سراج الہند شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی :شاہ عبدالعزیز۔لقب:سراج الہند۔تاریخی نام:"غلام حلیم"۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ بن شاہ عبدالرحیم بن شاہ وجیہ الدین شہید۔(علیہم الرحمہ)آپ کاسلسلہ نسب 34واسطوں سے امیرالمؤمنین حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
تاریخِ ولادت: 25 رمضان المبارک1159ھ بمطابق10 اکتوبر1746ء بروز جمعۃ المبارک بوقتِ سحر،دہلی میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے گھرپیداہوئے۔
تحصیلِ علم: جمیع علومِ عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل وتکمیل اپنے والدِ ماجد اور انکے خلفاء سے ہوئی۔ان میں سے باالخصوص شیخ اجل شاہ محمد عاشق پھلتی اور مولانا محمد امین سے استفادہ کیا۔بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا تھا،اورپندرہ سال کی عمر میں جمیع علوم سے فراغت حاصل کرلی تھی۔
ختمِ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی آمد: ختمِ قرآن کے بعد جب آپ نے پہلی مرتبہ تراویح میں قرآن میں سنایا ۔تراویح کی نماز مکمل ہوئی توایک شخص عربی لباس میں تشریف لائے اورفرمایا:رسول اللہ ﷺکہاں تشریف فرماہیں؟جولوگ وہاں موجود تھے سب دوڑتےہوئے آئے اور اس شخص کو گھیرلیااور پوچھاحضرت آپ کیافرمارہے ہیں اور آپ کانام کیا ہے؟،انہوں نے فرمایا!میرانام ابوہریرہ ہے۔جناب ِ سیدالمرسلین ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھاکہ عبدالعزیز دہلوی کا قرآن ِمجید سننے چلیں گےاورپھرمجھے کسی کام کیلئے بھیج دیا اس لئے مجھے دیر ہوگئی۔یہ فرمایا اور تشریف لے گئے۔(کمالتِ عزیزی ص:19)
بیعت وخلافت: اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے بیعت وخلافت حاصل تھی۔ سترہ سال کی عمر میں والد کے جانشین مقرر ہوئے۔شاہ ولی ا للہ علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کے سوئم میں حضرت مولانا شاہ محمد فخرالدین دہلوی چشتی علیہ الرحمہ نے آپ کی دستاربندی کی اوربطوربزرگانہ ارشادفرمایا:"آپ کے والد سے بعض مقامات پر جوتسامحات واقع ہوئے ہیں انکو مٹانے کی کوشش کیجئے گا۔"(تذکرہ علمائے اہل سنت ص:140)
سیرت وخصائص: خطۂ ہند میں استاذ الاساتذہ ، امام جہابذہ ،بقیۃ السلف،حجۃ الخلف،خاتم المفسرین والمحدثین ،جامع علومِ نقلیہ وعقلیہ ،مرجع الفریقین،مجمع الطریقین،حبرِ شریعت،بحرِ طریقت۔حضرت شیخ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ۔آپ داراز قد ،لاغر جسم ،گندمی رنگ ،وجیہ شکل،خوبصورت سنت کے مطابق گول داڑھی ،اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔آپ ظاہری اورباطنی علوم کے جامع، علم وعمل کے پیکر اور زہد وتقویٰ کے سچے نمونہ تھے۔آپ نرم طبیعت ، خوش اخلاق ،اورہر چیز میں ستھرا مذاق رکھتے تھے۔ اپنے وقت کے علماء ومشائخ آپ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ تمام علوم متداولہ اور غیر متداولہ کے علاوہ بہت سے فنون عقلیہ ونقلیہ میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ حافظہ آپ کا بہت قوی تھا۔ ہزاروں احادیث اور عربی اشعار ازبر تھے۔ تعبیر الرؤیا میں بڑا ملکہ تھا۔ آپ کا وعظ بڑا پر مغزاورپراثر ہوتا تھا۔ فقہ وحدیث اور علم تفسیر میں یکتائے زمانہ تھے۔ سب لوگ کیا موافق اورکیامخالف آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ تفسیر عزیزی کے نام سے ان کی تفسیر کا کچھ حصہ آج موجود ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ اہل تشیع کے رد میں تحفہ اثناعشریہ ایسی کتاب لکھی کہ آج تک شیعہ علماء اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ تمام عمر درس وتدریس اوردینی خدمات میں گزاری۔خصوصاً حدیث کا فیض ہندوستان میں عام کیا۔ہندوستان کے اکثر محدثین کا سلسلہ اسناد آپ تک اور آپ کے ذریعے شاہ ولی اللہ تک پہنچتا ہے۔کوئی علم اور فن ایسا نہ تھا جس میں آپ کو ملکہ حاصل نہ ہو۔
مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب ۱۱۵۹ھ تا ۱۲۳۹ھ میں اس لیے کہ مجد د کی صفات ان میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ آپ بارہویں صدی کے آخر میں صاحب علم و فضل و زہد و تقویٰ مشہور دیار و اطراف تھے۔ اور تیرہویں صدی کے آغاز میں ان کا طوطی ہندوستان میں بولتا تھا اور ساری عمر دینی خدمت درس و تدریس افتاء تصنیف وعظ و سند، حمایت دین اورردمفسدین میں صرف اوقات فرماتے رہے۔ (مجدد اعظم ص:42)
رسول اللہ ﷺ حاضروناظر ہیں: شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی "ویکون الرسول علیکم شہیدا" کے تحت تفسیرعزیزی میں فرماتےہیں:
ترجمہ:یعنی رسول تم پر گواہ ہیں۔کیونکہ حضور ﷺ نورِ نبوت سے ہردین دار کے اس رتبہ پر مطلع ہیں،کہ جس تک وہ پہنچاہواہے۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے،اور اس حجاب سے بھی واقف ہیں کی جو اس کے ترقیِ درجات میں رکاوٹ ہے۔سو حضور ﷺ تمہارے گناہوں اور تمہارے ایمان کے درجات کو،اور تمہارے نیک اور بد اعمال کواور تمہاتے خلوص ونفاق کوجانتے اور پہنچانتے ہیں ۔اسی لئے حضور ﷺ کی شہادت دنیا وآخرت میں بحکمِ شرع امت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہیں۔(تفسیرِ عزیزی،پارہ 2)
نوٹ:حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی تصنیفات میں اسلام دشمن قوتیں ،روافض،خوارج،غیر مقلدین نے بہت تحریفات کردی ہیں،اور تحریفات کا سلسلہ قبلہ شاہ صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ جیساکہ بہت سی کتب میں اس بات کو علماء حق بیان کردیا ہے۔(شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان)
وصال: اسی سال کی عمر میں 9/شوال المکرم1239ھ بمطابق 5جون 1823ء بروز ہفتہ کو وصال فرمایا۔آپ کا مزار دہلی میں مرجعِ خاص وعام ہے۔