مولانا مفتی محمد مبین الدین محدث امروہوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:محمد مبین الدین۔لقب:محدث امروہوی،رضوی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت علامہ مولانا الحاج محمد مبین الدین رضوی بن شیخ احمد الدین بن شیخ معین الدین عرف سلطان احمد۔علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ماہِ جمادی الآخر/1337ھ،مطابق مارچ/1919ءکو"امروہہ"ضلع مرادآباد(انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:بسم اللہ خوانی کے بعد قرآن شریف کی تعلیم شروع ہوئی۔ ذہن رسا اور قوت حافظہ سنِ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی حافظ بنادیا۔ حالانکہ اس دوران مولانا حاجی مبین الدین علیہ الرحمہ کو والدہ ماجدہ کے سایہ عاطفت سے محروم ہونا پڑا اور اس کی وجہ سے چند سال تک تعلیمی مشاغل کا تسلسل باقی نہ رہ سکتا۔ شفقت مادری سے محرومی، اور مالی حالت کی ابتری کی وجہ سے مولانا حاجی مبین الدین کو بچپن میں بہت سے مسائل ومصائب برداشت کرنے پڑے۔ لیکن تعلیم کے شغف نے اپنی راہیں مسدود نہ ہونے دیں۔ابتدائی کتب فارسی وعربی امروہہ میں مکمل فرمائیں۔
پھرآپ کو صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ کےپاس بھیج دیاگیا۔لائق اُستادنےجوھرقابل کوپہچاننےاوراسےجِلادینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔24/شعبان 1364ھ،مطابق 14/اگست1944کوسند فراغ حاصل کرکے واپس امروہہ تشریف لائے۔آپ کےاساتذہ کرام: حضرت مولانا سید محمد کاظمی علیہ الرحمہ محدث امروہوی متوفی ۱۳۹۰ھ۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ۔ حضرت مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ۔ مولوی حکمت اللہ صدیقی متوفی ۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۱ء۔ حافظ تمیز الدین امروہوی۔علیہم الرحمہ والرضوان۔
بیعت وخلافت:حضرت محدث امروہوی علیہ الرحمہ 24صفر المظفر 1370ھ؍ 5/دسمبر 1950ء کو حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر داخلہ سلسلہ ہوئے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نےآپ کو 8/شعبان المعظم 1381ھ15/جنوری 1962ء میں اپنے سلسلہ کی اجازت مرحمت فرمائی،اور جب حضرت محدث امروہوی علیہ الرحمہ زیارت حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گئے تو قطب مدینہ حضرت مولانا الشاہ ضیاء الدین احمد مدنی رضوی قدس سرہٗ نے بھی خلافت واجازت سے نوازا۔
سیرت وخصائص: بقیۃ السلف،حجۃ الخلف،عالمِ باعمل،مفتیِ اہلسنت،مفسرقرآن،شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا حاجی محمد مبین الدین حضرت محدث امروہوی رضوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ایک کامل واکمل مدرس تھے۔تمام فنون میں بالعموم اورفنِ تفسیرمیں بالخصوص مہارت تھی۔آپ نےتفسیرِ بیضاوی کی سورتِ فاتحہ کی تفسیرمکمل فرمائی تھی کہ اجل آپہنچی۔اس میں آپ نےدیوبندیوں کی بازاری شروحات میں جواغلاط ہیں ان کی خوب خبرلی۔ساری زندگی علوم مصطفیٰ ﷺ کی اشاعت میں مصروف رہے۔ملک کی بڑی بڑی درسگاہوں میں زینتِ تدریس رہے۔جن میں دارلعلوم منظراسلام بریلی شریف،اورجامعہ نعیمیہ مرادآبادسرفہرست ہیں۔
