خواجہ محمد اعظم دومڑی[1]بن خیر الزمان[2]کشمیر مجددی: کاشمیر کے اعاظم علماء وکبراء مشائخ میں دے عالم فاضل یگانہ روزگار تھے،صغر سنی میں مولانا عبداللہ شہید سے علم حاصل کیا پھر شیخ مراد بیگ و مرزا کامل بیگ و میر ہاشم قادری وغیرہ سے استفادہ کیا،باوجود حکومت و دولت وثروت اور کرامت حسبو نسب کے دل فقر میں باندھ کر شیخ محمد مراد مجددی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علوم باطنی واسرار معنوی کی تکمیل حاصل کی۔چونکہ اپ کو شعر گوئی اور تاریخ نویسی میں بڑی مشق تھی۔آپ نے ۱۱۵۸ھ میں تاریخ[3]اعظمی المعروف بتواریخ دو مری بادشاہوں و مشائخ و علماء و فضلاء و شعرائے کاشمیر کے حالات میں نہایت فصاحت و لاغت سے تصنیف کی اور تاریخ تالیف اس کی’’وقعاتِ ۱۱۴۸ھ کشمیر‘‘ مقرر کی،علاوہ اس کے ایک کتاب مسمّٰی بہ فیض مراد اپنے پ۔۔۔
مزید
حاجی نعمت اللہ نوشہری: اخوند ملا مہدی علی کبروی کی اولاد میں سے عالم، فاضل،محدث،کمالات صوری و معنوی سے متصف تھے،علوم کو شیخ الاسلام امان اللہ شہید سےپڑھا اور انہیں سے روایت کتب حدیث و قراءت احزاب و دعوات حاصل کر کے اپنی عمر کو تورع و تشرع میں بسر کیا اور ۱۱۸۲ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
بابا محسن قادری کاشمیری: عالم متقی،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور کتابت میں ید طولیٰ رکھتے تھے،علوم کو شیخ الاسلام امان اللہ شہید سے حاصل کیا اور صحیح بخاری و مشکوٰۃ بیضاوی ودعوۃ الحق اور ہدایہ کو اپنے ہاتھ سے لکھا اور ماہ جمادی الاولیٰ ۱۱۸۱ھ میں وفات پائی۔آپ کے شاگردوں میں سے علماءمیں سے ملا عبد الستار اور شیخ رحمت اللہ اور مراد الدین خاں وغیرہ ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
اخوند ملّا ابو الوفاء کاشمیری: عالم فاضل،فقیہ کامل،استخراج مسائل میں یگانۂ زمانہ تھے۔علوم مولانا محمد اشرف چرخی اور شیخ الاسلام علامۂ شہید سے حاصل کیے اور ابتداء جوانی میں شاہی لشکر میں پہنچ کر جاگیر حاصل کی اور کاشمیر کے مفتی ہوئے۔بڑی تحقیقات سے مسائل فرعیہ فقہیہ کو چار جلدوں میں جمع کیا اور ایک رسالہ خصائص آنحضرت میں انوار النبوۃ کے نام سے تصنیف کیا اور ۱۱۷۹ھ میں وفات پائی۔’’پیوسۃ بہ رحمت الٰہی‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولانا رستم بن علامہ علی اصغر قنوجی: ہندوستان کے علمائے کبار میں سے فقہ،حدیث،تفسیر،منقول و معقول میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور فقہائے ہند اور علمائے ولایت میں سے کسی کو آپ کے قول و فعل پر جائے انگشت نہ تھی،باوجود شریف علمی اور جو ہر ذاتی کے آپ اپنے آپ کو کمترین درویشوں بارگاہ الٰہی سے شمار کرتے تھے،۱۱۱۵ھ میں پیدا ہوئے۔علوم متدوالہ اپنے بااپ سے اخذ کیے اور ان کی وفات کے بعد ملا،نظام الدین لکھنوی سے ۱۱۴۰ھ میں تحصیل سے فراغت پائی اور رات دن تدریس و تعلیم خلائق میں مصروف ہوئے چنانچہ سینکڑوں طالب علم آپ کے چشمہ فیض علوم دینی ودینوی سے بہرہ یاب ہوئے۔تفسیر جامع الصغیر[1]جو فہم معافی قرآن شریف میں جلالین پر فوقیت رکھتی ہے اور شرح منار آپ کی عمدہ تصانیف میں سے ہیں۔وفات آپ کی ۱۱۷۸ھ میں ہوئی۔’’شیخ وحید الدہر‘۔۔۔
مزید
ابو بکر بن منصور حلبی المعرو بہ ابن قنصہ: عالم فاضل،فقیہ کامل تھے۔ حلب میں ۱۰۸۴ھ کو پیدا ہوئے اور وہاں کے علماء و فضلاء سے علوم تحصیل کر کے درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور چور انوے سال کی عمر میں ہفتہ کے روز ماہ جمادی الاخریٰ ۱۱۷۷ھ میں وفات پائی اور دروازہ قنسرین کے باہر تربت امنیہ میں دفن کیے گئے۔قنصہ آپ کی دادی کا نام ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
اخوند محمد عبداللہ یسوی بن خواجہ محمد فاضل ٹوپیگرو: مقیم السنہ لقب تھا، اپنے زمانہ کے عالمِ محقق،فاضل مدقق تھے۔علم ملا محمد محسن اور شیخ الاسلام علامہ شہید مولوی معز الدین امان اللہ سے تحصیل کیا یہاں تک کہ فحول علماء اور کمل فضلاء کے درجہ میں مترقی ہوکر مسندِ افادت پر جلوس فرماہوئے اور جب حضرت قاضی شاہ دولت کاشمیر میں وارد ہوئے تو ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر تھوڑی سی مدت میںسب م راتب دورجات طے کر کے خلافت کا خرقہ حاصل کیا اور عبد الصمد خاں کے وارد کاشمیر ہونے پر پگلی دو متور کے راستہ سے پشاور میں گئے بعدازاں فخر الدین محمد خاں نیابت میں جموں کے راستہ سے لاہور میں پہنچے اور ملا شرف الدین کے وسیلہ سے وہاں کے حکام کی صحبت میں مباحثہ ومناظرہ میں علمائے پنجاب پر فوقیت لے گئے اور وہاں سے مراجعت کر کے افتاء۔۔۔
مزید
حاجی عبد الولی طرخانی: عالم فاضل،محدثِ کامل تھے۔اپنے وطن طرخان واقع بلاد ترکستان سے مکہ معظمہ میں گئے اور بعد ادائے حج کے مدینہ منورہ میں پہنچے اور وہاں مدرسہ دار الشفاء میں حلقہ درس شیخ ابو الحسن سندی میں داخل ہوکر روایت کتب حدیث و تفسیر کی اجازت حاصل کی اور وہاں سے مراجعت فرماکر کاشمیر میں آئے اور تتمۃ الحواشی ملا یوسف کو سچ کو بطور تحفہ کے شیخ الاسلام مولاناقوام الدین محمد کی خدمت میں گزارنا اور روایت کتب حدیث و تفسیر کی اجازت ان کو دی اور کچھ عرصہ تک ان کے مکان میں رہے۔آخر الامر ۱۱۷۰ھ میں موضع میں سو کھ جیون نے آپ کو شاہزادہ بلخ کی تہمت میں شہید کردیا کہتے ہیں کہ آپ کا سرتن سے جدا اخیر رات تک خدا کے ذکر میں مشغول رہا جب صبح ہوئی تو اس نے خاموشی اختیار کی۔’’شمع مشہور دہر‘‘ تاریخ وفات ہے۔۔۔۔
مزید
نور الدین بن شیخ محمد صالح احمد آبادی: فقیہ،محدث،مفسر،علامۂ زمانہ، فہامۂ یگانہ،وحید العصر،فرید الدہر،جامع منقول ومعقول،حاوی فروع واصول، بحرِ ذخار علوم،صاحبِ تصانیف کثیرہ تھے،احمد آباد میں ۱۰۶۴ھ[1]میں پیدا ہوئے۔ ملا احمد سلیمانی اور ملّا فرید الدین احمد آبادی سے تلمذ کیا یہاں تک کہ سر آمد باب دانش ہوئے۔۱۱۴۳ھ میں حرمین شریفین کی زیارت حاصل کی اور دوسرے مراجعت کر کے حضرتِ محبوب عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت و خلافت خانوادوں کی حاصل کر کے ایک بڑا مدرسہ [2]اور خانقاہ تیار کرائی اور ابتدائے تحصیل سے اخیر عمر تک تدریس و تصنیف میں مشغول ہوکر ایک عالم کو فیضیاب کیا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ صغیر وکبیر کتابیں تصنیف کیں چنانچہ ان میں سے تفسیر کلام اللہ، نور القاری شرح صحیح البخاری،حاشیہ تفسیر بیضاوری،حاشیہ قویمہ حاشیہ قدیمہ،حاشیہ۔۔۔
مزید
مولوی محمد زین الدین رانیونی[1]ابن خواجہ عبد اللطیف: عالم فاضل،مدقق کامل،ذکی فہیم،سخی تھے،علاوہ فضیلت علمی کے عالی نسب و حسب اور صلاح و تقوی میں آراستگی تمام اور شعروسخن و فصاحت میں اقران سے گوئے سبقت لے گئے تھے،امور معاش میں بڑے محتاط تھے،باون سال کی عمر میں ۱۱۵۵ھ میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ پر تقریباًبیس ہزار آدمی جمع ہوئے تھے۔مزار فائض الانوار آپ کا محلہ رانیواری میں اپنے جد امجد خواجہ زین الدین علی کے پاس واقع ہے۔ 1۔ کشمیری۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید