حضرت علامہ مولانا ہادی حسن نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مولانا ہادی حسن ۔لقب:خطیب اسلام ،صدرالافاضل کی نسبت سےنعیمی کہلاتےہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مولانا محمد ہادی حسن نعیمی بن صوفی مسافر علی ایوبی انصاری۔
تاریخِ ولادت : آپ کی ولادت تقریباً 1909ءکو غیاث پورضلع چھپرا صوبہ بہار (انڈیا)میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم کلکتہ 24 پر گنہ جگدل کی جامع مسجد میں مولانا عبدالستار ہاشمی سے حاصل کی ، پھر یوپی اور بہار کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لیا ،جہاں صدر الافاضل ، مفسر قرآن ، نعیم ملت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے دورہ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ قادریہ اشرفیہ میں حضرت صدر الافاضل سے بیعت ہوئے اور ڈھاکہ (بنگلہ دیش) کے قیام کے دوران حضرت پیر مولانا عبدالسلام نقشبندی سے متاثر ہوئے تو ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔
سیرت وخصائص: خطیبِ اسلام،عالمِ شریعت وطریقت،حضرت علامہ مولانا ہادی حسن نعیمی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ حضرت صدرالافاضل بدرالمماثل مفسرقرآن سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ کےشاگرداورفیض یافتہ تھے۔مسلک ِ حق کادردحضرت صدالافاضل سےورثہ میں ملاتھا۔یہی وجہ ہےکہ آپ جہاں بھی رہےایک متحرک شخصیت بن کررہے۔تحریکِ پاکستان میں بھرپورکرداراداکیا۔
تحریک پاکستان : آپ نے تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ اہل سنت کے ساتھ بھر پور کردار ادا کیا، قیام پاکستان کی تحریک کو مضبوط بنانے کیلئے ملک گیر دورے کئے ، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کی صدا گھر گھر پہنچانے کیلئے تن من دھن کی قربانیاں دیں ۔ آپ کی انہی قربانیوں کے پیش نظر آپ کو 24 پر گنہ کے مسلم لیگ کا صدر اور گنائزر مقرر کیا گیا21 مارچ 1950ء کو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)کے سید پور ضلع رنگ پور میں انڈیا سے نقل مکانی کرکے آئے۔ یہاں بھی آپ چین سے نہیں بیٹھے دینی علمی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ سردار عبدالرب نشتر آپ کے لیگی دوست تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران مل کر کام کیا تھا سید پور کے علاقہ میں آپ نے نشتر صاحب سے مل کر 500 سو گھروں کی آباد کاری کرائی۔ یہ گھر ان مہاجرین کو دلائے جو کہ انڈیاسے سید پور(بنگلہ دیش)نقل مکانی کر کے آئے تھے۔
پاکستان آمد: جب ہندو بنیئے کی سازش کے تحت پاکستان کا بازو ٹوٹا،مشرقی پاکستان جداگانہ ملک کا نعرہ لگا کر بنگلہ دیش بن گیا تومولانا 1972ء میں کراچی تشریف لے آئے اور ڈرگ کالونی میں کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کی اور چند ماہ کے بعد سی، اے ، اے کی جامع مسجد (ایئر پورٹ) میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اور یہاں پر سرکاری کوارٹر میں رہائش اختیار کی۔
دینی خدمات: سید پور ضلع رنگ پور (بنگلہ دیش) میں بھی امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیئے۔ آگے چل کر سید پور بانس باری میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذریعہ دینی علمی و فلاحی حدمات سرانجام دیتے رہے ان خدمات میں سر فہرست دینی درسگاہ ہے جو کہ آپ نے "جامعہ رضویہ اہل سنت و جماعت" کے نام سے قائم فرمائی جو کہ آج بھی دینی خدمات میں پیش پیش ہے اور آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔جس وقت آپ نے جامع رضویہ کی بنیاد رکھی تو اس علاقہ میں وہابیت کا راج تھا ، ان کا مدرسہ تھا، پورےعلاقےمیں انہیں کاہولڈتھا۔سنی عوام آہستہ آہستہ گمراہی کی طرف جارہی تھی۔جب آپ نےاس علاقےمیں اہل سنت کےمدرسہ کی بنیادرکھی،توبدمذہبی کےتمام جال مکڑی کےجال کی طرح بکھرگئے،اورپھرسےہرطرف صلوۃ وسلام،میلادوقیام،اورمعمولاتِ اہلسنت بحال ہوگئے۔عوامِ اہلسنت کےعقائدمحفوظ ہوگئے۔آج بھی وہ مدرسہ اسلام کےایک قلعے کی حیثیت رکھتاہے۔جہاں لوگوں کاایمان محفوظ ہے۔
الغرض آپ جہاں بھی رہے ایک مجاہد کی طرح رہے اور بھر پور بیدار مغزی سے اہل سنت و جماعت کی ترقی و ترویج کیلئے خلوص و جذبہ کے ساتھ کام کرتے رہے۔آپ ایک بہترین خطیب ہونیکے ساتھ ساتھ اچھےشاعرومصنف بھی تھے۔آپ کاتمام علمی ذخیرہ انڈیا وبنگلہ دیش میں رہ گیا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 21/جمادی الآخر 1404ھ،مطابق 21/مارچ1984ءبروزبدھ کوہوا۔ شاہ فیصل کالونی گیٹ والے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
ماخذومراجع: انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