حضرت علامہ حافظ محمد ایوب دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
رئیس المتکلمین علامہ حافظ محمد ایوب دہلوی بن شیخ عبدالرحمن محلہ کوچہ قابل عطار دہلی (بھارت) میں ۱۸۸۸ء کو تولد ہوئے ۔ شیخ عبدالرحمن دہلی میں تجارت کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی۔ اس کے بعد قرٓان حکیم حفظ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے۔ بعد ازاں وقت کے مشاہیر علماء سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ اس کی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں ، البتہ ملا واحدی کی خود نوش کتاب ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘ سے معلوم ہوا کہ انہوں نے عظیم ریاضی دان علامہ مولانا محمد اسحاق رامپوری سے بھی استفادہ کیا تھا۔ بہر حال مختلف علماء کرام سے درس نظامی مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
علامہ موصوف کتاب و سنت کے ساتھ منطق و فلسفہ میں کمال درجے کے عالم و فاضل تھے، صاحب تصنیف ، قادر الکلام خطیب اور متوکل صوفی تھے۔ بلا کے ذہین، فطین ، طبع اخذ اور مزاج نقاد تھا۔
بیعت:
آپ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ سے روحانی طور پر بیعت کر لی ہے، اس سے فیضیاب ہوں۔ دہلی میںایک درویش رہتے تھے مولانا نے ایک مدت تک ان کی صحبت میں رہ کر ان کی خوب خدمت انجام دی ۔ ان سے بھی فیضیاب ہوئے (بروایت محمد زین العابدین)
شادی و اولاد:
آپ نے دہلی میںعجائب خانم خاتون سے شادی کی جس سے ۸ لرکے اور ۸ لڑکیاں تولد ہوئیں ان میں سے بعض بچے بچپن میں فوت ہوگئے۔
۱۔ محمد خالد مرحوم
۲۔ محمد خضر مرحوم
۳۔ محمد رفیع مرحوم
۴۔ محمد یامین مرحوم
۵۔ محمد صالحین مرحوم
۶۔ محمد زین العابدین
۷۔ محمد فیروز مرحوم
دامادوں کے نام:
۱۔ محمد الدین پراچہ (پراچہ ہائوس اردو بازار کراچی)
۲۔ محمد فرید (مالک فریسکو بیکرز، فریسکو چوک برنس روڈ کراچی)
۳۔ سرفراز خان
۴۔ امیر حسن
۵۔ عبدالحمید
۶۔ معراج محمد
حلقۂ احباب:
مولانا سیدنا جلالی دہلوی ، مولانا سید عبدالسلام باندوی، مولانا سید منتخب الھق قادری، مولانا مفتی محمد عمر نعیمی، مولانا امیر احمد انصاری جودھپوری، مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی وغیرہ وغیرہ۔
معتقدین:
آپ کے صحبت میں بیٹھنے ، درس میں شرکت کرنے والے ، استفادہ کرنے والے کوشہ چین، معتقدین و محبین کی فہرست طویل ہے، آپ کے درس میں اہل علم فاضل اور نامور شخصیات شرکت کرتی تھیں۔ ان میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
نامور دانشور ملا واحدی (کراچی)، حکیم محمد سعید بانی ہمدرد فائونڈیشن کراچی، محترم سخی سید شوکت علی دہلوی مرحوم بانی مکتبہ رازی کراچی، مولانا عزیز الحق عزیز ڈپٹی سیکریٹری حکومت پاکستان (کراچی) ، محمود احمد خان ریٹائرڈ الیکشن کمشنر سندھ (کراچی) نے آپ کی کتاب ختم نبوت کا انگلش ترجمہ کیا جسے مکبہ رازی نے آب و تاب کے ساتھ شائع کیا، حکیم فاروقی، ہندوستانی دواخانہ گارڈن، حکیم حافظ محمد محسن الدین احمد صاحب بقائی ٹھٹھائی کمپائونڈ/شمالی ناظم آباد، کراچی، خان بہادر شیخ حبیب الرحمن ، حاجی محمد صالح دہلوی، دلی کے مشہور پنجابی سوداگر حاجی شیخ محمد خلیل سوت والے (کھارادر) ڈاکٹر رفیع الدین، اس ملتانی سیکریٹری حکومت پاکستان (کراچی) اسلم ملتانی ، حاجی محمد صدیق طیبی سینٹر نیو چالی کراچی وغیرہ۔
سفر حرمین شریفین:
آپ نے ۱۹۶۶ء کو حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کیا مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت ابدی حاصل کی اور نہایت عقیدت و احترام سے درود سلام کا نذرانہ پیش کیا یاد رہے کہ آپ کو حج کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔
خطابت:
آپ ہر اتوار کو درس دیا کرتے تھے ایک اتوار کو حکیم حافظ محمد سعید دہلوی شہید (بانی ہمدرد فائونڈیشن کراچی) کے گھر شکار پور کالونی نزد مزائد پر دوسرے اتوار کو اسد ملتانی (سیکریٹری حکومت پاکستان) کی کوٹھی ۱۰ ڈی گارڈن روڈ ، کراچی پر جس میں قرآن و حدیث کے ساتھ فلسفہ و منطق پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرتی تھی درس قرآن ہوا کرتا تھا جس میں قرآن حکیم کی تفسیر تشریح اور علمی نکات بیان کئے جاتے تھے ۔ ان دروس میں حضرین کو کوئی بھی سوال دریافت کرنے کی کھلی اجازت ہوا کرتی تھی۔
ان تقاریر کو آڈیو کیسٹ کا خزانہ ہمدرد لائبریری بیت الحکمت میں محفوظ ہے اس کے علاوہ بھی مختلف حضرات مثلا حاجی محمد صدیق (الیوسف چیمبر شاہراہ لیاقت کراچی) الحاج سید شوکت علی دہلوی مرحوم (کراچی) اور حکیم محمد عبداللہ قادری (کراچی )وغیرہ کے پاس محفوظ ہیں
خطابت کی جھلکیاں:
رئیس المتکلمین علامہ حافظ ایوب دہلوی محفل درس فرماتے ہیں: ہر اس مجلس میں جانا چاہئے کہ جہاں نبی کی تعظیم کی جارہی ہو اور اس مجللس میں نہیں جان اچاہئے جہاں نبی کی بے ادبی ہورہی ہو۔ حرام ہے، گناہ ہے، یا رسول اللہ میں کیا جھگڑا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ایسے بزرگ ہیں جن کو سب مانتے ہیں۔ دیوبندی، بریلوی اور غیر مقلد تینوں متفق ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر وقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
شاہ عبدالعزیز ایسے بزرگ ہیں کہ (میری نظر میں) سارے عالم میں ان کے برابر کا کوئی عالم نہیں تھا۔ جب انہوں نے ’’یا‘‘ کہہ کر پکارا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ہمارے استادوں کا سلسلہ ان سے (شاہ عبدالعزیز سے) ملتا ہے ۔ مذہبی چیزوں میں ائمہ اربعہ کو بزرگ جانتا ہوں اور ’’حنفی مذہب‘‘ کا پیروکار ہوں۔ ہر مذہب والا اپنے مذہب کو افضل کہتا ہے ۔ میں بھی اپنے مذہب کو افضل کہتا ہوں (مقالات ایوبی جلد اول ص ۲۶۲) مطبوعہ مکتبہ رازی کراچی سن ندارد)
’’چند اہل حدیث (غیر مقلد) درس میںبیٹھا کرتے تھے (ایک روز)میں نے رد کردیا۔ تو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے، ہوجائو، غیر مقلدی غلط چیز ہے۔ اس سے بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ چاروں امام حق پر ہیں، ان کی تقلید جو نہیں کرے گا تو گمراہ ہوگا۔(ایضاً ص۲۶۰)
’’قیامت تک جتنے اولیاء اللہ ہیں ان کے مجموعے سے ایک ادنیٰ صحابی کو افضل مانتا ہوں، یہ میرا عقیدہ ہے۔ تمام اصحاب رسول ﷺ کو جنتی مانتا ہوں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں سمجھتا اور جو بات مانتا ہوں اس کیلئے دلیل ہوتی ہے ‘‘ (ایضاً ص۲۹۳)
’’مجتہد اگر غلطی کرے گا تو اس کو ایک انعام ملے گا، اگر ٹھیک کرے گا تو دو انعام ملیں گے۔ چاروں امام حق پر ہیں، تمام مجتہدین حق پر ہیں۔ تمام اولیاء اللہ اور ارباب کشف حق پر ہیں، یہ میرا عقیدہ ہے۔‘‘ (ایضاً ص:۲۹۵)
سوال: ختم نبوت کے دور میں نبوت کا امکان ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں ہے۔ ختم نبوت اور عدم ختم نبوت میں اجتماع النقیفین ہے، جس طرح جسم کے متحرک ہونے کے وقت جسم کا ساکن ہونا محال ہے، بالکل اسی طرح ختم نبوت کے وقت امکان نبوت محال ہے۔ نیز اگر ختم کے اوقات میں امکان عدم ختم یعنی امکان نبوت ہوگا اور ہر ممکن کے واقع ہونے کا فرض جائز او رصحیح ہے تو اس ممکن کے واقع ہونے کو فرض کیا جائے گا تو ختم ختم نہیں رہے گا اور ختم کا ختم نہ ہونا قطعاً محال ہے۔ لہٰذا اس وقع کا فرض کرنا محال ہے اور دوران ختم نبوت میں نبوت محال ہے ۔ …(رسالہ ختم نبوت ص۱۰)
سوال: خاتم النبیین کے معنی صرف ختم نبوت کے ہیں یا کچھ اور بھی؟
جواب: صرف ختم نبوت کے ہیں۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ختم کردی اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا یعنی کوئی سچا مدعی نبوت پیدا ہی نہیں ہوگا۔
ثبوت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای اکہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں ہگا‘‘ یا یہ نہیں فرمایا ؟ اگر یہ کہتے ہو کہ حضور ﷺ نے یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور یہی فرمایا اور یہی حق ہے تو مدعی ثابت ہوگیا یعنی حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا تو بتائو کہ تم مسلمانوں نے تیرہ سو برس سے یہ عقیدہ کیوں اپنایا؟ اور بلا اختلاف اپنایا (یعنی آگے کوئی نبی ہوسکتا تھا تو پھر تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف اس غلط عقیدہ کو کیوں اپنایا؟) جس وقت یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا اس وقت اس سے اختلاف کیوں نہیں کیا گیا۔ حالانکہ کوئی معمولی سی بھی نئی بات پیدا ہوتی ہے تو اختلاف ہوتا ہے اور گذشتہ دوروں میں ہوتا رہا ہے جیسا کہ اس وقت اختلاف ہو ا۔ اسی طرح جب بھی یہ مسئلہ قوم کے سامنے آتا تو اختلاف ہوتا یعنی حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد نبی نہیں ہوگا تو پھر قوم نے یہ کیوں کہا کہ آپ کے بعد نہی نہیں ہوگا اور جس وقت یہ آواز اٹھی تھی اس وقت اختلاف کیوں نہیں ہوا؟ ساری قوم نے اس پر اتفاق کر لیا کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اگر ساری قوم صادق ہے اور سچی ہے اور یہی بات سچی اور حق ہے کہ ساری قوم متفقہ طور پر ختم نوبت کی قائل ہے تو پھر منکر ختم نبوت اور قادیانی جھوٹا ہے اور یہ بیان قادینیت کو جڑ سے کات کر پھینک دیتا ہے۔ (ختم نبوت ص۱۲)
سوال: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا عقل میں نہیں آتا۔
جواب: کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بے باپ کے پیدا ہونا عقل میں آتا ہے ۔ جس شخص کی ابتدا خرق عادت سے ہو اور تمام زندگی خرق عادت ہو، اس کا انجام کیوں نہ خرق عادت ہو۔ غور کرو۔ (ختم نبوت ص۱۷)
سوال : اللہ یصفطی من الملائکۃ رسلا و من الناس (پارہ ۱۷، سورۂ حج، آیت ۷۵)
اللہ فرشتوں میںسے اور آدمیوں سے رسول چنتا ہے یا چنتا رہے گا یا چنے گا۔ یہاں مضارع کا صیغہ ہے ج وحال ، استقبال دونوں کیلئے آتا ہے، اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبوت کا انتخاب حال اور مستقبل میں ہوتا رہے گا۔
جواب: یہ یَصْطَفِیْ کا صیغہ مضارع ہی کا ہے مگر اصطفیٰ کے معنی میں ہے جس طرح قال اللہ یعیسٰی ابن مریم ء انت قلت (پارہ ۷، سورہ مائدہ، آیت ۱۱۶) اور جب اللہ تعالیٰ کہے گا اے عیسیٰ! کیا تو نے کہا تھا ۔ یہاں قال کا صیغہ ماضی کا ہے مگر مستقبل کے معنی من ہے۔ اسی طرح مستقبل کا صیغہ حال اور ماضی میں مستعمل ہے۔
سوال: وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (پارہ ۴ سورۂ آل عمران ، آیت ۱۴۴)
محمد ﷺ اور ان سے پہلے کے تمام رسول گزر گئے یعنی وفات پاگئے۔
جواب: یہ معنی جب صحیح ہونگے کہ خَلَت کے معنی مَاَتَتْ کے ہوں اور رسل سے تمام رسول مراد ہوں اور کوئی رسول مستثنیٰ نہ رہو حالانکہ خَلَت کے معنی مَاَتَتْ کے نہیں ہیں بلکہ مَضَتْ کے ہیں یعنی ان کا دور اور زمانہ گزر گیااور اگر خَلَت کے معنی مَاَتَتْ کے ہوں تو قد خلت من قبلہم المثلث (پارہ ۱۳، سورہ الرعد آیت ۶) کے معنی یہ ہوں گے کہ تحقیق ان سے پہلے واقعات عقوبت میں مرگئے اور فی الایام الخالیۃ (پارہ ۲۹، سورۃ الحاقہ، آیت ۲۴) کے معنی گذشتہ ایام کی بجائے مردے ایام ہوں گے۔ خلت کے معنی ماتت کے نہیں ہیں۔ اس طرح رسل سے مراد تمام رسول نہیں ہیں ۔ جس طرح ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لہم ازواجاو ذریۃ (پارہ ۱۳ سورۃ الرعد، اایت ۳۸) ہم نے تج سے پہلے رسولوں کو بھیجا اور ان کو بیبیاں اور اولادیں دیں حالانہ یحییٰ علیہ السلام کو بیوی اور اولاد نہیں دی کیونکہ ان کی تعریف میں فرمایا حصورا(پارہ ۳، سورۃ آل عمران اایت ۳۹) یعنی عورتوں سے بچنے اور پرہیز کرنے والا۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ، سچا ہے تو یہ دویٰ کہ وہ حیات ہیں زندہ ہیں قطعی جھوٹا ہوگیا۔ یعنی اگر قادیانی سچا ہے تو ساری قوم جھوٹی ہے اور اگر ساری قوم اصحاب رسول ﷺ سے لے کر آج تک اگر سب جھوٹے ہیں تو یہ مزہب اسلام ہی ختم ہوا۔ اور ان سب جھوٹوں نے قرآن کو نقل کیا ہے تو قرآن بھی غیر معتبر ہوا۔ اور اسی قرآن سے اصلی مسیح ثابت ہے۔ وہ اصل مسیح بھی ختم ہوا۔ اب مسیح موعود کی کیا ضرورت باقی رہ گئی جب کہ اصلی مسیح ختم ہوگیا جو قرآن سے ثابت ہے اورقرآن ان تمام جھوٹوں سے ثابت ہے اور اگر ساری قوم سچی ہے اور یہی حق ہے تو قطعاً قادیانی منکر حیات مسیح جھوٹا ہوگیا اور یہ بیان قادیانی اور انکار حیات مسیح کو ختم کردیتا ہے۔۔ (رسالہ ختم نبوت ص۱۸)
تصنیف و تالیف:
آپ کے علمی دروس کو آپ کے محبین و متوسلین نے آڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا تھا جس سے نقل کرکے کتابیں تیار کرکے آپ کی زندگی اور اس کے بعد شائع کرکے مفت تقسیم کی گئیَ ریٹائرڈ پروفیسر محمد نعیم (کالا بورڈ، ملیر) علامہ موصوف کے درس میں اکثر شرکت فرماتے تھے انہوں نے ایک ملاقات میں راقم فقیر کو بتایا کہ وہ تاجرانہ بنیاد پر کتابیں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وسائل ہیں تو شائع کرکے مفت تقسیم کریں اس سلسلہ میں وہ چندہ جمع کرنے کے حق میں بھی نہیں تھے۔ ان کا اللہ عزوجل کی ذات پر کامل بھروستہ تھا وہ فرماتے تھے جس کام کا ہونا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا وہ کامل متوکل تھے۔ آپ کی بعض کتابوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
۱۔ تفسیر ایوبی:
حصہ اول جس میں اعوذ ، بسم اللہ اور سورہ فاتحہ کی تفسیر۔ حصہ دوم میںسورہ بقرہ رکوع اول کی تفسیر سوا چار سو صفحات پرمشتمل ہے مطبوعہ مکتبہ رازی شارع محمد بن قاسم روڈ کراچی
۲۔ فتنہ انکار حدیث:
فرقہ پرویزی کے (بانی غلام احمد پرویز ایڈیٹر ماہنامہ طلو ع اسلام لاہور) کے رد میں لکھی گئی۔ مولانا نے نہایت مدلل اور معقول جواب دیئے ہیں۔ مکتبہ نے اردو، انگریزی، عربی اور فرنچ میں شائع کیا۔ اس کا ایک ایڈیشن اے بی المعاشی برادرز اائل انڈسٹریز کراچی نے شائع کیا ہے۔
۳۔ ختم نبوت:
قادیانیت کے رد میں شاہکار رسالہ ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی کثیر تعداد میں شائع ہوا اور فرانسیسی زبان میںبھی ترجمہ چھپ کر ہزاروں کی تعداد میں افریقہ میں مفت تقسیم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد مکتبہ نے عربی میں شائع کیا۔ صدیقی ٹرسٹ کراچی نے ثمرۃ الکون کو ۱۹۸۲ء میں ارو فتنہ انکار الحدیث (عربی) کو ۱۹۸۳ء میںدو دو ہزار ایڈیشن شائع کئے۔
۴۔ مقصود کائنات:
اس کا ماحصل یہ ہے کہ مقصود کائنات حضور ختمی مرتبت ﷺ کی ذات گرامی قدر ہے۔ مکتبہ رازی نے اس رسالہ کا ترجمہ عربی ثمرۃ الکون کے نام سے شائع کیا۔
۵۔ مقالات ایوبی:
(۳ جلدیں) مطبوعہ مکتبہ رازی، ۱۵ شہاب مینشین محمد بن قاسم روڈ کراچی۔
۶۔ تحقیق الکلام
۷۔ مسئلہ جبرو قدر
۸ منکر حدیث اور قربانی
فقری نے علامہ ایوب کی کتب کی اشاعت کا جو جائزہ پیش کیا ہے اس سے بخوبی علامہ کی تالیفات کی عوام الناس میں مقبولیت کا پتہ چلتا ہے۔ وقت کا تقاضاو ضرورت ہے کہ علامہ کی تین سو کیست میں جو تقاریر مختلف علوم و فنون پر مشتمل پھیلی ہوئی ہیں انہیں کاغذ پر منتقل کرکے کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
عادات و خصائل:
رازی زماں علاہ ایوب کے قریبی ، صحبت یافتہ سید صاحب جناب الحاج شوکت علی وہلوی ثم کراچی نے آپ کی تصویر کو اپنے قلم سے یوں کھینچا ہے، موصوف رقم طرا زہیں:
’’بلند اور کشادہ پیشانی، بری بڑی روشن اور مقناطیسی کشش رکھنے والی آنکھیں، خوبصورت داڑھی، رنگت ملیح ،صورت میں دلکشی، چہرے پر فکر و تحقیق اور ذہانت و فراست کے انوار، موزوں قد، رعب و دبدبہ اور جلال و جمال سے آراستہ، لیکن بہت معمولی لباس کرتہ کا گریبان کھلا ہوا، سر پر دو پلی ٹوپی، پائوں میں ادھوڑی استر کی جوتی، کثرت سے پان کھانے کے باعث دانت اور ہونٹ رنگین اور کپڑوں میں جگہ جگہ پیک کے دھبے یہ حلیہ ہے اس ہستی کا جسے مولانا ایوب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
دلی کے رہنے والے، دلی کی زبان بولنے والے، معقولات کے بادشاہ، فلسفہ کے امام اور فکر و تحقیق میں اپنی مثال آپ ، قرآن پاک پر بے پایاں عبور حاسل تھا جب رموز قرآن بیان کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ آبشار گر رہی ہے اور تلسل روانی ، زور بیان میں کبھی جھول نہیں آتا تھا ۔ تکلف و بناوٹ سے پاک، بے نیاز اور ساتھ ہی ساتھ محبت و مروت اور خدا ترسی کی صفات سے زندگی مرصع تھی۔‘‘ (پیش لفظ)
مولانا پیشے کے حوالے سے کپڑے کی تجارت کرتے تھے دن بھر خالقدینا ہال کے سامنے کپڑے کی مارکیت ایم اے جناح روڈ پر کراچی میں لٹھا کی دوکان پر بیٹھتے تھے۔ کسی مسجد میںامامت و خطابت ان کا معمول نہیں تھا، وہ کسی دارالعلوم سے بھی منسلک نہیں تھے۔ ان کی الگ تھلگ دنیا تھی، اپنی دنیا میں مشغول و مصروف رہ اکرتے تھے۔ وہ دین کی خدمت فی سبیل اللہ کرتے تھے اور اسی پر یقین رکھتے تھے، وہ فیس مقرر کرکے کسی جلسہ میں جانے کو بہت برا سمجھتے تھے اسی لئے تقریبات میں تقریباً نہیں جاتے ھتے۔ اپنی تشہیر کو سخت نا پسند کرتے تھے، غالباً اس لئے آپ کی کسی کتاب میں بھی سوانح مسنلک نہیں ہے۔ وہ گم نامی و گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے تھے، وہ سیدھے سادے ، بے نفس ، سادہ مزاج، صاف گو عظیم انسان تھے۔ وہ لباس سے نہیں پہچانے جاتے تھے کہ یہ وہ عالم ہیں جس کی نظر نہیں۔ معمولی سا لباس زیب تن فرماتے گدڑی میں لعل کے مصداق معلوم ہوتے ۔
پروفیسر نعیم صاحب نے بتایا کہ وہ فرماتے تھے تم لوگ درس میں آتے تو ہو لیکن اس کی تشہیر کبھی نہیں کرنا۔ وہ اس چیز پر سب سے عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے جنہیں درس میں آنا نصیب ہے وہ ضرور آکر رہے گا اس لئے تشہیر نمائش کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اشتہارات میں ان کا نام نمایاں اور القابات سے شائع ہو، اس لئے کسی جلسہ میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔
صاحبزادہ محدم زین العابدین صاحب نے بتایا کہ وہ سادات کرام کا نہایت احترام کرتے تھے۔ سادات پر زکوٰۃ کو حرام سمجھتے تھے۔ جھوٹ سے نفرت رکھتے تھے اور حق سچ کا ساتھ دیتے تھے۔ ایک صاحب کے ان کی طرف ۹ ہزار روپے تھے لیکن وہ پاکستان آکر بھول گئے لیکن مولانا نے قیام پاکستان کے بعد انہیں یاد دلا کر پوری رقم واپس لوٹا دی۔ ایک بار ایک صاحب دوکان پر حاضر ہوئے وہ ان سے کہنے لگے بلینک چیک لے لیں اور یہ لکھ کر دیں کہ عیسائیت قادیانیت پرویزیت اور غیر مقلدیت کا رد نہیں کریں گے لیکن اس مرد خدا نے سختی سے دو ٹول الفاط میں وہ پیشکش ٹھکرادی۔ وہ کہتے تھے کہ میں دربار رسالت میں بک چکا ہوں اب کوئی میری بولی نہیں لگا سکتا وہ بکنے جھکنے اور دبنے والے انسان نہیں تھے بلکہ حضور پاک ﷺ کے سچے غلام اور دین اسلام کے مخلص سپاہی تھے۔
وہ سخی تھے راہ خدا میں لٹانا جانتے تھے۔ سارے دن کی کمائی میں سے گھر کا خرچہ نکال کر بقیہ رقم اہل ضرورت سفید پوش محتاجوں اور بیوہ خواتین پرخرچ کردیتے تھے۔
مولانا مرحوم کتب خانہ و کتب بینی کی حاجت سے آزاد تھے انہیں رب کریم نے وہبی علم عطا فرمایا تھا۔ وہ نہ لکھتے تھے، نہ پڑھتے تھے۔ ان کے معمولات اس طرح تھے کہ روزانہ فجر پڑھ کر ناشتہ کرتے اس کے بعد کھارادر سے بس میں بیٹھ کر برنس روڈ آتے گوشت سبزی وگیرہ خرید کر لائین میں لگے ہوئے فقیروں کو خیرات دیتے ہوئے واپس گھر آتے پھر وہاں سے بس میں بیٹھ کر لائٹ ہائس دوکان پر چلے جاتے حلال روزی کماتے۔ شام گھر واپس ہوتے عشاء کے بعد سو جاتے۔ یہ ہیں ان کے معمولات زندگی ان کے فیض یافتہ شاگرد ملا واحدی لکھتے ہیں:
افسوس انہیں لکھنے کی مشق نہیں تھی۔ وہی زبان جو تقریر میں استعمال کرتے تھے تحریر میں استعمال کر سکتے تو بلا مبالغہ امام غزالی علیہ الرحمۃ کی طرح حیات جاوید پالیتے۔ مجھے چودھویں صدی ہجری کی عطیم ترین علماء و مشائخ سے شرف نیاز مندی حاصل رہا ۔ میں نے علم کے سمندر میں غوطہ خور عالم اور غزالی صفت درویش مولاناایوب دہلوی جیسا نہیں پایا۔ (مولانا ایوب جنہوں نے دین کی تجارت کبھی نہیں کی: مضمون نگار: ملا واحدی، روزنامہ جنگ کراچی ۲۰ دسمبر ۱۹۶۹)
تاثرات:
نامور قانون دان و اسکالر اے کے بروہی مرحوم آپ کے متعلق اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں:
۱۔ ’’ان کے قرآن شریف کے اس عمیق مطالعے اور اسلام کی روح کی سوجھ بوجھ سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ مجھے اس بارے میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کی آئندہ نسل کیلئے ان کے خیالات کا گہرا مطالعہ قرآن شریف کو صحیح سمجھنے اور پیغمبر اسلام کے ارشادات کی اہمیت کو بخوبی سمجھنے میں کافی حد تک ممد و معاون ثابت ہوں گے۔‘‘ (مقالات ایوبی جلد اول)
۲۔ نامور اسکالر ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی رقمطراز ہیں:
’’علاہ حافط محمد ایوب صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں جن اہل علم کو حاضری کا موقع ملتا تھا وہ ان کے تبحر علمی کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ علامہ موصوف کو علوم معقول و منقول میں حیرت انگیز دستگاہ تھی، اس زمانے میں ایسے علماء جو علم کلام میں اس درجہ امتیازی قابلیت کے حامل ہوں نظر نہیں آتے۔
منطق فلسفہ اور قرٓان و حدیث کے علوم کا ایسا امتزاج دوسروں کی تصانیف میں مشکل سے ملتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ مولانا کا علم اس قدر حاضر تھا کہ ان کی تقریر معانی و معارف سے لبریز ہوتی تھی۔ وہ بے تکان مسلسل ایسی علمی تقریر کرتے تھے کہ دوسروں کو عرق ریزی اور مطالعے کے بعد بھی تحریر تک میں وہ بات پیدا کرنی دشوار ہے۔ ان کے برجستہ ارشادات ، نکات و حقائق کا خزینہ ہوتے تھے (رسالہ مقصوود کائنات)
۳۔ قائد اعظم اکیڈمی کے ریسرچ اسکالر خواجہ رضی حیدر صاحب علامہ موصوف کی علمیت کے معترف اور ان کی خود داری و صاف گوئی اور سادگی کے گیت گاتے رہتے ہیں۔
۴۔ محترم حاتم وقت سید شوکت علی مرحوم (والد سید فصاحت علی) نے اپنی تمام ریٹائرمنٹ سے مولان ایوب مرحوم کی کیسٹ سے تقاریر علمی کاغذ پر نقل کرواکے کتابیں ترتیب دے کر ملک و بیرون ملک مفت تقسیم فرمائیں۔ اس کام کیلئے اہل علم کا بورد اور مکتبہ رازی کو قائم فرما کر ایک اہم و منفرد خدمت سر انجام دیں تھیں۔ آپ کی اشاعت سے اہل علم ہمیشہ استفادہ کرتے رہیں گے اور اہل درد آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اجر ملتا رہے گا۔ آپ کا عمل اہل ثروت مخیر حضرا ت کیلئے ایک نمونہ ہے۔
وصال:
رازی زمان علامہ الدوان مولانا حافظ محمد ایوب دہلوی نے ۴ شوال المکرم ۱۳۸۹ھ بمطابق ۱۳، دسمبر ۱۹۶۹ء بروز پیر ۸۱ برس کی عمر کو کراچی میں انتقال کیا۔ آپ کا مزار دھوبی گھاٹ کے متصل پورہ لیاری کے قبرستان میں ہے جوکہ دہلی قوم سودگران کی ملکیت ہے۔
[سید فصاحت علی صاحب نے علامہ مرحوم کی بعض دستیاب کتابیں مہیا کی اور صوفی اقبال ربانی صاحب کی پر خلوص کوشش سے علامہ مرحوم کے صاحبزادے محمد زین العابدین صاحب سے فریسکو چوک کے قریب ایک سادہ ویرانے فلیٹ میں بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے اپنے والد محترم کے متعلق سوانح لکھوائی اور ملا واحدی کے مطبوعہ مضمون والا اخبار کا تراشہ مرحمت فرمایا۔ فقیر تمام معاونین کا مشکور ہے]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)