شیخ الاسلام حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:سید جلال الدین بخاری۔کنیت: ابو عبداللہ۔لقب: جہانیاں جہاں گشت،مخدوم جہانیاں،سیاح عالم۔آپ کانام اپنےجدبزرگوار مخدوم العالم حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری کےنام پر رکھاگیا۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بن سید احمد کبیر بن حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری بن حضرت سید علی بن حضرت سید جعفر بن حضرت سید محمد بن حضرت سید محمود ۔الیٰ آخرہ۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ کاسلسلہ نسب سترہ واسطوں سےحضرت سید الشہداء امام عالی مقام امام حسین تک منتہی ہوتاہے۔آپ کاتعلق ساداتِ بخارا سےہے۔(تذکرہ اولیائے پاکستان دوم:243)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 14/شعبان المعظم 707ھ مطابق 9/فروری1308ء بروز جمعرات مدینۃ السادات اوچ شریف ضلع بہاول پورپنجاب میں سید احمد کبیرکےگھر پرہوئی۔آپ کی جبین مبارک سےسعادت مندی اور رشدوہدایت کےآثار واضح تھے۔حضرت شاہ سمنان جہانگیر اشرف سمنانی سےمنقول ہے کہ آپ کی پیدائش کےبعد آپ کےوالد گرامی آپ کوشیخ جمال خنداں رو کی خدمت میں لےگئے اور ان کےقدموں میں ڈال دیا۔حضرت جمال خندہ رو نےفرمایا:’’اس فرزند کی عظمت وبزرگی دنیا میں ایسی ہوگی جیسے آج کی شب(شب برات )کی ہے‘‘۔(یاد گار سہروردیہ:206)
تحصیل علم: آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اوچ شریف میں ہوئی۔علامہ قاضی بہاءالدین آپ کےاستادتھے۔قاضی صاحب کے انتقال کےبعدہدایہ وبزودی ختم کرنےاورمزیدتعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ اوچ سے ملتان آئے۔شیخ موسیٰ اورمولانامجدالدین جیسے شفیق استادملے۔آپ نےہدایہ اوربزودی جلدہی ختم کی۔بعد ازاں مدینہ منورہ جاکرمزیدتعلیم حاصل کی۔ملتان میں آپ شیخ رُکن الدین ابوالفتح کی اجازت سےمدرسے میں رہتےتھے۔اس کے بعد آپ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے وہاں سے کلام اللہ کی ساتوں قرأتیں سیکھیں اور وہاں سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔اور وہاں کے بہت بڑے عالم دین حضرت شیخ مکہ امام عبد اللہ یافعی اور شیخ عبد اللہ مطری علیہم الرحمۃ سے مختلف کتابیں اور صحاح ستہ پڑھیں۔ حضرت شیخ عبد اللہ مطری کی خدمت میں دو سال رہ کر صحاح ستہ کے علاوہ تہجد کے وقت عوارف المعارف اور حدیث شریف کا درس لیتے۔آپ کے استاد شیخ عبد اللہ المطری آپ سے بڑی شفقت و محبت فرماتے تھے۔ دیگر یہ کہ آپ نے عوارف المعارف کے جس نسخے سے درس لیا تھا وہ نسخہ حضرت شہاب الدین سہر وردی کے مطالعہ میں رہ چکا تھا۔ جب شیخ عبد اللہ مطری کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے وہ نسخہ حضرت امام عبد اللہ یافعی کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا۔آپ اس نسخے کو بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔(انسائیکلوپیڈیاج5،ص125)
بیعت وخلافت: آپ اپنے والد گرامی سید احمدکبیر کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اور خلافت واجازت اور خاندانی کمالات سے مشرف ہوئے۔اپنے چچا حضرت محمد غوثسےخرقہ خلافت پہنا۔والد کےوصال کےبعد حضرت شیخ الاسلام ابوالفتح رکن عالم ملتانی کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں خلافت واجازت سے مشرف ہوئے۔زیادہ ترآپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں بیعت فرماتے تھے۔آپ فرماتے ہیں:میں نےچودہ عظیم شخصیات سےخرقہ پہنا اور اجازتیں حاصل کیں۔