حضرت خواجہ قاضی عاقل محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت خواجہ قاضی عاقل محمد چشتی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب: قاضی الحاجات،صاحب الروضہ۔صاحب الروضہ اس لئے کہتےہیں کہ سب سےپہلےآپ نےہی حضرت قبلۂ عالم علیہ الرحمہ کےروضۂ مقدسہ کی تعمیرکرائی تھی۔فاروقی النسل ہونےکی وجہ سےآپ "فاروقی" کہلاتےہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت قاضی محمد عاقل بن خواجہ مولانامحمد شریف بن محمد یعقوب بن مخدوم نور محمد بن محمد زکریا۔علیہم الرحمہ۔آپ فاروقی النسل ہیں،آپ کاسلسلہ نسب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک منتہی ہوتاہے۔ان کےجداعلیٰ میں سے شیخ مالک بن یحیٰ ہجرت کرکےسندھ آگئےتھے۔انہیں سےپھریہ سلسلہ آگےچلا۔سندھ میں قوم کوریجہ سےرشتےداری ہونےکی وجہ سے"کُورِیجَہ" کہلاتےہیں۔آپ کےجدامجدحضرت مخدوم نورمحمد علیہ الرحمہ اپنےوقت کےولی کامل ،اورجیدعالم دین تھے۔ان کےمدرسےاورخانقاہ کےلئے شاہ جہاں کےوزیر ارادت خان نےپانچ ہزارایکڑزمین بطورنذردی تھی۔
تاریخِ ولادت : آپ کی ولادت باسعادت 1149ھ،مطابق 1736ءکو"کوٹ مٹھن شریف" پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد قرا ت میں دل چسپی لی اس کے حصول کے بعد اپنے والد ماجد مخدوم محمد شریف کے پاس درسی نصاب سے فراغت پائی ۔ حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی سے بعض صوفیانہ کتب کا درس لیا اور خواجہ نور محمد مہاروی سے سند حدیث حاصل کی۔
بعد فراغت کوٹ مٹھن میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس میں زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ چولستان ریگستان میں جہالت کے خلاف سینہ سپر ہو کر علم کے چراغ اپنے خون پسینہ سے جلاتے رہے۔یہ مدرسہ ایک عام مدرسہ نہیں تھابلکہ ایک یونیورسٹی تھی،جہاں تمام علوم وفنون کی تعلیم اورطلباء کوماہانہ وظیفہ،اوراساتذہ کابہترین قیام وطعام کےساتھ مناسب مشاہرےکانتظام بھی تھا۔اس مدرسےکےطالب علموں میں سےایک طالب علم غوث زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی بھی ہے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں قبلۂ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورخلافت واجازت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: منبع الحسنات،صاحبِ کمالات،قاضی الحاجات،حامیِ سنت،ماحیِ بدعت،مقتدائے اہل سنت،فخر زمانہ،امام الاولیاء،زبدۃ الاتقیاء،جامع شریعت وطریقت،حضرت خواجہ قاضی عاقل محمد چشتی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ایک جیدعالم دین اورصوفیِ باصفاتھے۔آپ کاخاندان علم وعمل،شرافت ودیانت،زہدوتقویٰ،اخلاص ومحبت،صبرورضا،توکل وغناء،سخاوت و عنایت اوردیگرصفاتِ عالیہ سےمتصف چلا آرہاہے۔سب سےبڑھ کراس خاندان کاعلمی ذوق اورعلمی خدمات ہیں۔یہی علمی ذوق کوٹ مٹھن میں ایک بلند پایہ دارالعلوم کی صورت میں ظاہرہوا،جہاں علماء کی ایک کہکشاں افق دارلعلوم پرروشن تھی،جس میں روشن ترستارہ خود قاضی محمد عاقل علیہ الرحمہ کی ذاتِ مبارکہ تھی۔ایک ایسادارالعلوم جہاں علم کےساتھ عمل،فتویٰ کےساتھ تقویٰ،عبارت کےساتھ ریاضت،اورقیام وطعام کےساتھ روحانی غذاکابھی وافرحصہ ملتاتھا۔وہاں کےفاضلین میں ایک نام بحرِ بےکنار،فردِ وحیدحضرت خواجہ غلام فریدعلیہ الرحمہ کابھی ہے۔
