غوثِ زمان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:خواجہ شاہ محمد سلیمان۔ القاب:غوثِ زمان،پیر پٹھان،شہبازِ چشت اہلِ بہشت۔ سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی بن محمد زکریا بن عبد الوہاب بن عمر خاں۔(علیہم الرحمہ)۔ خاندانی طور پر آپ کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ" جعفر" سے تھا ،جو علم و عبادت اور حیاء و شرافت میں نہایت ممتاز تھا۔ بچپن ہی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا،والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا کیونکہ انہوں نے آپ کی ولادت سےقبل خواب میں دیکھا تھا کہ آفتاب آسمان سے اتر کر ان کی آغوش میں آگیا ہے اور سینکڑوں لوگ مبارک باد دے رہے ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1184ھ،مطابق 1770ء ،میں کوہِ سلیمان، بمقام "گڑگوجی"جوتونسہ شریف سے جانبِ مغرب میں واقع ہے ،میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:چار سال کی عمرمیں مولانا یوسف جعفر کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے بٹھائے گئے،ان سے پندرہ پارے حفظ کئے بعد ازاں بگی مسجد (یہ مسجد 1274ھ،میں سنگھڑ رودکوہی کے سیلابی پانی سے منہدم ہوگئی)تونسہ شریف میں میاں حسن علی کے پاس جاکر قرآن کریم کی تکمیل کی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے دشوار گزرا راستوں کو طے کرتے ہوئے کوٹ مٹھن پہنچے جہاں حضرت مولاناقاضی محمد عاقل قدس سرہ کے مدرسہ میں علو م دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی۔تصوف اخلاق کی تعلیم قبلۂ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی قدس سرہ سے حاصل فرمائی۔آپ علیہ الرحمہ شیخِ کامل کے ساتھ اپنے وقت کے جید عالمِ دین بھی تھے۔قرآن وحدیث اورفقہ پر مکمل عبور حاصل تھا۔صحیح مسلم،عوارف المعارف ،فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم کا درس مشہور تھا۔
بیعت وخلافت:حضرت مولانا فخر الدین فخرجہاں دہلوی علیہ الرحمہ نے حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کو حکم دیا تھا "کہ "کوہ سلیمان "کی چوٹیوں پر ایک بلند پرواز شہباز رہتا ہے،اسے تلاش کر کے اپنے حلقہ میں داخل کرنا کہ اس سے سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ کو تبلیغ و اشاعت کے چار چاند لگ جائیں گے"۔چنانچہ حضرت خواجۂ مہاروی اس بلند آشیاں شہباز کی تلاش میں ان علاقوں کا سفرکیا کرتے تھے،آخر ایک دن اوچ شریف میں وہ شہباز حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی کی صورت میں مل گیا جسے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا:"جوہمارامقصودتھا وہ ہمیں مل گیا ہے"۔ اس کے بعد قبلۂ عالم کبھی ان علاقوں میں تشریف نہیں لے گئے۔حضرت جلال الدین سرخ بخاری علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر آپ کوبیعت فرمایا۔چھ سال قبلۂ عالم کی تربیت میں رہے،22سال کی عمر میں خلافت سے مشرف ہوئے۔شیخ نے "تونسہ "میں قیام کی ہدایت فرمائی ۔پھر آخرعمر تک اسی علاقے میں مصروفِ عمل رہے۔
سیرت وخصائص:امام الواصلین،حجۃ الکاملین،رئیس المتوکلین،نائبِ حضرت خواجہ معین الدین،شہبازِلامکانی،محبوبِ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی،شاہ شاہاں،فخر ِدوراں،غوثِ زماں،پیر پٹھان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ االلہ علیہ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کاشمار ان اولیاء کاملین میں سے ہوتا ہے جنہوں نے دینِ متین کی بہت خدمات سرانجام دی ہیں،اور مشکل وقت میں امت کی رہبری کافریضہ اداکیا ہے۔آپ اپنے وقت کے ایک عظیم مصلح اور رسول اللہ ﷺکے سچے نائب تھے۔آپ کی تبلیغ اور دینی حمیت وغیرت کااثر وقت کے جابروں تک تھا۔خلافِ شرع کاموں پر حکمرانوں کی خوب خبرلیتے تھے۔آپ کی برکت سے پنجاب کے اس گمنام اور بنجر علاقےکاشہرہ پوری دنیا میں ہونے لگا۔رفتہ رفتہ جب رشد و ہدایت کا چرچا ہوا تو دور دور سےلوگ شرف ِبیعت حاصل کرنے کیلئے حاضر ِدربار ہونے لگے،نواب بہاول خان والی ِ ریاست بہاول پور ،اور افغانستان سے شاہ شجاع بھی حلقۂ خدام میں داخل ہو گئے۔آپ نے تونسہ شریف میں قیام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ وہاں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے مدرسہ جاری کیا اور پھر اس کام نے اس قدر ترقی کی کہ ہر طرف قال اللہ وقال الرسولﷺ کی صدا ئیں فضا ءمیں بلند ہونے لگیں اور تونسہ شریف دبستان علم و عرفان بن گیا، اس دور میں تونسہ شریف علوم دینیہ کی وہ عظیم الشان "یو نیورسٹی "تھی جس میں تقریباً دو ہزار طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے اور 50مدرسین تعلیم دین کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تمام علماء طلباء اورخدام کے لئے قیام و طعام اور لباس کا انتظام مدرسہ کی طرف سے تھا۔