حضرت نظام الدین اولیاءسےعالم خواب میں پہناجوبیدارہونےکےبعدسرپرپایا۔حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح کےخلیفہ حضرت شیخ قوام الدین سے،حضرت قطب الدین منور سے،حضرت نصیرالدین چراغ دہلی سے،شیخ مکہ امام عبداللہ یافعی سے،شیخ مدینہ حضرت عبداللہ المطری سے،قطب عدن حضرت فقیمہ بصال سے،شیخ اسحاق گازرونی سے،شیخ امین الدین، شیخ امام الدین سے،شیخ حمیدالدین سے،حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کےخلیفہ شیخ شرف الدین محمودشاہ سے،سیداحمدرفاعی سے،شیخ نجم الدین صنعانی سے، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے،حضرت خضرسے،حضرت احدالدین حسنی سے،حضرت شیخ نورالدین سے۔رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:117)
سیرت وخصائص:والئی اقلیمِ ولایت،حامی سنت، ماحیِ بدعت،غریق بحر ِمحبت،مقتدائے اہل مودت،شمع قصر ہدایت،سیاحِ عالم حضرت جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ اپنےوقت کےعالم ِ متبحر،صوفیِ اعظم،اور دینِ مصطفیٰﷺکےعظیم داعی تھے۔رسول اللہﷺ کےدین کوہرسو پھیلایا۔جہاں بھی تشریف لےگئے دین کی بہاریں ساتھ لےگئے۔جب واپس ہوتے توگلشنِ اسلام سرسبز وشاداب ہوتا۔خدمتِ دین انہیں وراثت میں ملی تھی۔شہادت سید الشہداء کایہی فلسفہ تھا کہ مصطفیٰﷺ کےلائےدین کوآباد رکھنا ہے۔آپ کےدستِ حق پرست پر کئی قبائل شرف اسلام سےمشرف ہوئے۔جنوبی پنجاب اور بالخصوص ریاست بہاولپور کےعلاقے میں آپ کافیضان عام ہے۔ریاست کاٹھیاواڑ کےنواب کوآپ نے مشرف بااسلام کیا۔جس کی وجہ سے پوری ریاست اسلام کاگہوارہ بن گئی۔اسی طرح گجرات میں کثیر تعداد میں لوگ مشرف بااسلام ہوئے۔(انسائیکلوپیڈیا:127)۔سلطان محمد تغلق شاہ کےعہد میں آپ ’’شیخ الاسلام‘‘کےمنصب پرفائز رہے۔آپ نےکثیر تعداد میں مدارس ومساجد اور خانقاہوں کی تعمیر کرائی۔
حضرت مخدوم جہانیاں اپنے وقت کےجید عالم دین اور کہنہ مشق مدرس تھے۔فنون میں زیادہ رغبت نہ تھی۔ قرآن وحدیث تفسیر وفقہ اور تصوف میں دل چسپی تھی۔مشکوٰۃ شریف کادرس مشہور ِعام تھا۔علمی لحاظ سے آپ کی ذات والا صفات طالبان حق کا مرجع تھی۔آپ کے ایک مرید حضرت علاؤ الدین علی بن سعد حسینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ آپ کو 188 علوم پر دسترس حاصل تھی۔ طالبان حق کو قرآن پاک، اور تفسیر مدارک حدیث شریف صحاح ستہ مشارق الانوار مشکوٰۃ المصابیح کے علاوہ فقہ میں ہدایہ وقدوری کا درس دیتے تھے۔اسی طرح تصوف کی تعلیم میں عوارف المعارف رسالہ مکیہ، قصیدہ لامیہ دیگر کا درس دیا کرتے تھے ۔آپ کے آستانے پر آنے والے طالبان حق کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ آپ کی طبیعت کو ذرا بھی آرام نہ ملتا۔ہمہ وقت دین متین کی تعلیم دیتے رہتے۔ اگر کوئی شخص آپ سے سوال اور مسئلہ سمجھنے میں بار بار سوال کرتا تو آپ بڑے احسن انداز میں جواب دیتے طبیعت ذرا بھی کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی۔(انسائیکلو پیڈیا:ج5،ص128)اللہ اکبر!یہ کیسی عظیم ہستیاں تھیں۔پہلے علاقہ اوچ شریف سےتحصیل علم کےلئے حرمین شریفین کا سفر کیا۔پھرساری زندگی اس علم کو جہاں بھرمیں تقسیم فرمایا۔اس وقت جید عالم ہی ایک باصفا صوفی ہوتا تھا۔آج معاملہ برعکس ہے۔آج کونسا ایسا سجادہ ہے جوتفسیر بیضاوی وجلالین اور بخاری ومشکوٰۃ کادرس دےرہاہو۔الاماشاء اللہ۔یہی فرق ہے کہ ان کی سیرت کو دیکھ کرغیر مسلم اسلام قبول کرلیتے تھے۔اِن کو دیکھ کر سنی بدمذہب ہورہے ہیں۔