شریعت ِ مطہرہ کی پابندی کایہ عالم تھا،کہ یہ عالم بےبدل،جس قدروابستۂ علم وحکمت تھا،اس سےبڑھ کروارفتۂ شریعت تھا۔قاضی صاحب کےفیضان سےصرف جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پوراہندوستان مستفیض ہوا۔جناب خلیق نظامی فرماتےہیں: آپ کےتبحر علمی،پابندی شرع،بزرگانہ شفقت،اخلاق ومروت،کادوردورتک شہرہ تھا۔لوگ بڑی عقیدت سےان کی خدمت میں حاضر ہوتےتھے،یہ ان ہی کی کوششوں کانتیجہ تھاکہ پنجاب کےنہایت دورافتادہ اورغیر معروف علاقوں میں مذہبی اورروحانی تعلیم کا چرچاہونےلگا،اوران کےخرمن کمال کےخوشہ چیں دوردورتک پھیل گئے۔(تذکرہ خواجگان ِ تونسہ:83)
ایک مرتبہ اپنےپیرومرشد قبلۂ عالم حضرت خواجہ نورمحمدمہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کےلئےکوٹ مٹھن سےمہارشریف تشریف لےگئے،جب وہاں پہنچےتومعلوم ہواکہ حضرت قبلۂ عالم تواپنےشیخ حضرت مولانا خواجہ فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ کی زیارت کےلئےدہلی تشریف لےگئے ہیں،آپ وہاں سےدہلی کی طرف روانہ ہوگئے،اورحضرت فخرجہاں دہلوی علیہ الرحمہ کےآستانےپہ حاضرہوئے،اوران کی زیارت سےمستفیض ہوئے۔جب علمی نشست قائم ہوئی توحضرت خواجہ فخرجہاں آپ کی فصاحت وبلاغت،قوتِ استدلال،علمی ثقاہت سےبہت خوش ہوئےاورآپ کےعلمی ذوق کی تحسین فرمائی۔آپ کی علمی رغبت اورمطالعے کےشوق کامشاہدہ کرتےہوئےچارکتابیں بطور تحفہ عنایت فرمائیں۔جن میں مکتوبات حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی،مطول معروف درسی کتاب،سواء السبیل،اورایک مجموعہ کتب تھا۔جب وطن واپس آنےلگےتوحضرت فخرجہاں نےاپنےمریدقبلۂ عالم کوارشادفرمایا:"میاں صاحب!قاضی صاحب پرپہلےجوآپ شفقت کرتےتھے اپنی جانب سےکرتےتھے،اب ہماری جانب سےبھی ان پرکرم فرمائیں"۔(بہارچشت:135)
حضرت قاضی صاحب اپنےوقت کی بڑی قدرکرتےتھے،ان کاایک ایک لمحہ یادخداوخدمتِ دین مصطفیٰﷺ میں بسرہوتاتھا۔ آپ نماز باجماعت ادا فرماتے بعد نماز مغرب ذکر شریف میں مشغول ہوتے ۔ بعد فراغت کھانا تناول فرماتے اس کے بعد عشاء ادا فرماتے ۔ اس کے بعد فقراء طالبان حق کے حلقہ قائم ہوتے جس میں باطنی تربیت کا سامان ہوتا۔ آدھی رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرماتے ۔ اس کے بعد تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہو جاتے ۔ نماز فجر تا عصر مدرسہ کے طلباء کو درس دیتے تھے۔ اس طرح شب و روز عبادت الہی میں مصروف رہتے تھے۔ آپ انتہائی سخی تھے شب و روز لنگر جاری تھا۔ مدرسہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔
آپ فنافی الرسول ﷺکےمقام پرفائزتھے۔رسول اللہ ﷺ کی سنتوں سےبڑی محبت تھی،ہرفعل سنتِ رسول ﷺ کےمطابق ہوتاتھا۔یہی وجہ ہےکہ وصال سےتقریباً چھ ماہ قبل رسول اللہﷺکےدیدارکی دولت سےمشرف ہوئے،آپ ﷺنےارشادفرمایا:" تو مارا بسیار خوش کر دی کہ ھمگین سنت ہائے مارا زندہ کردے" ۔یعنی میں تم سےبہت خوش ہوں کہ تم نےمیری سنتوں کی حفاظت،اوران کونافذکیا ہے۔جومانگناہومانگو: آپ نےعرض کی!یارسول اللہ ﷺاللہ جل شانہ کی محبت اورآپ کی اطاعت کی بھیک مانگتاہوں"۔(انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام:113)
مغل بادشاہ وشہزادے آپ کے نہایت عقیدت مند تھے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی آپ سے انتہائی عقیدت تھی وہ اس عقیدت کا ایک شعر میں اظہار کرتے ہیں :
دل فدا کرتے ہیں نام فخر دیں پر اے ظفر
ہم ہیں عاقل ربط "عاقل"سے دلی رکھتے ہیں ہم
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 8/رجب المرجب 1229ھ،مطابق 25/جون 1814ءکوہوا۔آپ کامزارپرانوار"کوٹ مٹھن شریف"جنوبی پنجاب میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: بہار چشت۔انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔ہفت اقطاب۔انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