قطبِ لاہور حضرت مولانا غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: عبد القادر۔عرفی نام: غلام قادر بھیروی۔ لقب: قطبِ لاہور، عارف باللہ،استاذ العلماء۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: عارف باللہ حضرت علامہ مولانا غلام قادربھیروی بن مولانا عبدالحکیم بن مولانا جان محمد بن مولانا محمد صدیق۔علیہم الرحمہ۔آپ خاندانِ قریش کے چشم وچراغ تھے۔آپ کے مورث اعلیٰ سندھ کے باسی تھے۔تسخیر ِ سندھ کے بعد سندھ میں مقیم ہوگئے۔بعد ازاں سیاسی انقلابات سے متاثر ہوکر سندھ سے بھیرہ شریف پنجاب میں اقامت گزیں ہوگئے۔آپ کے والد گرامی مولانا عبدالحکیم صاحب ایک جید عالم اور خدا ترس بزرگ تھے۔اسی طرح آپ کے دوحقیقی بھائی بھی صاحبِ علم و فضل تھے۔(فروغِ علم میں خانوادۂ سیال شریف اور ان کے خلفاء کا کردار:186)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ’’الیواقیت المہریہ‘‘ تذکرہ اکابر اہل سنت،اور فیضانِ شمس العارفین، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‘‘ میں 1265ھ مطابق 1849ء ہے، اور اسی طرح ’’فوز المقال فی خلفاء پیر سیال جلد اول، اور فروغِ علم میں خانودادۂ سیال شریف اور ان کے خلفاء کا کردار‘‘ میں 1214ھ مطابق 1825ء تحریر ہے۔ حالانکہ1214ھ /مطابق 1799ء ہے،نہ کہ 1825ء۔یہ دونوں تاریخیں قابلِ غور ہیں۔جیساکہ تمام تذکروں میں ہے کہ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرنے کےبعد لاہور میں استاذالعلماء مولانا غلام محی الدین بُگوی(م1273ھ) کے مدرسے میں ابتدائی کتبِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف تھے۔ ابتدائی کتب کی تعلیم یقیناً قرآن ِ مجید کی تکمیل کےبعد ہی شروع ہوئی ہوگی،جیساکہ عام رواج ہے۔ 1265ھ کے حساب سے 8سال عمر بنتی ہے،اور 1214ھ کے حساب سے59سال۔اسی طرح یہ بھی لکھاہے کہ ابتدائی کتب ِ دینیہ کے پڑھنے کے بعد دہلی میں صدر الصدور مولانا مفتی صدرالدین آزردہؔ کے پاس مزید تحصیل ِعلم کےلئے حاضر ہوئے،اور ان کی خدمت میں چودہ سال رہ کر علوم عقلیہ ونقلیہ کی تکمیل فرمائی۔مفتی صاحب کا وصال 1285ھ میں ہوا۔تو اِس اعتبار سے حضرت بھیروی کی عمر بیس سال بنتی ہے۔یعنی چھ سال کی عمر میں مفتی صدرالدین آزردہ کی خدمت میں پہنچے اور چودہ سال تک تحصیلِ علم میں مشغول رہے۔سو یہ دونوں تاریخیں ان حقائق سے صحیح معلوم نہیں ہوتیں ہیں ۔قیاساًجو درست معلوم ہوتا ہےوہ تقریباًتیرہویں صدی کانصف یا اس سے قریب قریب ہے۔ (فقیر تونسویؔ غفرلہ )۔
تحصیلِ علم: مولانا غلام قادر ابھی ایام طفلی میں ہی تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے علم دین کی تحصیل اور انسانیت کی ہدایت و خدمت کی بشارت دی۔(تذکرہ علمائے لاہور:223) ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔پھر لاہور میں مولانا غلام محی الدین بگوی،اور مولانا احمد دین بگوی علیہما الرحمہ سے ابتدائی کتب پڑھنے کےبعد دہلی میں حضرت صدرالصدور کی خدمت میں پہنچے،اور تمام معقولات و منقولات کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے دستِ حق پرست پربیعت ہوکر، خلافت سے مشرف ہوئے۔