علم وفضل: حضرت محدث امروہوی علیہ الرحمہ بہترین حافظ، بلند پایہ، عالم، محدث اور فقیہ تھے مدارس میں رائج علوم عقلیہ منطق وفلسفہ میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے، اور برسہابرس تک اُن کی تدریس میں مشغول رہے۔ آپ علم وحلم، زہد وتقویٰ، صدق وصفاء، صبروشکر، توکل ورضا اور تہذیب وشائستگی کا ایک بلند وروشن منارہ بن گئے تھے۔ جو تقریباً نصف صدی تک نور کی ضیاء پاشیاں کرتا رہا اور جس کا فیض تاقیامت جاری رہے گا۔
حضور مفتی اعظم کی نواز شات: حضرت محدث امروہوی علیہ الرحمہ سے حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ بے پناہ خوش تھے، اور ہمیشہ انتہائی قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ کردار وگفتار میں انتہائی محتاط تھے۔ اس لیے کسی کے بارے میں رائے دیتے وقت بھی بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کسی بہت ہی متقی اور صالح آدمی کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ ولی صفت ہیں۔ مگر مولانا مبین الدین کے بارے میں فرمایا تھا کہ:"اگر کسی کو زندہ ولی دیکھنا ہو تو وہ حاجی مبین الدین کو دیکھ لے"۔
حضرت مولانا مبین الدین محدث امروہوی علیہ الرحمہ نے کسی کو داخل سلسلہ نہیں کیا، ا ور لوگوں کے بے پناہ اصرار وخواہش کے باوجود حد درجہ محتاط اور تقوی پسند طبیعت نے کسی کو مرید کرنا پسند نہیں کیا۔ جب تک حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ دنیائے ظاہری میں موجود تھے تو لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے وصال کے بعد بھی چند اور نام تجویز کر دیتے اور خود کو ہمیشہ بچالیتے تھے۔بہت اصرارومنت کےبعددوچارافرادکوبیعت کیا،اوردوانتہائی متقی وپرہیزگارعلماءکوخلافت دی تاکہ سلسلہ منقطع نہ ہوجائے۔
(ہمارےاکابرین علماءومشائخ میں کیساتقویٰ ہوتا تھا،کہ نام ونموداورشہرت سےکوسوں دوررہتےتھے،ایسی شخصیت جن کی ولایت کی گواہی مفتیِ اعظم ہندنےدی ہو،اورجن کوخلافت واجازت خلیفۂ اعلیٰ حضرت قطبِ مدینہ نےعطاءفرمائی ہو،اس کےباوجودوہ پیری مریدی سےدوررہے،ایک سادہ اورکچےمکان میں زندگی بسرفرمائی،اورعلمِ دین کی نشرواشاعت میں مصروف رہے۔آج حالات مختلف ہیں۔خلافتیں لنگرکی طرح بانٹیں جارہی ہیں،اورپیری مریدی ایک منفعت بخش کاروباربن چکاہے،الاماشاءاللہ۔القابات کاایک لمباسلسلہ ہے،اپنےاکابرین کی تصانیف اٹھاکردیکھیں کہ وہ اپنےنام کیسےسادگی وعاجزی سےلکھتےتھے،اللہ تعالیٰ ہمارےحال پررحم فرمائے)۔
خصائلِ حمیدہ: مولانا مبین الدین محدث امروہوی علیہ الرحمہ شب وروز کے بیشتر اوقات درودوسلام کےنذرانے بھیجنے میں بسر ہوتے تھے۔ دلائل الخیرات، حزب البحر اور سلسلۂ قادریہ رضویہ کے دیگر اور اد کے بڑے پابند تھے۔ اس کے صلہ میں حضور انورﷺکے دیدار پر انوار سے بار بار مشرف ہوئے۔ حضرات شیخین اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیدار سے نوازا۔ مستقل بیماری کے باوجود رمضان المبارک میں تقریباً چالیس تراویح میں قرانِ کریم سُنایا۔ تراویح کے علاوہ بھی رمضان المبارک میں مولانا مبین الدین پندرہ سولہ قرآن کریم ختم فرماتےتھے۔تدریس کےساتھ تصنیف میں بھی خاص ملکہ تھا،آپ نےمختلف موضوعات پرچندمفیدکتب تحریرفرمائی تھیں۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 25/جمادی الآخر1408ھ،مطابق 4/فروری1988ء،بروزاتوار3:35 پرہوا۔
ماخذومراجع: مفتیِ اعظم ہنداوران کےخلفاء۔تذکرہ علماء اہل سنت۔