آپ پانچ وقت کی نماز کے علاوہ،تہجد،اشراق،چاشت،صلوۃ الاوابین،صلوٰۃ التسبیح اور دیگر نوافل کا خصوصیت سے اہتمام فرماتے،اپنے شیوخ کے بتائے ہوئے اورادو وظائف کو ہر حال میں پورا فرماتے ۔رات کے وقت کچھ دیر نیند کرتے اور بقیہ رات یادِ خدا میں بسر کرتے، کھانا کبھی تنہانہ کھایا جو بھی کھاتے اپنے احباب میں تقسیم کر کے کھاتے۔آپنےچھتیس مرتبہ حج کی زیارت کی۔شریعت کی سختی سے پابندی کرتے اکثر فرماتے تھے کہ اصل شریعت ہے اور جب تک کوئی شریعت کو مضبوط نہ پکڑے گا حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔سخاوت اور فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی فتوحات آتیں ان میں سے بقدر ضرورت خانقاہ کےلیے رکھ کر بقیہ مستحقین میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ اورفرماتے تھےکہ فتوحات اس لیے قبول کرلیتا ہوں کہ شیخ مکہ امام یافعی اور شیخ مدینہ عبد اللہ مطری اور دوسرے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ فتوح کو اس لیے قبول کرو کہ دوسروں تک پہنچاؤ اور کچھ ضرورت کے مطابق رکھ لیا کرو۔آپ اپنے ہم عصر بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ مخدوم الملک حضرت شرف الدین یحٰیی منیری علیہ الرحمۃ نے آپ کو جوتا بطور تحفہ بھیجا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا نقش ِ پاہوں آپ نے جواب میں ان کو دستار بھیجی جس کا مقصد یہ تھا میں آپ کو اپنے سر کاتاج سمجھتا ہوں۔اسی طرح گمراہ اور جاہل صوفیوں کی خوب خبرلیتے تھے۔(ہمارےمشائخِ زمانہ میں یہ آداب واخلاق مفقود ہیں)
آپنےمکہ مکرمہ میں سات برس اور مدینہ منورہ میں دو سال قیام کیا۔اس کے علاوہ یمن،عدن،دمشق،لبنان،مدائن،فارس،بصرہ،کوفہ، شیراز، تبریز،ایران ،بلخ، نیشاپور،خراساں،سمرقند،گارزون،بحرین ، قطیف ،غزنین کے علاوہ دہلی، جونپور،ملتان،بھکر،الور،روہڑی کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں تشریف لے گئے۔ اور دین متین کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اسلام کا آفاتی پیغام لوگوں تک پہنچایا اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلموں کو کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کیا۔اسی بناء پر آپ کو’’جہانیاں جہاں گشت‘‘ کے لقب سےدنیا پہچانتی ہے۔آپ کے اسفار کی مکمل تفصیل ’’سفرنامہ جہانیاں جہاں گشت‘‘میں موجود ہے۔
بارگاہِ مصطفیٰﷺمیں قبولیت:جب آپ اوچ شریف سےمدینہ منورہ حاضرہوئے،اوربارگاہِ سیدالعالمینﷺ میں عرض گزار ہوئے:’’اَلسَّلَامُ عَلَیکَ یَاجَدّی‘‘۔آپ کوجواب ملا۔’’وَعَلَیکَ السَّلَامَ یاوَلَدِی‘‘۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:118)
آپ کےملفوظات وتعلیمات آب زر سےلکھنے کےقابل ہیں۔ان میں چند یہ ہیں۔(1)جاہل صوفیوں سے دور رہو،کیوں کہ وہ دین کےچور اور مسلمانوں کے راہزن ہیں۔(2)علم لدنی کےلئے تقویٰ ایسے شرط ہے جیسے نماز کےلئے وضو۔(3)ہرمسلمان پر عمل سےپہلے علم واجب ہے۔(4) اللہ کا ولی اللہ تعالیٰ کےعلاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:121)
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 10/ذوالحج785ھ، بروز پیر،عیدالاضحیٰ،مطابق 2/فروری 1384ء کوہوا۔مزار پر انور اوچ شریف تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں مرجع خلائق عام ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اولیائے پاک وہند۔انسائیکلوپیڈیا اولیاء کرام۔تذکرہ جہانیاں جہاں گشت۔تذکرہ اولیائے پاکستان جلددوم۔یادگار سہروردیہ۔