فوزالمقال میں ہے: ’’آپ دہلی سے لاہور قیام فرمائے۔تھوڑا عرصہ ہوا تھا کہ آپ بغرضِ بیعت سیال شریف حضرت خواجہ شمس العارفین کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،حضرت خواجہ سیالوی نے آپ کو پہلی نظر میں ہی کشفِ قلبی سے جانچ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں ایسی استعداد ودیعت فرمائی ہے کہ اگر صحیح طور پر نشو ونما کی گئی ت یہ جواں مہر تاباں کی طرح ایک جہاں کو منور کرےگا۔چنانچہ چند دنوں میں ہی حضرت خواجہ سیالوی نے آپ کوبیعت فرماکر ظاہری و باطنی کمالات سے مالا مال کردیا۔حضرت مولانا بھیروی کو حضرت خواجہ سیالوی سے والہانہ محبت اور عشق تھا۔یہی محبت اور عشق تھا کہ جس کے باعث آپ نے اپنے شیخِ طریقت سے گہرا تعلق پیداکرلیا اور بالآخر آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا گیا‘‘۔(فوز المقال فی خلفاءِ پیر سیال جلد اول) آپ کے اور ادو اشغال میں حضور سیدنا غوث اعظم سے اویسی نسبت کی بنا پر قادریت کا غلبہ تھا ۔ مشہور تاریخ گواور تذکرہ نویس بزرگ مولانا غلام دستگیر نامی لکھتے ہیں:’’آپ کو لاہورکا قطب سمجھا جاتا تھا‘‘۔(تذکرہ اکابر اہل سنت،ص، 326/بحوالہ بزرگانِ لاہور، ص181)۔
سیرت وخصائص: استاذالاساتذہ، مقتدائے اہل سنت،حامیِ اہل سنت، ماحیِ بدعت،قاطعِ نجدیت و وہابیت،استاذا لعلماء،شمس الفضلاء، عمدۃ المحققین، زبدۃ العارفین، سراج السالکین،حضرت علامہ مولانا عبد القادر صاحب المعروف مولانا غلام قادر بھیروی قریشی ہاشمی چشتی سیالوی ۔مولانا غلام قادر بھیروی اپنے وقت کے مقتدائے اہل سنت،جید عالم،ثقہ مدرس،عظیم اور مستند مفتی تھے۔زمانۂ طالب علمی میں ہی آپ کے قوتِ حافظہ اور اور علمی قابلیت و استعداد کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔بڑے بڑے شہرہ آفاق علماء علمی مذاکرات کےلئے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے،اور آپ کی باریک بینی،نکتہ سنجی،اور تفقہ فی الدین میں کمال کی تعریف کرتے نہ تھکتے،ذہانت و فطانت کا یہ عالم تھا کہ ہر علم کے ایک ایک بنیادی رسالے کا متن ازبر کرلیا تھا۔
آپتکمیل ِعلوم کے بعد لاہور تشریف لائے اور اندرون بھاٹی دروازہ ، اونچی مسجد ، میں خطیب مقرر ہوئے، ان کی عالمانہ تقریر کی کشش سے دور دور کے لوگ حاضر ہونے لگے ۔بیگم شاہی مسجد کی متولیہ مائی جیواں آپ کے ارشادات سے اس قدرمتاثر ہوئیں کہ اپنی مسجد کا خطیب مقرر کردیا، بعد ازاں مسجد کی تولیت بھی آپ ہی کے سپرد کردی۔آپ کی وجہ سے بیگم شاہی مسجد تشنگان علم ِ مصطفیٰ کےلئے صلائے عام بن چکی تھی۔ اور لوگ شہر کےگوشے گوشے سے سمٹے چلے آتےتھے۔(تذکرہ اکابراہل سنت:326)
مسیحی مشنری کی سرگرمیاں: جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ذہنوں کو نئے سانچے میں ڈھالنے کا ایک پروگرام مرتب کیا۔انگلینڈ کے عیسائی مبلغین نے ملکہ وکٹوریہ کی حکومت پر زور دیا کہ ہندوستان میں کالج اور مشنری ادارے قائم کیے جائیں۔چنانچہ لاہور میں 1864سے لےکر دس سال کے قلیل عرصے میں گورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج، سنٹرل کالج،فورمین کرسچین کالج،چیف کالج، کنگ ایڈورڈ کالج،اور پنجاب یونیورسٹی جاری کردیے گئے۔یہ زمانہ مسلمانوں کےلئے فکری اور اعتقادی ابتلاء کا دور تھا،کمزور مسلمان سکھ دور کی چیرہ دستیوں سے جانبر نہیں ہوا تھا کہ اسے جنگ آزادی کے تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ ان کے سینوں سے روحِ اسلام کو خارج کرنے کی منظم سازشیں ہونے لگیں۔کالجوں میں ان کے علم کو بدلا جانے لگا۔گرجوں میں دین کو مسخ کیا جانے لگا۔اور عوام کے اسلامی اعتقادت کی جڑوں کو کھوکھلا کتنےکےلیے وہابی،نیچری،مرزائی،اور دہریت جیسے ہزاروں فتنے حشرات الارض کی طرح چھوڑ دیے گئے۔ان اعتقادی فتنوں کی پشت پناہی میں انگریز کی ساری مشینری کام کررہی تھی۔بے پناہ وسائل فراہم کیا جاتے۔خطابات عطا ہوتے،جاگیریں الاٹ ہوتیں،اور باقاعدہ تحریکیں چلائی جاتیں۔اس تمام بات کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کتنے درد سے پیش کیاہے۔
؏: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں کبھی ۔۔۔۔روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہےیہ علاج۔۔۔۔۔ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
فکر عرب کو دےکر فرنگی تخیلات۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
ان حالات سنی علماء کرام نے اپنی بے سرو سامانی اور تہی دستی کے باوجود اسلام کی ٹمٹماتی ہوئی شمع کو جان کی بازی لگاکر طوفانوں کی زد سے بچایا۔وہ اپنے آقاﷺ کے دین کی جس پامردی سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے،اس کی مثال نہیں ملتی۔ان عظیم راہنماؤں میں ایک نام مولانا غلام قادر بھیروی کابھی ہے۔آپ نے سادہ لوح عوام کے اعتقاد کو بچانے کےلئے دن رات ایک کردیاتھا۔وہ پیغامِ مصطفیٰ کو لاہور کی گلی گلی کوچہ کوچہ لیے پھرے۔ہر مسجد،ہر مکتب، ہر باغ، اور ہر مدرسہ قرآنی تعلیمات سے معمور ہوگیا۔
اورینٹل کالج میں پروفیسر: انگریزوں نے ابتداءً ان علوم کو فروغ دینے کا پروگرام بنایاجن میں مسلمانوں کا دینی ورثہ تھا۔یہ کالج در اصل ایک خطرناک سازش تھی۔مسلمان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان علوم کو حاصل کرتے،انہیں عربی و فارسی کے مختلف درجات طے کرانے کےبعد مستشرق بنادیا جاتا۔وہ غامدی صاحب کی طرح اسٹائلش مولانا اور ماڈرن علامہ بن کر’’شمس العلما‘‘ جیسے بارعب خطاب پاتے۔اس طرح اسلام کی حقیقی روح کھینچ لی جاتی۔مولانا غلام قادر بھیروی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے جوان ہمت علماء اس ’’بت خانہ فرنگ‘‘ میں کود پڑے۔ان کا مقصد یہ تھا کہ طلباء کو حتی الامکان ان مسموم خیالات سے بچایا جائے،جو اس کالج میں سے لائے جارہےہیں۔انگریز اپنے خیالاتِ باطلہ و فاسدہ کو ’’مولویت، اور فضیلت‘‘ کے رنگ میں ذہنوں تک پہنچانا چاہتےتھے۔مگر ’’صنم خانۂ فرنگ‘‘ میں بیٹھ کر مولانا غلام قادر بھیروی نے ایک عرصے تک جو جہاد کیا۔وہ علمائے اہل سنت کی تاریخ میں ایک یادگار ہے۔(تذکرہ علمائے لاہور:227)
