ابن قیس عنقی صحابی ہیں فتح مصر میں شریک تھے مگر ان کی کوئی روایت معلوم نہیں۔یہ ابن یونس کا قول ہے۔ان کا تذکرہ ابن مندہ اورابونعیم نے لکھاہے وفات ان کی ۹۴ھ میں ہوئی۔ ؎۱ مختصر واقعہ یہ ہے کہ عمروبن عاص اورابوموسیٰ اشعری دونوں پہلے ایک جگہ جمع ہوئے عمروبن عاص نے کہامیں معاویہ کومعزول کردوں گاتم علی کو معزول کردینا بعد اس کے مہاجرین و انصار کو اختیار ہے بطبیب خاطر جس کو چاہیں خلیفہ بنائیں ابوموسیٰ نے بھی اس رائے کو پسند کیا چنانچہ دوسرے دن مجمع عام میں دونوں چلے گئے پہلے ابوموسیٰ کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا میں علی کو معزول کرتاہوں اس کے بعد عمروبن عاص نے کہا میں معاویہ کومعزول نہیں کرتا پس یہ معاملہ یوں ہی رہ گیا اور اسلام میں دو خلافتیں قائم ہوگئیں ۱۲ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید
بن صرمہ بن ابی انس۔بیرمعونہ میں شہید ہوئے اس کو غسانی نے عدوی سے نقل کیا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید
ابن قیس بن صخر بن حرام بن ربیعہ بن عدی بن غنم بن کعب سلمہ۔انصاری خزرجی سلمی۔بدر میں یہ اور ان کے بھائی معبد دونوں شریک تھے۔ابن اسحاق نے کہا ہے کہ یہ بدرمیں شریک تھے اور ابن عقبہ نے بھی کہا ہے کہ یہ بدر میں شریک تھےاس کو ابونعیم نے ابن عقبہ سے روایت کیا ہے اور ابوعمر نے موسیٰ بن عقبہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے اہل بدر میں ان کاذکر نہیں کیامگر اس بات پر سب کااتفاق ہے کہ یہ احد میں شریک تھے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید
ابن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عنز بن بکربن عامر بن عدی بن وائل بن ناجیہ بن جماہر بن اشعر بن اود بن یشحب۔کنیت ابوموسیٰ اشعری۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔اشعرکا نام بنت تھا۔ ان کی والدہ طیبہ بنت وہب تھیں جو قبیلہ عک کی ایک خاتون تھیں۔وہ بھی اسلام لائی تھیں اور مدینہ میں ان کی وفات ہوگئی تھی۔واقدی نے بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ مکہ گئے اوروہاں ابواجیحہ یعنی سعید بن عاص بن امیہ سے حلف کی دوستی کی۔مکہ میں اپنے اشعری بھائیوں کی ایک جماعت کے ساتھ گئے تھے پھر اس کے بعد اسلام لائے اور حبش کی طرف ہجرت کی۔ اور بعض علما ئے نسب اسیر نے بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ جب مکہ گئے اورسعید بن عاص سے حلف کی دوستی کی اس کے بعد پھراپنی قوم کے پاس لوٹ آئے اور حبش کی طرف ہجرت نہیں کی بعد اس کے اپنے بھائیوں کے ساتھ چلے اتفاقاً ان کی کشتی انھیں دونوں کشتیوں کے ساتھ آئی جو حبش سے آ رہی تھیں۔۔۔
مزید
ابن قیس بن زائدہ بن اصم بن رواحہ بن حجر بن عبدبن معیص بن عامر بن لوی۔قریشی عامری معروف بہ ابن ام مکتوم ان کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگ عبداللہ کہتے ہیں اور بعض لوگ عمرو یہی آخری نام زیادہ مشہور ہے ان کا تذکرہ ابو عمر نے لکھاہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید
ابن قیس خزاعی۔ابونعیم نے اپنی سند سے یزید بن عیاض سے انھوں نے اعرج سے انھوں نے عبداللہ بن قیس خزاعی سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص دکھانے سنانے کے لیے کوئی کام کرے وہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کام سے بعض آئے۔ ان کا تذکرہ ابونعیم اور ابوعمر اور ابوموسیٰ نے لکھا ہے اور ابوعمر نے کہاہے کہ یہ خزاعی ہیں مگربعض لوگوں نے ان کو اسلمی لکھا ہے۔ میں کہتا ہے کہ ابن مندہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن قیس اسلمی کے تذکرہ میں لکھا ہے اور ہم بھی اس کو وہیں لکھ چکے ہیں مگرابونعیم نے اس حدیث کو وہاں نہیں لکھا کیوں کہ یہ ان کو دو شخص سمجھتے ہیں۔اسی لیے انھوں نے عبداللہ بن قیس اسلمی کے تذکرہ میں صرف یہ حدیث لکھی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی غفار کے کسی شخص سے اس کا حصہ جو خیبر کے مال غنیمت سے اس کو ملاتھا مول لیا اور ابوعمران دونوں کو ایک سمجھتے ہ۔۔۔
مزید
بن خلدہ بن حارث بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار۔انصاری ہیں خزرجی ہیں نجاری ہیں۔غزوہ بدر میں شریک تھے ۔اس کو موسیٰ بن عقبہ نے ابن شہاب سے نقل کیا ہے اور ابن اسحاق کا بھی یہی قول ہے اور محمد بن سعد نے محمد بن عبداللہ بن عمارہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ وہ احد کے دن شہید ہو ئے مگر محمد بن عمرواقدی نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ عبداللہ احد کے بعد زندہ رہے اور تمام مشاہد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی۔بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انھوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ان کا تذکرہ ابونعیم اور ابوعمر نے لکھا ہے اور ابوموسیٰ نے کہا ہے کہ ابونعیم نے ان کا تذکرہ ان عبداللہ بن قیس سے علیحدہ کرکے لکھاہے جن کا حال حضرت ابن عباس کی اس حدیث میں ہے جس میں غرور کا بیان ہے اور ممکن ہے کہ یہ وہی ہوں یعنی جن کا تذکرہ اس سے اوپ۔۔۔
مزید
ابن قیس انصاری۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو متفرق طور پر لشکر بھیجے تھے ان میں کسی لشکر میں یہ شہید ہوئے۔حضرت ابن عباس نے روایت کی ہے کہ (ایک مرتبہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر جو شخص اس حال میں مرے گا کہ اس کے دل میں رائی کے برابربھی غرور ہواللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جب عبداللہ بن قیس نے اس حدیث کو سنا تو رونےلگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس تم کیوں روتے ہو انھوں نے کہا آ پ کے اسی فرمانے سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم خوش ہو کہ تم جنت میں جاؤگے پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی لشکر بھیجا یہ اسی لشکر میں شہید ہوئ۔ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابونعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید
اسلمی۔یزید بن عیاض نے اعرج سے انھوں نے عبداللہ بن قیس سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص بغرض ریا ظاہری کوئی کام کرے اس پر اللہ عزوجل کا غضب ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کام کو چھوڑدے۔یہ ابن مندہ کا قول ہے ابونعیم نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی غفار کے ایک شخص سے اس کا حصہ جوخیبر میں تھا ایک اونٹ کے عوض میں مول لیا اس شخص سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوچیز میں نے تجھ سے لی ہے وہ بہتر ہے اس چیز سے جو میں نے تجھے دی اب بھی تجھے اختیار ہے جو چاہے اپنا حصہ لے لے چاہے چھوڑدے اس شخص نے کہا میں لیے لیتا ہوں ان کا تذکرہ ابن مندہ اورابونعیم نے لکھا ہے ابن مندہ نے پہلی حدیث کو اسی تذکرہ میں لکھا ہے۔اورابونعیم نے عبداللہ بن قیس خزاعی کے تذکرہ میں لکھا ہے جن کا ذکر عنقریب ہوگا اور انھوں نے دوسری حدیث اس تذکرہ میں لکھی ہے واللہ اعلم۔مگر ابوع۔۔۔
مزید
بن اسبان بن ثعلبہ بن ربیعہ۔ان کا نام عبدعمروتھارسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔ورید بن صمہ کے قاتل یہی ہیں غسانی نے ابن ہشام سے اس کو نقل کیا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔
مزید