بن عبداللہ: (ایک روایت میں ان کا نام ابن عبدۃ المغافری مذکور ہے) یہ مصر میں جا بسے تھے۔ یحییٰ بن محمود نے ہمیں اس اسناد سے جو عمرو بن ضحاک تک پہنچتا ہے، بتایا کہ ہم سے عیاش بن ولید نے، اس سے عبداللہ بن زید نے اس سے سعید بن ابی ایوب نے اس سے عیاش بن عباس نے اس سے جعفر بن عبداللہ نے، اُس سے مالک بن عبداللہ المغافری نے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں جو مقدر ہے وہ ہوکر رہے گا اور جو تیرا رزق ہے وہ خود بخود پہنچ جائے گا اسے نافع بن یزید نے عیاش بن عباس سے اس نے عبداللہ بن مالک سے۔ اس نے جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے اس نے خالد بن رافع سے روایت کی، ہم اسے حرفِ ’خا‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں، ابن مندہ اور ابونعیم نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبداللہ الہلالی: واقدی نے کبیر بن عبداللہ المزنی سے، اس نے عمر بن عبدالرحمٰن سے، اُس نے عبداللہ المالک الہلالی سے، اس نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضور اکرم سے دریافت کیا، یارسول اللہ! اعراف میں کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: جو لوگ کہ اللہ کی راہ میں بغیر اجازت والدین لڑنے کو نکلے اور شہید ہوگئے۔ اب ان کا درجۂ شہادت پر فائز ہونا، دوزخ سے روکتا ہے اور والدین کی نافرمانی جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبداللہ الہلالی: واقدی نے کبیر بن عبداللہ المزنی سے، اس نے عمر بن عبدالرحمٰن سے، اُس نے عبداللہ المالک الہلالی سے، اس نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضور اکرم سے دریافت کیا، یارسول اللہ! اعراف میں کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: جو لوگ کہ اللہ کی راہ میں بغیر اجازت والدین لڑنے کو نکلے اور شہید ہوگئے۔ اب ان کا درجۂ شہادت پر فائز ہونا، دوزخ سے روکتا ہے اور والدین کی نافرمانی جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
والدِ عبداللہ آخر حسبِ روایت ابوموسیٰ: عبدان نے اپنی سند سے حسن بن یحییٰ سے اس نے زہری سے اس نے عبداللہ بن مالک سے۔ اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن منادی کرائی کہ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ اور کوئی داخل نہیں ہوگا، اور کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فاسق و فاجر کو خدمتِ دین پر آمادہ کردیتا ہے بقولِ راوی عبدان سے اسی طرح مروی ہے، نیز اس نے راوی کا نام مالک بن کعب بن عبداللہ لکھا ہے، جو والد کی بجائے دادا سے منسوب ہیں، سفیان بن حسین نے زہری سے یہ روایت کی ہے ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
والدِ عبداللہ آخر حسبِ روایت ابوموسیٰ: عبدان نے اپنی سند سے حسن بن یحییٰ سے اس نے زہری سے اس نے عبداللہ بن مالک سے۔ اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن منادی کرائی کہ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ اور کوئی داخل نہیں ہوگا، اور کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فاسق و فاجر کو خدمتِ دین پر آمادہ کردیتا ہے بقولِ راوی عبدان سے اسی طرح مروی ہے، نیز اس نے راوی کا نام مالک بن کعب بن عبداللہ لکھا ہے، جو والد کی بجائے دادا سے منسوب ہیں، سفیان بن حسین نے زہری سے یہ روایت کی ہے ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن علاط سلمی: حجاج بن علاط کے بھائی ہیں۔ ان کا نسب ان کے بھائی کے ترجمے میں بیان ہوچکا ہے۔ ان کی والدہ ام شیبہ بنتِ طلحہ تھیں۔ معرض معرکۂ جمل میں مارے گئے تھے: ابو عمر کی یہی رائے ہے ارباب سیرو تاریخ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابن مبارک نے بھی ان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ معرض معرکۂ جمل میں مارے گئے تھے۔ ان کے بھائی حجاج نے ان کی موت پر ذیل کا شعر کہا۔ وَلَمْ اَوَیَوْمَا کَانَ اکثر سَاعِیْاً بِکَفِّ شِمَالٍ فَارَقتھا یَمْنُھَا ترجمہ: مَیں نے کوئی ایسا دن نہیں دیکھا۔ جِس میں اس نے بائیں ہاتھ سے، بغیر دائیں کے اتنی محنت کی ہو۔ ابو عمر نے ان کا ذکر کیاہے۔ جناب حجاج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح میں کئی اشعار کہے ہیں۔۔۔۔
مزید
بن معیقیب یمامی: شاصویہ بن عبید ابو محمد یمامی نے ان سے حدیث روایت کی ہے، شاصویہ نے معرض بن عبد اللہ بن معرض بن معیقیب سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے دادا سے روایت کی ہے کہ وہ حجتہ الوداع میں شامل تھے۔ مکہ میں ایک مکان میں داخل ہوئے۔ وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ اور آپ کا چہرہ مبارک چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ اس سے عجیب تر جو چیز مشاہدہ کی وہ یہ تھی کہ اہلِ یمامہ کا ایک آدمی ایک بچے کو کپڑے میں لپیٹے ہوئے لایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے سے دریافت کیا۔ کیا تم[۱] جانتے ہو کہ مَیں کون ہوں۔ بچّے نے کہا، آپ اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نے فرمایا، تو نے درست کہا۔ اللہ تجھے برکت دے اس کے بعد وہ بچہ جوانی تک خاموش رہا۔ لوگ اسے مبارک الیمامہ کہتے تھے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ [۱۔ حدیث اس بے مخدوش ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچے سے پوچھنے کی کیا ضرورت ۔۔۔
مزید
بن سنان بن نبیشہ بن سلمہ بن ساماں بن نعمان بن صیح بن مازن ابن خلاوہ بن ثعلبہ بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان بن مزنی: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفد مزینہ کے ساتھ حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زمین کا ٹکڑا بصورتِ جاگیر عطا کیا تھا۔ ہشام بن کلبی نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن مقرن المزنی: ہم ان کا سلسلۂ نسب ان کے بھائی سوید کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں۔ یہ لوگ سات بھائی تھے اور سب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ عرب میں اور کسی کو یہ فخر حاصل نہیں ہُوا۔ واقدی اور ابن نمیر کا یہی قول ہے، تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو عمر نے واقدی اور ابن نمیر سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ نیز ابو عمر نے یہ بھی بیان کیا ہے۔ کہ بنو حارثہ بن ہند اسلمی آٹھ بھائی تھے۔ جو سب کے سب مسلمان ہوگئے تھے۔ اور سب بیعتِ رضوان میں موجود تھے۔ اس کا ذکر ہند بن حارثہ کے ترجمے میں آیا ہے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے نام کے متعلق کئی روایات ہیں: کیسان، طہمان، ذکوان، میمون، ہرمز۔ اس اختلاف کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ روایت ہے کہ آلِ ابی طالب کے مولی تھے۔ عبد الواہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ، عبد اللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے وکیع سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے سائب سے روایت کی، ان کا بیان ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم کے پاس صدقہ لے کر گئے۔ انہوں نے لینے سے انکار کردیا اور وجہ یہ بیان کی، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام مہران نے انہیں بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بیت کے لیے صدقہ حرام قرار دیا ہے اور قبیلے کا غلام ان ہی سے شمار کیا جائے گا۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید