خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:حافظ محمد جمال اللہ ۔لقب:ملتان کی نسبت سے"ملتانی"کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت مولانا حافظ محمد جمال اللہ بن محمد یوسف بن حافظ عبد الرشیدعلیہم الرحمۃ۔
تاریخِ ولادت: آپ تقریباً 1160ھ،مطابق 1747ء کو ملتان شریف میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم :آپ اپنے دور کے اجلہ فضلاء سے علوم دفنون کی تحصیل کی ۔ آپ دور طالب علمی ہی میں علم و فضل ، ذکاوت و فطانت میں تمام طلبہ پر فوقیت رکھتے تھے۔ جو بھی آپ سے مباحثہ کرتا اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ۔حضرت حافظ صاحب علم و فضل کے بحر ِذخار تھے ۔ دقیق سےدقیق مسائل کو اس طرح بیان کرتے کہ کند ذہن طلبہ بھی بآسانی سمجھ لیتے ۔ مسئلہ وحدۃ الوجود پر حیرت انگیز عبور رکھتے تھے ۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور مولانا جامی کی کتابوں کو بہت محبوب رکھتے تھے ۔ نفحات الانس ، مثنوی شریف ، لوائح جامی ، اشعۃ اللمعات اورفصوص الحکم نہایت ہی پسند تھیں ۔خاص طور پر فصوص الحکم کے فص محمدی سے تو یہان تک محبت تھی کہ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے ذکر بھی کر دیتا تو جھوم جاتے۔
بیعت وخلافت: مرشد کامل کا شوق پیدا ہوا ۔اسی تلاش میں حضرت شیخ الاسلام شاہ رکن عالم ملتانی قدسرہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے ۔ ہر روز ایک قرآن کریم ختم کرتے اور پیر کامل کیلئے دعا مانگ کر سوجاتے ۔ایک رات حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ کی خدمت میں حاضری کا ارشاد ہوا ۔ فوراً مہار شریف حاضر ہوئے اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں مرید ہو گئے ۔مجاہدات کے بعد خلافت سے نوازے گئے۔
سیرت وخصائص: تاج الاصفیاء،امام لاولیاء،شیخ المشائخ،غیاث العاشقین،سند الکاملین،محب اللہ بالکمال،خواجۂ خواجگان، حضرت سیدناخواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں سے تھے۔عالمِ باکمال تھے۔علم کی ترویج واشاعت آپ کامحبوب مشغلہ تھا۔اللہ جل شانہ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔رسول اللہ ﷺکے عاشقِ صادق تھے۔اپنے شیخ حضرت قبلۂ عالم سے حضرت حافظ صاحب کو عشق کی حد تک محبت تھی۔ سفرمیں حاضر ِخدمت رہتے اور وضو کرانے کی خدمت انجام دیتے۔
آپ نہایت با اخلاق شخصیت کے مالک تھے ۔ بچوں کے ساتھ حددرجہ شفقت سے پیش آتے۔ غرباء کی دلجوئی کو بہت اہمیت دیتے۔اگر کسی غریب کے ہاں دعوت پر تشریف لےجاتے تو خوشی کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوتے۔ایک دفعہ روزہ سے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو مدعو کیا ۔ آ پ اسی طرح تشریف لے گئے ۔ کھانے کے وقت روٹی کے لقمے توڑ توڑ کر رکھتے رہے اور پاس بیٹھے ہوئے احباب کھاتے رہے حتی کہ چند ہمراہیوں کے علاہ کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا۔شریعت پر سختی سے عمل پیراتھے۔سنت کامقام توبہت بلند ہے،مستحبات پربھی عمل تھا۔
قبلہ حافظ صاحب علیہ الرحمہ کامعمول تھا جب بھی وضو کرتے،توہروضو میں میں مسواک لازمی کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے"لا وُضوءَ لِمَن لا سِواکَ لہ"یعنی جو شخص مسواک نہیں کرتا اس کا وضو مکمل نہیں ہوتاہے۔(روحانیت کے اعتبارسے) اسی طرح یہ بھی آپ کاارشادہے"الوضوءُ سِلاحُ المؤمنین"وضو مومنوں کا اسلحہ ہے۔آپ نے فرمایا :ہمیشہ باوضورہنے سے مصائب اور تنگیِ رزق قریب بھی نہیں بھٹکتے۔حافظ صاحب علیہ الرحمہ صاحبِ کمال ہونے کے باوجود اپنے کمالات چھپاتے تھے۔(آج کل کے پیرصاحبان؟اپنی کرامات وکمالات خودبیان کرتے ہیں۔)
آپ فرماتے تھے:کہ خرقِ عادت یہ ہے کہ نفس کی عادات مثلاً شکم سیری ، بے فائدہ گفتگو اور عبادات میں سستی کو خوراک کی کمی ، خاموشی اور ریاضت سے توڑ دیاجائے۔ نیز فرمایا کرتے تھے :جوا مربھی ظاہر ہو یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ د ر حقیقت اللہ عزوجل کا فعل ہے اور ماو شما صرف وہم وخیالِ باطل ہے۔
مردِ میدان:حضرت حافظ محمد جمال اللہ علیہ الرحمہ علامۂ وقت اور شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ مردِحق اور مرد میدان بھی تھے ۔ آپ کے دور میں پنجاب سکھوں کے تسلط میں آچکا تھا۔ سکھوں نے کئی مرتبہ ملتان پرحملہ کیالیکن آپ کی زندگی میں ملتان پر قابض نہ ہو سکے ۔ ایک رات آپ کو معلوم ہوا کہ سکھ ملتان کا محاصرہ کر کے حملہ کرنے والے ہیں ۔ یہ خبر ملتے ہی آ پ شمشیر و سنان سےمسلح ہو کر جوانوں سے بھی آگے نکل گئے اور ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کیا ۔ محاصرہ سے پہلے بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں یہاں سے دوسری جگہ جانا چاہئے تاکہ کافروں کےحملے سے محفوظ رہیں ۔اس پر حضرت حافظ صاحب نے فرمایا:"اب عام ابتلاء کا دور ہے اور جہاد فرضِ عین ہو چکاہے ۔اس وقت ہم کہیں نہیں جائیں گے ۔اب ہمارے لئے دوہی محمود انجام ہیں کہ ہم غازی ہوں گے یا شہید"۔حضرت حافظ صاحب خوف و ہر اس سے نا آشنا تھے۔تیرا اندازی میں اس قدر ماہر تھے کہ دوسروں کو یہ فن سکھایا کرتے تھے ۔(آج کل صوفی اورپیراس کو کہتے ہیں،جوبالکل بےضررہو۔یہودیوں کےسرمائے سےنام نہاد"صوفیاءکانفرنسز"کاانعقاداسی سلسلے کی کڑی ہیں،کہ صاحبِ شریعت ﷺکی ناموس پر کفار حملے کرتے رہیں،اورمسلمانوں کی عزتیں تارتارکرتےرہیں،اسلامی ممالک میں ہی شریعتِ اسلامیہ کامذاق اڑایاجاتارہے،بس پیرصاحب کاکام یہ ہو کہ صرف مریدین سے نذرانےوصول کرتے رہیں،اورغیروں کے ایماء سے "مسلمانوں کےخون پرامن کادرس الاپتے رہیں"اگریہ پیرہیں،توحافظ جمال اللہ اوردیگراولیاءکبارکے بارے میں کیا حکم ہے؟جن کےنزدیک صرف دو ہی راستے ہیں۔غازی،یاشہید)
قطبِ ملتان: جب حضور قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حافظ جمال اللہ کو خلافت سے نواز اور آپ کو ملتان شریف جانے کا حکم دیا تو حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمہ نے عرض کی حضور! وہاں حضرت غوث العالمین غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کا مکمل روحانی تصرف ہے۔وہاں کسی اور کاتصرف نہیں چلتا۔حضور قبلۂ عالم مہاوری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:حافظ صاحب!ایک رات صبر فرمالیں۔
صبح کو آپ نے ارشاد فرمایا: "آج رات حضرت محب النبی مولانا فخر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضور سید العالمینﷺسے ملتان ہم کو لے کردے دیا ہے۔ آپ جائیں اور حضرت غوث العالمین رحمۃ اللہ علیہ کے دربار شریف ہی میں بیعت کریں وہ اب آپ کو نہیں روکیں گے"۔توقبلہ حافظ صاحب نے سب سے پہلے حضرت خواجہ خدابخش خیرپوری کو حضرت شیخ الاسلام کےمزارکےزیرِ سایہ بیعت فرمایا۔حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سلا سل اربعہ میں مجاز تھے، لیکن سلسلۂ عالیہ چشتیہ سے زیادہ انس رکھتے تھے ۔اس لئے اکثر و بیشتر اسی سلسلہ میں مرید کیا کرتے تھے۔
آپ بہت لطیف مزاج کےمالک تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے ، آپ کی انگوٹھی پر" ان اللہ جمیل یحب الجمال "نقش تھا۔علامۂ زمان،فخرالمحققین،امام المتکلمین حضرت علامہ شیخ عبدالعزیز پرھاروی علیہ الرحمہ(صاحبِ نبراس،) اور شیخ القرآن ،فنا فی الرسول ﷺ حضرت خواجہ خدابخش خیرپوری علیہ الرحمہ ۔آپ کےمریداورفیض یافتہ تھے۔
تاریخ ِوصال: 5/جمادی الاول 1226ھ،مطابق 1811ء،کو آپ نے وصال فرمایا اور مدینۃ الاولیاءملتان میں محو استراحت ابدی ہوئے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت۔سردلبراں۔