شاہ ِشاہاں حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ نے تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کو ہمہ گیر طریقے سے عوام الناس تک پہنچایا۔آپ کے روحانی فیض سے نہ صرف بر صغیر پاک و ہند بلکہ افغانستان،ایران،سری لنکا،عدن اور ترکمانستان کےعوام و خواص مستفید ہوئے۔حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔"ولایت اور بیعت میں حضرت خواجہ مہاروی کی اتنی شہرت نہیں ہوئی جتنی شہرت حضرت خواجہ تونسوی کی ہے چنانچہ بلخ،بخارا، ایران،ہرات، ہند،سندھ اور حرمین شریفین کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق ان سے مستفیض ہوئے"۔سرسید احمد خان(آپ کا ہمعصرتھا)لکھتاہے :" کہ شاہ صاحب کی شہرت قاف سے قاف تک ہے،دہلی جوانحطاط کے زمانے میں بھی علم وفضل کامرکز تھا،لوگ یہاں سے علم حاصل کرنے کے لئےان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔(آثار الصنادید۔بحوالہ تذکرہ اولیائے پاکستان:331)
تعلیم الاخلاق: جب کسی قوم کا سیاسی زوال شروع ہوتا ہے تو اس کے افکار واعمال،عادات واطوار،بھی انحطاط پذیر ہونے لگتے ہیں۔اخلاقی زوال کے اثراتِ بد سیاسی زوال سے کہیں زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔کیونکہ اس کے بعد تجدیدواحیاء کی سب راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔وعظ ونصیحت بے اثر ہوجاتا ہے۔شاہ صاحب کے زمانے میں سیاسی زوال شروع ہوچکا تھا،سیاسی زوال کے پسِ پشت اخلاقی زوال کااثر تھا،تو آپ نے اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار پر پہرہ دیا،جس کی وجہ سے یہاں دینِ اسلام کی ہر طرف بہاریں نظر آنے لگیں۔چنانچہ ایک شخص جس نے بڑی سیاحت کی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا:"میں نے ہندوستان،خراسان،وغیرہ کی سیاحت کی ہے،جیسےبخارا،اورتونسہ میں دین داری دیکھی ہے ایسی دین داری کہیں نہیں دیکھی"۔یہ وہ دور تھا جب پنجاب پرسکھوں کا تسلط تھا اور انگریزی اقتدار بڑی سرعت سے پھیل رہا تھا،آپ نے واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کو احساس دلایا کہ تمہاری کامیابی کا راز کتاب و سنت کی پیروی اور اخلاق و کردارکو سنت مبارکہ کے سانچے میں ڈھالنے سے ہے،آپ نے واضح طور پر فرمایا:"چونکہ مسلمانوں نےحضور ﷺکی پیروی ترک کردی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ان پر مسلط کردیا ہے"۔(تذکرہ اکابرِ اہلسنت:472)
صوفیاء کی اصلاح: جب کسی قوم پر زوال آتاہے توتمام شعبہ جات میں زوال کے اثرات ہوتے ہیں۔آپ کے زمانہ میں بھی صوفیاء مختلف اعتقادی اورعملی بیماریوں کاشکار تھے۔اعمال ووظائف میں حد سےزیادہ اعتقاد تھااورسارا وقت اسی میں صرف کرتےتھے۔امت فسق وفجور میں مبتلا ہے،اور حکمران عیاشیوں میں مصروف میں ہیں، اور یہ حضرات تسبیح لےکرجنگلوں اور غاروں میں بیٹھے ہیں،ایسی عبادت کاکیا فائدہ؟۔آپ یہ چاہتے تھے کہ"سالک را باید کہ غمِ دین خورد کہ مقصودِ دارین است" کہ صوفیا ءکو چاہئے کہ دین کا غم پیداکریں کیونکہ مقصودِ دارین یہی ہے۔(نافع السالکین:74)
علماء کوتنبیہ: حضرت نائبِ غوث الاعظم نے جس طبقے میں بے راہ روی دیکھی اس کی طرف فوراً توجہ کی۔"علماء"کی بے راہ روی دیکھی توکانپ اٹھے اور فرمایا"اصلاح العالِم اصلاح العالم،فساد العالمِ فسادالعالم"اور فرمایا!"علماء نہ توجنت میں تنہاجاتے ہیں اور نہ ہی دوزخ میں،دونوں جگہ کثیر جماعت ان کے ساتھ ہوتی ہے"۔آپ فرماتے ہیں:"علم بغیرعمل اورعمل بغیرعقیدۂ اہل سنت و جماعت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔شریعت کی ظاہری اور باطنی طور پر اتباع کے بغیر کمال انسانی کا حصول نا ممکن ہے "۔آپ نے تمام عمر ملت اسلامی میں نئی روح پھونکنے میں صرف کی اور سینکڑوں ایسے افراد تیار کئے جو عظمت اسلام کے علمبردار اور صحیح معنوں میں ملت اسلامیہ کے نقیب تھے۔لاکھوں افراد آپ کی ہدایت سے حیات جاودانی کے راز سے آشنا ہوئے اور بیسیوں اجازت و خلافت سے مشرف ہو کر رہبر خلائق بنے۔
وصال:آپ کاوصال7/صفرالمظفر1267ھ،مطابق13/دسمبر1850ءکوہوا۔آپ کامزارپرانوار"تونسہ شریف"ضلع ڈیرہ خان(پنجاب،پاکستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔تذکرہ اولیائے پاکستان۔نافع السالکین۔