قبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:خواجہ نورمحمد ۔پیدائشی نام:بابل۔ لقب:قبلۂ عالم۔علاقہ مہار شریف کی نسبت سے"مہاروی" کہلاتے ہیں۔والد کا اسمِ گرامی:ہندال تھا۔سلسلہ نسب: خواجہ نورمحمد مہاروی بن ہندال بن طاطاربن فتح بن محمودبن مرہ بن عزیزبن داتا ۔الیٰ آخرہ۔ سلسلہ نسب مشہور عادل بادشاہ "نوشیرواں" سے ملتا ہے۔ آپ کاتعلق "قوم کھرل " سے ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ 14/رمضان المبارک 1142ھ، بمطابق اپریل/1730ء کو موضع "چوٹالہ"(یہ جگہ مہارشریف سے تقریباً10کلومیٹرکے فاصلے پرہے۔) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: جب آپ کی عمر شریف پانچ برس کی ہوئی تو آپ کو حافظ محمدمسعود مہاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس قرآن مجید پڑھنے کے لئے بٹھایا گیا،انہی سے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا ایک دن حضرت شیخ احمد(دودی والہ )رحمہ اللہ تعالیٰ مولانا محمد مسعود کے مدرسہ میں تشریف لائے حضرت خواجہ صاحب کو دیکھا تو فرمایا:"سبحان اللہ! ایک زمانہ آئے گا کہ اس بچے کے در پر بادشاہ سر رکھیں گے۔"پھر"موضع بڈ ہیراں" تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد" موضع ببلانہ" میں شیخ احمد کھوکھر رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر علم حاصل کرتے رہے،بعد ازاں"ڈیرہ غازی خاں" چلے گئے اور شرح جامی تک کتابیں پڑھیں۔کچھ عرصہ بعدشیخ محکم الدین سیرانی قدس سرہ کے ساتھ لاہور تشریف لے گئے۔لاہور میں آپ کو بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن علم کے ذوق و شوق میں کبھی کمی نہ آئی۔ تکمیل علوم کے لئے دہلی تشریف لے گئے اور نواب غازی الدین خان کے مشہور مدرسہ میں داخل ہو کر حافظ بر خورد دارجی سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ان دنوں آپ کو پتہ چلا کہ حضرت مولانا خواجہ فخر الدین رحمہ اللہ تعالیٰ دکن سے دہلی تشریف لائے ہیں اور وہ بہت بڑے عالم ہیں،شوق علمی کشاں کشاں ان کے دربار میں لے گیا۔حضرت شاہ فخرالدین قدس سرہ نے الطاف خسروانہ سے نوازا،اگر چہ آپ ایک عرصہ سے درس و تدریس کا سلسلہ منقطع فرما چکے تھے ،مگر اس جو ہر قابل کی تکمیل کی خاطر بہ نفس نفیس پڑھانا منظور فرمالیا ۔ حضرت خواجہ صاحب قدس سرہ نے پوری محنت سے اکتساب علوم کیا اور سند حدیث حاصل کی۔آپ شاہ صاحب کے تبحر علمی کو دیکھ کر حیران رہ گئے،اور بے ساختہ پکاراٹھے :"سبحان اللہ بحرِ علوم بودند "
بیعت وخلافت:آپ حضرت خواجہ فخرالدین فخرِجہاں دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر" مزار حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ" پر بیعت ہوئے،اور قطب العالم حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر خلافت سے نوازے گئے۔
سیرت وخصائص:شیخ المشائخ،مخزنِ ہدایت،منبعِ کرامت،رازدار اسرارِ شریعت وطریقت وحقیقت،فخرالمتقدمین،پیشوائے متأخرین،سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے سالارِ اعظم ،قبلۂ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ۔علم ، تواضع ،شفقت ،حلم وعفو، حیاءو وقار،عبادت وریاضت،زہدوتقویٰ،عفوووفا،جودوسخا،نصیحت و شفقت،الفت و مروت، بردباری،کسرنفسی اوراخلاقِ حسنہ ، الغرض جملہ صفاتِ عالیہ ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔حضرت قبلۂ عالم بلامبالغہ علم و معرفت کے ایک بحرِ بے کنار تھے۔یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ فرید الدین گنجشکر قدس سرہ کے پنجاب میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت میں سب سے زیادہ حصہ حضرت قبلۂ عالم کی مساعیِ جمیلہ کا ہے،دنیا کا کونسا ایسا حصہ ہے جہاں آپ کے با لواسطہ اور بلا واسطہ مریدین اور نیاز مند نہیں ہیں،آپ کے خلفاء کاملین کا حلقہ بہت وسیع ہے۔
حدیقۃ الاخیار میں ہے: کہ حضرت خواجہ صاحب وضو کرتے وقت پانی بہت ہی احتیاط سے استعمال فرماتے تھے ۔ ہمیشہ وضو خود کرتے ، کسی سے مدد نہ لیتے۔ ہر وضو کے ساتھ مسواک ضرور فرماتے۔ وضو کے بعد تولیہ استعال کرتے۔ ظہر اور عشاء کے وضو کے بعد ریش مبارک میں شانہ فرماتے ۔ شانہ کرتے وقت سورہ الم نشرح پڑھتے اور فرماتے:یہ فراخیِ رزق کےلیے بہت مفید ہے۔نماز ہمیشہ با جماعت ادا فرماتے اور تعدیل ارکان اور آداب نماز کا بہت خیال رکھتے۔ حتٰی کہ مستحب بھی ترک نہ کرتے تھے۔ بعد نماز عشاء ہمیشہ سرمہ لگاتے۔ تین سلائی ایک آنکھ میں اور تین سلائی دوسری آنکھ میں ،کھانا کم کھاتے تھے۔ اکثر گندم کی روٹی شور بے کے ساتھ کھاتے تھے ۔مونگ کی دال اور شلغم بھی پسند کرتے۔ ہر لقمہ پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے تھے۔دن کو روٹی پر گھی ڈالکر چھاچھہ سے کھاتے ۔ دودھ نصف کٹورہ سے زیادہ نہ پیتے تھے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ قلت طعام، قلت کلام اورصحیح گفتگو انسان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کھانے سے فارغ ہوکر ہاتھ دھرتے اور تولیہ سے صاف کرتے۔ دانتوں کا خلال کرتے اور دعا پڑھتے۔ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن فرماتے۔سر پر کلاہ قادری، جس کے کنارے پر مغزی لگی ہوتی تھی پہنتے تھے۔ سفر میں دستار باندھتے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے میرے شیخ سے فرمان ہوا تھا کہ لباس اور غذا لطیف استعمال کرنا۔
تمام لوگوں کی عرض بڑی توجہ سے سنتے ،ہرسائل کوجواب دیتے،ہرایک کی دلجوئی کرتے،بے کسوں پر شفقت فرماتے،اقرباء سے حسن سلوک کرتے،علماء وساداتِ کرام کی بہت عزت کرتے،آپ کے لنگر سے ہرغریب ومسکین کوکھانا ملتا تھا۔آپ کافیض امیر وغریب ہرقسم کے افراد کیلئے یکساں تھا،بلکہ غریبوں پر زیادہ کرم فرماتے تھے۔
علم دوستی کا یہ عالم تھا: کہ مطالعہ بہت کرتے تھے،لوائح،نفحات الانس،فقرات،شرح لمعات،اور فصوص الحکم اکثرمطالعے میں رہتیں تھیں۔
غوثِ زماں خواجہ شاہ محمد سلیماں تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص آپ کے دست اقدس پر بیعت ہوتا اس کے ظاہر و باطن میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو جاتا تھا، اور اس کی دنیا بدل جاتی تھی۔حضرت خواجہ فخرِ جہاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: اگر یہ پنجابی میرے پاس نہ آتا تو میں اس دنیا سے اپنے ارمان اپنے دل میں ہی لے کر چلاجاتا۔(بہارِ چشت:131)
آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ تمام معاملات میں سنتِ مصطفیٰﷺ کالحاظ بہت تھا۔آپ فرماتے تھے: جوفعل خلاف سنت ہووہ مردود ہے۔
چونکہ ہر معاملہ میں سنت نبوی کا خیال رکھتے تھے اس لیے عمر شریف بھی سنت کے مطابق تریسٹھ برس پائی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
وصال:آپ کاوصال 3/ذوالحجہ 1205ھ،بمطابق جولائی/1792ءکوہوا۔آپ کامزارپرانوارچشتیاں شریف(ضلع بہاول نگر،پنجاب،پاکستان)میں مرجعِ خاص وعام ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔ تذکرہ اولیائے پاکستان۔ماہنامہ ضیائے حرم۔بہارِ چشت۔