انہی دنوں انگریزوں کو ایک فتوے کی ضرورت پیش آئی،متدین علماء نے صاف انکارکردیا ،کالج سے متعلق علماء سے رجو ع کیا گیا تاکہ وہ وظیفہ خوار ہونے کی بناپر انگریز کے منشا کے مطابق فتویٰ صادر کر دیں گے۔جب مولاناغلام قادر بھیر وی کے سامنے دستخط کرنے کے لئے فتویٰ پیش کیا گیا تو انہوں نے استعفاء پیش کردیا اور فرمایا:’’میں غلط فتویٰ نہیں دوں گا۔پرنسپل کو اتنے بڑےفاضل کا کالج چھوڑجانا بڑا ناگوارتھا۔انہوں نے پھرلکھا کہ آپ فتویٰ نہ دیں مگر کالج کو نہ چھوڑیں، مگر آپ نےلکھا کہ میں غلط فتوے لکھنےکےلئے ملازمت نہیں کرسکتا۔ پرنسپل نے لاہور واپس آکر حضرت مولانا کو بلایا تو آپ نے فرمایا مجھے خواب میں میرے آقا مدنیﷺ نے حکم دیا ہے کہ اب میں صرف قرآن وحدیث پڑھایا کروں۔ میری تنخواہ اللہ کے خزانے سے ہرماہ آیا کرےگی‘‘۔ (تذکرہ علمائے لاہور:228)
اخراج الوہابیین: اس دورمیں ہندوستان کے مختلف شہروں میں بداعتقاد مولوی بھی مختلف نظریات لےکر لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے۔لاہور بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہیں تھا۔یہ مولوی سادہ لوح عوام کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کےلئے مساجد میں گھس آتے،مناظرہ بازی شروع کردیتے۔جس سے اکثر فساد کاخطرہ ہوتا۔چونکہ یہ فتنے انگریز کے خود کاشتہ پودےتھے۔اس لئے انہیں سنی علماء سے فساد کرتے وقت انگریز کی شہ حاصل ہوتی۔ہمارے ان بزرگوں کے ہاں سب کچھ قبول تھا،مگر اپنے آقاﷺ کی توہین کا خفیف پہلو بھی ان کی قوتِ برداشت کا امتحان ہوتا۔مولانا غلام قادر بھیروی نے ان مفسد لوگوں کے شر سے محفوظ رہنے کےلئے اپنی مسجد کی پیشانی پر یہ عبارت کندہ کروادی تھی جو اب بھی موجود ہے۔’’باتفاق انجمن حنفیہ وحکم شرع شریف قرار پایا کہ کوئی وہابی، رافضی، نیچری، مرزائی مسجد ہذا میں نہ آئے اور خلاف مذہبِ حنفی کوئی بات نہ کرے۔فقیر غلام قادر عفی عنہ متولی بیگم شاہی مسجد‘‘۔
پیر زادہ مولانا اقبال احمد فاروقی فرماتےہیں: یہ بات مولانا کی مسجد کی تختی تک ہی محدود نہ تھی بلکہ بیگم شاہی مسجد میں جب بھی کوئی بداعتقاد بغرض فساد گھس آتا،تو مولانا اسے بہ یک بینی دوگوش باہر نکال دیتے،مسجد کا فرش دھلاتے،اگر وہ بداعتقاد حضورﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہتاتو اسے دھکے دےکر باہر کرتےاور مسجد کافرش اکھاڑ دیتے،جہاں ایسا بد زبان کھڑا ہوا تھا۔(تذکرہ علمائے لاہور:230)
مدرسہ نعمانیہ کا آغاز: لاہور میں مختلف مکاتب فکر کی سرگرمیوں کو دیکھ کرچند حساس سنی مسلمانوں نے مختلف مدارس قائم کرنے کابیڑا اٹھایا۔چناچہ ان دنوں اہل سنت کی ’’انجمن حنفیہ‘‘ نے ’’مدرسہ نعمانیہ‘‘ قائم کیا۔آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک ہے،جو پاک وہند کی دینی دنیا میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔مگر ان حضرات میں سے حضرت پیر جماعت علی شاہ، قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی،مولانا محمد نبی بخش حلوائی،مولانا محمد عالم امرتسری علیہم الرحمہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف پر بھی خاص توجہ دی۔بچوں کی ابتدائی تعلیم سےلےکر عمر رسیدہ مسلمانوں کےلئے مختلف تصانیف پیش کیں۔
تاریخِ وصال: 19/ربیع الاول 1327ھ مطابق اپریل/1909ء کوواصل باللہ ہوئے۔بیگم شاہی مسجد لاہور میں محوِ استراحت ہیں۔