شیخ الاسلام محدثِ اعظم حجازعلامہ ڈاکٹر سیّد محمدبن علوی مالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
نام ونسب: پیدائشی نام: سیّد محمد حسن۔بعد ازاں فقط’’محمد‘‘ کےنام سے جانےگئے۔ مکمّل نام: شیخ سیّد محمد بن علوی مالکی ہے۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے: محمد حسن بن علوی بن عباس بن عبدالعزیز بن عباس بن عبدالعزیز بن محمد بن قاسم بن علی بن عربی بن ابراہیم بن عمر بن عبدالرحیم بن عبدالعزیز بن ہارون بن علوشی بن مندیل بن علی بن عبدالرحمٰن بن عیسیٰ بن احمد بن محمد بن عیسیٰ بن ادریس بن عبداللہ الکامل بن الحسن المثنّٰی بن الحسن المجتبیٰ بن علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم۔رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ آپ کاخاندانی تعلّق ساداتِ کرام سے ہے۔28واسطوں سے سلسلۂ نسب حضرت خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا تک منتہی ہوتا ہے۔(مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفا:510)
آپ کےجدِّ اعلیٰ حضرت سیّد ادریس بن عبداللہ کامل حسنی علیہ الرحمۃ(متوفیٰ177ھ/793ء) سلطنتِ ادریسیہ مراکش کے بانی واوّلین حکمران اور مشہور ولی اللہ تھے۔ اس خطے میں انہیں وہی مقام حاصل ہے جو پاک وہند میں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ کوہے۔آپ کے بیٹے سیّد ابوالقاسم ادریس بن ادریس بن عبداللہ کامل حسنی (متوفیٰ 213) مراکش کے اہم شہر ’’فاس‘‘ کےبانی تھے،جہاں ان کامزار واقع ہے۔’’قطب ِ فاس‘‘ اور ’’مولائی ادریس ثانی‘‘ کے القاب سے مشہور ہیں۔ (محدثِ اعظم حجاز:23)
محدثِ اعظم حجاز کے والدِ گرامی شیخ سیّد علوی بن عباس علوی مالکی حرم مکی کےنامْورمدرسین میں سے تھے۔ انھوں نے چالیس برس تک حرم شریف میں علومِ اسلامیہ کے درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔آپ کے دادا سیّد عباس علوی مالکی علیہ الرحمۃ سلطنتِ عثمانیہ و ہاشمیہ میں مکۃ المکرمہ کے قاضی اور امام وخطیب کے منصب پر فائز تھے۔ آپ کے دادا کے علاوہ آپ کے اجداد میں پانچ بزرگ سلطنتِ عثمانیہ کےدور میں حرم مکی میں مالکی ائمہ وخطبا رہ چکے ہیں۔(روشن دریچے:262)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادتِ باسعادت 1362ھ مطابق 1943ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔(محدثِ اعظم حجاز:24)
تحصیلِ علم: کم سنی ہی میں حفظِ قرآنِ کریم کی سعادت حاصل کی، ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں مسجدِ حرام میں مختلف علمائے کرام کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہو کر، کتبِ متدوالہ کی تکمیل کی۔ علاوہ ازیں اسکول کی تعلیم بھی جاری رکھی۔ مکۂ مکرمہ کے معروف مدرسہ الصولتیہ میں باقاعدہ تحصیلِ علم میں مشغول رہے۔ اس کے علاوہ جدّہ کے الفلاح اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی، ان کی ذہانت و ذکاوت کا عالم یہ تھا کہ صرف پندرہ برس کی عمر میں اپنے والدِ گرامی کے حکم سے مسجدِ حرام میں طلبہ کو علومِ اسلامیہ کی بعض کتب کی تدریس شروع کر دی تھی۔ بعد ازاں جامعۃ الازہر مصر کے کلیہ اصول الدین سے اصول ِدین کے مضمون میں ایم اے اور پچیس برس کی عمر میں ڈاکٹریٹ کرنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ جامعہ ازہر سے پی ایچ ڈی کرنے والے یہ پہلے کم عمر سعودی طالب علم تھے۔ (روشن دریچے:261)
آپ نے مکہ مکرمہ میں تعلیم پانے کےبعد مراکش،مصر اور پاکستان و ہندکےسفر کرکےتحصیلِ علم کیا۔
بیعت وخلافت: سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اپنے والدِ گرامی کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،انھوں جمیع علوم ِ اسلامیہ اور سلسلۂ قادریہ وشاذلیہ میں خلافت عطا فرمائی۔ نیز مکۃ المکرمہ کےپانچ مشائخ نے آپ کو مختلف سلاسل میں خلافتیں عطا فرمائیں،شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ مصطفیٰ رضاخان نوری علیہ الرحمۃ نے آخری حج1390ھ/1971ء کےموقع پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی علیہ الرحمۃ سے سلسلۂ قادریہ اور مولانا عبدالغفور مہاجر مدنی علیہ الرحمۃسے سلسلۂ نقشبندیہ میں اجازت وخلافت پائی(محدثِ اعظم حجاز:27)۔تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضاخاں قادری ،ماہرِ رضویات ڈاکٹر محمدمسعود احمدنقشبندی،علامہ عبدالحکیم شرف قادری،مولانا علی احمد سندیلوی،مولانا یٰسین اختر مصباحی وغیرہ جیّد علمائے کرام کو آپ سےاجازتیں حاصل ہیں۔
سیرت وخصائص: مجددالاسلام، شیخ الاسلام، عاشقِ خیر الانامﷺ، محدثِ اعظم حجاز، شیخ العلما، قاطعِ وہابیت ونجدیت، حامیِ سنّت،آفتابِ شریعت، ماہتابِ طریقت، زینت الحرم، وارثِ علوم ومعارفِ اَسلاف، مفتیِ مذاہبِ اربعہ، جامع العلوم والمحاسن، مدرّس، مبلغ، متقی، عارف، علامہ سیّد ڈاکٹر محمد بن علوی مالکی مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔محنت،جدّوجہد،ذکاوت وفطانت اور علمی استعداد وصلاحیت کے لحاظ سے زمانۂ تحصیل علم ہی میں تمام درسی طلبہ پر علامہ سیّد محمد علوی مالکی کو فوقیت اور برتری حاصل تھی، اسی لیے اپنے والدِ ماجد کے حکم پر ختم ہونے والی ہر درسی کتاب کا دوسرے طلبہ کو درس بھی دیا کرتے تھے۔ علم سے فطری مناسبت اور خدا داد لیاقت و صلاحیت ہی کا فیضان تھا کہ علامہ سیّد محمد علوی مالکی آگے چل کر حضرت العلام سیّد علوی بن عباس مالکی علیہ الرحمۃ کے سچے جانشیں ثابت ہوئے۔ حرمینِ طیبین میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم آپ کو بے پناہ قدر و منزلت حاصل ہے۔ عالم اسلام کے علما ومشائخ آپ کی مؤثر شخصیت اور صلاحیت، جلالتِ شان کے معترف ہیں۔ علم وفضل کے ساتھ ساتھ سرزمینِ حجازِ مقدس میں علامہ سیّد محمد علوی مالکی علیہ الرحمۃ عشق و محبّت نبوی ﷺ کے وارث وامین،عظمتِ انبیا ومرسلین کے علم بردار، اولیا و صلحائے امّت کی جلالتِ شان کے قدر شناس اور ان کی تعظیم وتکریم کے داعی ومبلغ تھے۔ اَسلافِ کرام کی شان میں انگشت نمائی اور زبان درازی کرنے والوں سے سخت نفرت رکھتے اور انھیں ان کی غلط حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش بھی فرماتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے علم وفضل کے بڑے مدّاح تھے۔پاک وہند کےعلما و مشائخ میں سے جوآپ کی بارگاہ میں امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے اپنی علمی وروحانی نسبت کاتذکرہ کرتا، فوراً کھڑے ہوکرمعانقہ کرتے اور پیشانی پر بوسہ دیتے اور بےحد تعظیم وتکریم فرماتے، اوروالہانہ انداز میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ کا ذکرِ خیر فرماتے۔(مفتیِ اعظم اور اُن کے خلفا: 516)
موصوف کا شمار عالم اسلام کی ان کی چیدہ وبرگزیدہ ہستیوں میں ہوتاہے،جو اپنے علم وفضل،زہد وتقویٰ،تحقیق وتصنیف،اور وسعتِ علمی وفکری کےپیشِ نظر امّت ِ مسلمہ کی عقیدتوں، محبتوں کامحور ومرکز رہیں۔ آپ بلاشبہ جلیل القدر عالمِ دین،عظیم محقق،صاحبِ طرز مصنّف،تجربہ کار مدرّس، بلند پایہ مقرر اور عظیم مفکر،مرجع الخلائق قائد، اور رسوخ فی العلم والعمل میں اپنی نظیر آپ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمِ عرب وعجم میں شاید ہی کوئی ایسا ہوجو ان کی تصنیفات اور خدماتِ جلیلہ سے نا واقف ہو۔ آپ نے سعودی عرب میں رہتے ہوئےعلی الاعلان مسلکِ اہلِ سنّت کے موقف کی بھر پور حمایت اور زندگی بھر دلائل کے ساتھ مردانہ وار دفاع کیا۔آپ کے علم ودلائل کی قوت سے قلعۂ نجد کی دیواریں ہل گئیں، تمام دنیا کےریال خور مولوی اور بلکہ خود’’شیخ ِ نجد‘‘ آپ کے علم کی تاب نہ لاسکے، آپ کی کتب میں علم وعرفاں کی بہاریں، قرآن وحدیث کا نور، دلائل واستنباط کاگلستاں، جب کہ اُدھر سے گندی زبان اور غلیظ گالیوں کا استعمال، مثلاً: آپ کی تصنیفِ لطیف: ’’مفاہیم یجب ان تصحح‘‘ کےجواب میں مدرسۂ اثریہ پشاورکےبانی ڈاکٹر شمس الدین سلطانی نے مدینۂ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب سےP.H.D.کی،ان کا مقالۂ ڈاکٹریٹ: ’’جہود علماء الحنفیۃ فی ابطال عقائد القبوریۃ‘‘ کےنام سےریاض سعودی عرب سے شائع ہوا۔ یہ مقالہ عداوتِ صلحا،بغضِ انبیاء،بے ہودہ الفاظ واصطلاحات اور مغلظات کا مجموعہ ہے۔یہی حال تمام ذرّیت کا ہے۔
تلبیسِ ابلیس: اللہ جَلَّ شَانُہٗ نےآپ کوعرب دنیامیں معیارِ حق بنایا تھا۔آپ اہلِ سنّت کی پہچان وعلامت تھے۔اس لیے کچھ ابن الوقت وہابیہ ودیابنہ نے، جن کی ابن الوقتی ہر میدان میں معروف ہے، اپنے آپ کو ’’اہلِ سنّت‘‘ ثابت کرنے کےلیے دروغ گوئی،منافقت،اور دجل وفریب سے کام لیتے ہوئے،اَسناد لیں،اور سستی شہرت کےلیے اُن کی کتب کے اردو میں اپنے من پسند ترجمے کیے اور عوام کو بےوقوف بنایا۔(جس طرح حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کےنام پر گمراہ کررہے ہیں،اور’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کوبڑی بے حیائی وڈھٹائی کے ساتھ ہضم کرگئے۔تونسوی غُفِرَلَہٗ)۔جیسے مفاہیم یجب ان تصحح کاترجمہ بنام’’اصلاحِ مفاہیم،مفتی انیس احمد مظاہری‘‘ شائع ہوا،لیکن حقیقت اس طرح عیاں ہوئی کہ جب ان کی جماعت کےبعض ریال خور وں نے گورنمنٹ سعودیہ سے شکایت کی،انھوں نے ان کے بڑوں سے باز پرس کی اور حقِ نمک یاد دلایا، تو ان کی صفوں میں وسیع جدل برپا ہوا۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: ’’حقیقی مسلک ومشرب/تحفّظِ عقائدِ اہلِ سنّت/مجموعۂ تحریرات ِ اکابر1994ء/1995ء کے جرائد ورسائل‘‘۔حضرت محدث ِ اعظم حجاز،شیخ الاسلام سیّد محمد بن علوی مالکی مکی علیہ الرحمۃ کاشمار دنیائے اسلام کے سرخیل علما میں ہوتا ہے،آپ عالمی شہرت یافتہ مصنّف،محقق،اور عظیم دانشورعالم ِ دین اور عارف باللہ صوفی تھے۔اس مختصر تذکرےمیں آپ کی خدمات کا احاطہ ناممکن ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروز جمعۃ المبارک ،15؍ رمضان المبارک1425ھ مطابق29؍ اکتوبر2004ء کومکۃ المکرمہ میں ہوا۔جنّت المعلیٰ میں سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کےقریب مدفون ہوئے۔
ماخذ ومراجع: محدث ِاعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت؛ مفتیِ اعظم اور اُن کے خلفا؛ روشن دریچے۔