےکہ مجھے زیادہ کی حاجت ہی نہیں ہے‘‘۔اسی نے ایک بڑی حویلی دینے کی پیشکش کی،آپ نہ مانے۔اس نے حاضری کی اجازت چاہی مگر آپ نے ٹال دیا اور فرمایا: تمھارے آنے سے ہمارے معاملات متأثر ہوں گے۔لہذا بذاتِ خود آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔بادشاہ نے اس کے بعد یہ وطیرہ اختیار کرلیاتھاکہ جمعۃ المبارک کےدن جامع مسجدمیں حضرت بھی تشریف لےجاتے تھے،اور بادشاہ بھی اسی مسجد میں جمعہ ادا کرتا تھا۔پھر بھی وہ اجازت لےبڑی عاجزی اور تعظیم سے آپ کی قدم بوسی کرلیتا تھا۔(بہارِ چشت:118)
تصانیف: حضرت شاہ کلیم اللہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔تیس کے قریب تصانیف کا نام ملتا ہے۔1۔قرآن القرآن۔2۔عشرہ کاملہ۔ 3۔سواء السبیل۔4۔کشکول۔5۔مرقع۔6۔تسنیم۔7۔الہاماتِ کلیمی۔8۔رسالہ تشریح الافلاک۔9۔شرح القانون۔رد رافض میں بھی بعض کتب تھیں،اور اسی طرح شاعری کا مجموعہ بھی تاریخ میں ملتاہے۔لیکن یہ سب کچھ ہنگاموں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی نذر ہوگیاہے۔
تاریخِ وصال: 24/ربیع الاول 1142ھ کو واصل باللہ ہوئے۔دہلی میں قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان اپنی خانقاہ میں دفن ہوئے۔(بہارِ چشت: 119)