قصیدہ درمدحِ شیخ الاسلام و المسلمین سیدی و مولائی الشاہ امام احمد رضاخاں فاضل بریلی قدس سرہ العزیز طبعِ پُر جوش نے توڑا جو جہانِ وحدت چشمِ تحقیق پھر اپنی ہوئی محو کثرت کتبِ علمیہ سب حیطۂ ادراک میں تھیں مکتبِ دہر میں ثابت تھی مری علمیت مبتدی، منتہی بننے کو چلے آتے تھے خطباء بنتے تھے آکر سبھی اہلِ لکنت شملۂ تاجِ تکلّم سے تھی تطویلِ علوم تختِ تدریس کے پائے تھے رفیع الشوکت تھی شب و روز کچھ اِس طرح سے تعلیمِ علوم ابتداء کرتا ہوں تخلیص سے لے کر اُجرت نحو و تصریف میں ہوتا جو میں محو و مصروف وزن و اعراب کی مِٹ جاتی تھی پھر نزعیت ایک ہی لفظ میں لاتا تھا جہاتِ اربع کرتا توسیعِ معانی سے میں عدمِ عُسرت سبعِ احرف میں کبھی لہجۂ شیریں مشہور لقبِ شیخ سے مشہور بعلم قِرأت عروۃ الوثقی کبھی مجھ کو تھی در علم و عروض خوب تھی بزمِ قوافی میں بھی میری شہرت کبھی کرتا میں دوائر پہ زحافات کی مار ہوتے اِک بحر۔۔۔
مزید