حضرت خواجہ نور محمد نارو والہ رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: شیخ نورمحمد نارووالہ۔
تحصیلِ علم: آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے۔حضرت قبلہ ٔ عالم سے بیعت ہونے سےقبل تدریس کرتے تھے۔اسی طرح آپ نے حضرت قبلۂ عال خواجہ نورمحمد مہاروی علیہ الرحمہ سے چند کتبِ تصوف کادرس لیا ہے۔
بیعت وخلافت: حضرت قبلۂ عالم خواجہ نورمحمد مہاروی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے،ریاضت ومجاہدےکےبعد خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: سراپا نوروحکمت،شیخِ کامل،عالمِ اکمل،جامعِ شریعت وطریقت،حضرت شیخ نورمحمد نارووالہ رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کااسم نور،مرشدنور،اورایسانورجس نے تمام عالم میں نورانی کرنیں بکھیردیں،دنیا جن کوآج بھی قبلۂ عالم کےنام سے یادکرتی ہے۔شیخ نور محمد نارو والہ علیہ الرحمہ خواجہ نور محمد مہاروی کے ممتاز ترین خلفاء میں سے تھے۔ آپ بہت بڑے عالم اور صاحبِ حال بزرگ تھے۔میاں نارووالہ حضرت خواجہ نور محمد سے بیعت ہونے سے قبل درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے تھے۔لیکن جب آپ سلسلۂ چشتیۂ نظامیہ میں خواجہ نور محمد سے بیعت ہوئے تو اپنے شیخ سے کچھ کتابوں کا درس لیا۔آپ کےقوتِ حافظہ اور علم کاا ندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتاہے۔
حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی فرماتے ہیں: کہ میں اور نارو والہ صاحب اور قاضی عاقل محمد اپنے شیخ خواجہ نور محمد علیہ ارلحمہ سے لوائح، سواء السبیل، اور تسنیم وغیرہ پڑھتے تھے، لیکن پڑھنے کے بعد جب اپنے مقام پر واپس آتے تو ہم اس کی تحقیق میاں نارو والہ ہی سے کرتے تھے، اگر چہ ظاہر میں یہ فیض قبلۂ عالم (خواجہ نور محمد) کا ہوتا تھا، لیکن حقیقت میں یہ تمام فیض اور ادراکِ مسائل میاں نارو والہ ہی سے حاصل ہوتا تھا، وہ ہر چیز کو نہایت وضاحت سے سمجھا دیتے تھے۔
حضرت شاہ فخرالدین دہلوی کی خدمت میں حاضری: پہلی مرتبہ جب آپ کے پیر خواجہ نور محمد آپ کو لے کر اپنے پیر حضرت شاہ فخر الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پہلی ہی نظر میں شاہ فخر نے اُن کو دیکھتے ہی فرمایا:"مارا ازچشمانِ ایشاں عشق بنظر می آید"یعنی ہمیں ان کو آنکھوں میں عشق نظر آتا ہے۔حضرت شاہ فخر آپ سے بے حد محبت کرتےتھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے :کہ میاں نارو والہ سے بوئے شکر بار آتی ہے۔
اتباعِ شریعت: آپ حد درجہ متبعِ شریعت تھے، ہمیشہ باوضو رہتے اور مستحبات بھی آپ سے ترک نہ ہوتے تھے، ہمیشہ ریاضتوں اور مجاہدوں میں مشغول رہتے، خیرالاذکار کے مؤلف مولوی محمد صاحب کا بیان ہے :کہ حضرت، شریعت، طریقت اور حقیقت کے جامع تھے،۔شریعت کا احترام اس درجۂ اتم تک فرماتے کہ کوئی مستحب بھی فوت نہ ہوتا تھا، اور ہمیشہ باوضو رہتے مراتبِ طریقت اور آداب اور مجاہدوں اور ریاضتوں میں اِس قدر مصروف رہتے کہ کسی کوہمّت نہ پڑہوتی تھی، کہ وہ آپ سے دُنیاوی باتیں کر سکے۔
انکسار: سلوک اور علم کے ان مدارج عالی پر فائز ہونے کے باوجود آپ کے مزاج میں بے حد انکسار تھا، صاحبِ مناقب المحبوبین کا بیان ہے کہ:باوجود اس کمال کے اپنے آپ کو اتنا قاصر سمجھتے کہ گویا مبتدی ہیں۔مریدوں کی اصلاح و تربیت کی طرف بے حد توجہ فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک مرید کو لکھا۔اوقات کو تنظیم رکھو، تعلیم کے وقت تعلیم اور ذکر کے وقت ذکر۔یعنی ہرکام اپنےوقت پرکرو۔
تاریخِ وصال: آپ نے 6 جمادی الاوّل 1204ھ ،مطابق جنوری/ 1790ء کو وفات پائی۔آپ کے مرشد حضرت قبلۂ عالم کو آپ کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا، اور آپ کی وفات کی خبر سُن کر فرمایا:"اگرمیاں نارووالہ صاحب کچھ عرصہ اورزندہ رہتے تواپنے فیض سےایک جہاں کوروشن کردیتے"۔
ماخذومراجع: تذکرہ صوفیائے پنجاب۔