محمد آفندی برکلی رومی: عالم فاضل،جامع علوم نقلیہ و فنان عقلیہ تھے، علم محی الدین سے پڑھا اور سلطان سلیمان خاں کے عہد میں مولیٰ عبد الرحمٰن قاضی عسکر کی ملازمت کی یہاں تک کہ فائق قراسان ہوئے اور ایک خلق کثیر نے آپ سے استفادہ کیا۔آپ کے اور معلم سلطان سلیم خاں کے باہم بڑی محبت تھی اس لیے اس نے قصبۂ برکل میں آپ کے لیے مدرسہ بنوایا۔آپ کی تصنیفات سے مختصر کافیہ بیضاوی کی شرح اور کتاب طریقہ محمدیہ اور حواشی شرح وقایہ اور کتاب الفرائض یادگار ہیں۔وفات آپ کی ۹۸۱ھ میں ہوئی۔’’کانِ فضل‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
سید عبداللہ ربانی بن سید محمد غوث گیلانی حلبی اوچی: جامع علوم معقول و منقول،حاوی فروع واصول،صاح عمل و توکل،دنیا ومافیہا سے بے نیاز اور قصبہ اوچ میں سکونت رکھتے تھے آپ کے وسیلہ سے بے شمار خلقت صوری و معنوی کمالات کو پہنچی۔وفات آپ کی بہ عہد اکبر بادشاہ ۹۷۸ھ میں ہوئی۔مزار آپ کا اوچ میں زیارت گاہ ہے’’فخر زماں‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مفتی ملا فیروز معروف بہ پنچہ گنائی بن لوئی گنائی: کاشمیر کے علمائے اجلہ اور فضلائے متجرین سے جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے،ابتداء جوانی میں حرمین شریفین کی زیارت کو تشریف لے گئے اور کچھ مدت تک وہاں رہ کر ہندوستان کو آئے اور بد ایوں میں پہنچ کر ہر چند تحصیل علوم میں مشغول ہوئے لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی، آخر کو خوش قسمتی سے آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی،آپ نے ان سے علم کا سوال کیا،اس پر حضرت خضر چالیس روز آپ کے پاس آئے اور مختلف علوم پڑھاتے رہے یہاں تک کہ فقہ و حدیث و تفسیر وغیرہ علوم میں عالم فاضل ماہر کامل ہوئے۔جب آپ کی فضیلت کا چرچا دور رزدیک پہنچا تو اکبر شاہ نے بہ ہزارمنت والتجاء آپ کو اپنے پاس بلا کر بڑا اعزا وکرام کیا اور کاشمیر کو مفتی اعظم بناکر بھیجدیا جہاں آپ نے اجرائے احکام شریعت کا کمال دیانت و ۔۔۔
مزید
مولیٰ تاج الدین ابراہیم بن عبیداللہ حمیدی[1]: شہر حمید میں نویں صدی کے ابتداء میں پیدا ہوئے اور قسطنطنیہ میں داخل ہوکر وہاں وطن اختیار کیا،علوم مولیٰ نور الدین وغیرہ سے حاصل کر کے فاضل اجل،فقیہ اکمل ہوئے۔پہلے قسطنطنیہ کے مدرسہ ابراہیم رواس میں مدرس مقرر ہوئے پھر مدرسہ قصبہ یلونہ اور مدرسہ قاضی اسوداور مدرسہ سلیمان پاشا واقعہ ازنیق میں مدرس مقرر ہوئے اور وہاں شرح وقایہ پر حواشی لکھے اور ان میں ابن مال پاشا کے اعتراضوں کا خوب جواب لکھا اور جب اس مدرسہ سے علیٰحدہ ہوئے تو ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں چند مواضع سے اقوال جمع کر کے سولہ جگہ پر ابن کمال پاشا پر تردیدی کی اور نیز سید کی شرح مفتاح کا بعض مقامات سے حاشیہ تصنیف کیا اور اس میں بھی ابن کمال پاشا کی تردید کی اور صرف میں شرح مراح تصنیف کی وفات آپ کی ۹۷۳ھ میں ہوئی ۔ ۔۔۔
مزید
مولیٰ صالح بن جلال: چونکہ آپ کے والد ماجد زمرۂ کبار قضاۃ میں سے تھے،اس لیے آپ کو ابتداء سے ہی برے بڑے علماء وفضلاء سے صحبت رہی لیکن آپ نے زیدہ تر مولیٰ خیر الدین معلم سلطان سلیمان کی ملازمت اختیار کی اور مدت تک ان کی خدمت میں رہ کر علوم مختلفہ اور فنون متعددہ حاصل کیے اور فائق براقران اور افاضل روزگار ہوئے،پہلے اورنہ میں مدرسۂ سراجیہ کے پچیس روپیہ تنخواہ پر مدرس ہوئے پھر قسطنطنیہ میں مدرسۂ مراد پاشا میں تیس روپیہ کی تنخواہ پر تشریف لے گئے وہاں سے مدرسہ محمود پاشا میں چالیس روپیہ پر تبدیل ہوئے، جہاں آپ کی پچاس روپیہ تک ترقی ہوئی بعد ازاں آتھ مدارس میں سے ایک کے مدرس مقرر ہوئے پھر سلطان سلیمان کی طرف سے بعض کتب گارسیہ کے ترکی میں ترجمہ کرنے پر مامور ہوئے جس کو آپ نے تھوڑی ہی مدت میں نہایت کوبی سے انجام دیا،جس پر آپ کو سلطان با یزید خاں ک۔۔۔
مزید
یوسف قرہ صوی: نور الدین لقب تھا۔عالم فاضل،حق گو،متورع و متشرع تھے،علوم مولیٰ مصطفیٰ خواجہ زادہ اور سنان پاشا وغیرہ سے حاصل کیے اور مدارس بروسا واسکوب و اور نہ وقسطنطنیہ کے مدرس مقرر ہوئے اور سلطان سلیم نے آپ کو قضاء کا منصب عطا فرمایا۔فقہ میں ایک کتاب مرتضیٰ نام تصنیف کی جس میں مختار مسائل کو جمع کیا اور بقول مختار ۹۷۲ھ میں وفات پائی۔’’زینتِ شہر‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولی محمد بن محمد الشہیر بہ عرب زادہ رومی: اپنے زمانہ کے علمائے فحول اور اکابر دہر میں سے صاحب تحقیق و تدقیق تھے،پہلے شہر بروسا پھر مدرسہ محمود پاشا واقعہ قسطنطنیہ پھر آٹھ مدارس میں سے ایک کے پھر مدرسہ سلیمانیہ میں مدرس مقرر ہوئے اخیر کو قاہرہ کی قضاء آپ کے سپرد ہوئی اور پچاس سال کی عمر میں ۹۶۹ھ میں آپ بحالت طغنای دریاکشتی میں سوار ہوئے کہ کی ا یک کشتی ٹوٹ گئی اور آپ شہید ہوگئے۔’’شیخ جہاں‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کی تصنیفات سے شح وقایہ و ہدایہ اور ہدایہ کی شرح عنایہ اور فتح القدیر اور سید کی شرح مفتاح اور مطول وغیرہ پر حواشی یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
میر سید عبدالاول بن علاء حسینی: فقیہ محدث،جامع علوم عقلی ونقلی اور فنون ظاہری اور باطنی تھے آباء واجداد آپ کے قصبۂ زید پور علاقہ جونپور کے رہنے والے تھے جو ولایت دکن میں جاکر سکونت پذیر ہوئے اور آپ وہیں پیدا ہوئے اور وہاں کے علماء و فضلاء سے تحصیل علوم کر کے فضیلت و کمالیت کو پہنچے اور علم باطن میں سید محمد گیسودراز کی بعض اولاد کے،جو دکن میں تھے،مرید ہوئے،آخر حال گجرات میں تشریف لائے اور گجرات سے حرمین شریفین کی زیارت کو نہضت فرماہوئے اور حج کر کے پھر احمد آباد میں واپس آئے نہایت معمر ومسن تھے،اخیر عمر میں غربت اور انکسار آپ کے حال پر ایسا غالب آیا جس سے آپ کو علوم رسمیہ سے بالکل ذہول ہوگیا اور خان خاناں محمد بیرم خان شہید کی استدعا سے جو علماء و فضلاء کا محب اور غرباء فقراء کا بڑا مربی تھا،دہلی کو تشریف لے گئے جہاں۔۔۔
مزید
محمد بن یحییٰ حلبی تاذقی: علامۂ عصر،فرید دہر،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، حاویٔ معالم فروعیہ واصولیہ تھے،بعد تکمیل کے منشیر علوم اور تدریس میں مشغول رہے اور کتاب قول المہذب فی بیان مافی القرآن من الرومن المعرب تسنیف فرمائی۔ وفات آپ کی ۹۶۳ھ میں ہوئی۔’’مفرت تکوین‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
عبدالقادر المشہور بہ قادری چلپی: بڑے عالم فاضل،صاحب ذکاء و فطنت تھے۔علم حمیدی اور رکن الدین زیرک محمد سے پڑھا اور انہیں سے فضیلت و کمالیت کا رتبہ حاصل کیا۔پہلے آپ کو سلطان سلیمان خاں نے معلم مقرر کیا پھر اناطولی میں عسکر کی قضاء کا عہدہ دیا اور ۹۵۹ھ میں آپ نے وفات پائی۔’’فخر عہد‘‘ تاریخ وفات ہے۔تعلیقات اور رسائل بھی آپ نے تصنیف کیے تھے مگر وہ یہ سبب آپ کی سوء مزاجی اور اخیر عمر میں مخبوط العقل ہوجانے کے شائع نہ ہوسکے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید