/ Thursday, 13 March,2025


حدائق بخشش   (122)





سر تا بقدم ہیں تن سلطان زمن پھول

سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھوللب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول صدقے میں تِرے باغ تو کیا، لائے ہیں بَن پھولاس غنچۂ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بَن پھول تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتاتم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول وَاللہ! جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہمانگے نہ کبھی عِطر نہ پھر چاہے دلھن پھول دل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبو نہ لطافتکیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دہن پھول شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دمِ صبحشوخانِ بہاری کے جڑاؤ ہیں کرن پھول دندان و لب و زلف و رُخِ شہ کے فدائیہیں درِّ عدن، لعلِ یمن، مشکِ ختن پھول بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میںلو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول ہوں بارِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاںللہ مِری نعش کر اے جانِ چمن پھول دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پا کااتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخِ کہن پھول دل کھول کے خوں رولے غمِ عارضِ شہ میںنکلے تو کہ۔۔۔

مزید

ہے کلام الہی میں شمس الضحے

ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضُحٰی تِرے چہرۂ نور فزا کی قسمقسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف ِ دوتا کی قسم تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تِری خلق کو حق نے جمیل کیاکوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تِرے خالقِ حُسن و ادا کی قسم وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملاکہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم ترا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے رُوحِ امیںتو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تِرامجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعامجھے جلوۂ پاکِ رسول دکھا تجھے اپنی ہی عزّ و عُلا کی قسم مِرے گرچہ گناہ ہیں حدسے سوا مگر اُن سے امید ہے تجھ سے رَجاتو رحیم ہے اُن کا کرم ہے گوا وہ کریم ہیں تیری ۔۔۔

مزید

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی! کیوں کر اتریں پار ہم کس بَلا کی مے سے ہیں سرشار ہمدن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم تم کرم سے مشتری ہر عیب کےجنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تمدوستوں کی بھی نظر میں خار ہم لغزشِ پا کا سہارا ایک تمگرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم صَدقہ اپنے بازوؤں کا المددکیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم دم قدم کی خیر اے جانِ مسیحدر پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضورجانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوندمرمٹے پیاسے ادھر سرکار ہم اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دوہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم ہاتھ اُٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریمہیں سخی کے مال میں حق دار ہم چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کیآؤ دیکھیں سیرِ طور و نار ہم ہمّت اے ضعف ان کےد ر پر گرکے ہوںبے تکلّف سایۂ دیوار ہم با عطا تم شاہ تم مختار تمبے نوا ہم زار ہم ناچار ہم تم ۔۔۔

مزید

عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاںعرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں جا بہ جا پرتو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاںدن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤںعرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں دب کے زیرِ پا نہ گنجایش سمانے کو رہیبن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاججس کی خاطر مرگئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں دو قمر دو پنجۂ خور دو ستارے دس ہلالان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں ہائے اس پتھر سے اس سینے کی قسمت پھوڑیےبے تکلّف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں تاجِ روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریںرکھتی ہیں وَاللہ! وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زلزلہ جاتا رہارکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آ گئیکر چکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں اے رؔضا طوفانِ محشر۔۔۔

مزید

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامنیا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن بہہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پرکہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن اشک بر ساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیمیا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہر پہ ہجومبیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضوراللہ اللہ حَلَبِ جیب و تتارِ دامن تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماںخلشِ دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ جیب نہیںمہرِ عارض کی شعاعیں ہیں نہ تارِ دامن اشک کہتے ہیں یہ شیدائی کی آنکھیں دھو کراے ادب گردِ نظر ہو نہ غبارِ دامن اے رؔضا! آہ وہ بلبل کہ نظر میں جس کیجلوۂ جیب گل آئے نہ بہارِ دامن حدائقِ بخشش۔۔۔

مزید

رشک قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں

رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوںذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں درِّ نجف ہوں گوہَرِ پاکِ خوشاب ہوںیعنی ترابِ رہ گزرِ بو تراب ہوں گر آنکھ ہوں تو اَبر کی چشمِ پُر آب ہوںدل ہوں تو برق کا دلِ پُر اضطراب ہوں خونیں جگر ہوں طائرِ بے آشیاں، شہا!رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں بے اصل و بے ثبات ہوں بحرِ کرم مددپروردۂ کنارِ سراب و حباب ہوں عبرت فزا ہے شرمِ گنہ سے مِرا سکوتگویا لبِ خموشِ لحد کا جواب ہوں کیوں نالہ سوز لَے کروں کیوں خونِ دل پیوںسیخِ کباب ہوں نہ میں جامِ شراب ہوں دل بستہ بے قرار جگر چاک اشک بارغنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپا ہوں سحاب ہوں دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتردفتر میں عاصیوں کے شہا! انتخاب ہوں مولیٰ دہائی نظروں سے گر کر جلا غلاماشکِ مژہ رسیدۂ چشمِ کباب ہوں مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیںدردا! میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں صَدقے ہوں اس پہ نار سے دے گا جو مخلصیبلبل نہ۔۔۔

مزید

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفے کہ یوں

  پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوںکیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں قصرِ دَنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیںرُوحِ قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیںصبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگاچھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کرمانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں دل کو ہے فکر کس طرح مُردے جِلاتے ہیں حضوراے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گلکام ہے ان کے ذِکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئےلا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رؔضا کہ یوں (حدائقِ بخشش)    ۔۔۔

مزید

پھر کے گلی گلی تباہ

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوںدل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوںسوتے ہیں ان کے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کوروئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائیں کیوں یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستمخوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھیچھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خداجس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے نا گوارچھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رُلائے کیوں یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیںمنّتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمرجو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیبمیری بلا بھی ذ۔۔۔

مزید

یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوںبیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئیپوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بَن میں ٹھگوں کے آ بسوپھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں باغِ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آجقمریِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلدسوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میںنرگسِ مست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں تو نے تو کر دیا طبیب آتشِ سینہ کا علاجآج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں فکرِ معاش بد بلا ہولِ معاد جاں گزالاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہواورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں حور جناں سِتم کیا طیبہ نظر میں پھر گیاچھیڑ کے پَردۂ حجاز دیس کی چیز ۔۔۔

مزید

اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں

اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریںجاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں اِن فتنہ ہائے حشر سے کہہ دو حذر کریںنازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کےٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں سرکار ہم کمینوں کے اَطوار پر نہ جائیںآقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیےآنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہےمشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں منزل کڑی ہے شان تبسم کرم کرےتاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں کلکِ رَؔضا ہے خنجرِ خوں خوار برق باراعدا سے کہہ دو خیر منائیں؛ نہ شر کریں   (حدائقِ بخشش)۔۔۔

مزید

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیںتیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جو تِرے در سے یار پھرتے ہیںدر بہ در یوں ہی خوار پھرتے ہیں آہ کل عیش تو کیے ہم نےآج وہ بے قرار پھرتے ہیں ان کے ایما سے دونوں باگوں پرخیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں ہر چراغِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاج دار پھرتے ہیں جان ہیں جان کیا نظر آئےکیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پرلاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں وردیاں بولتے ہیں ہرکارےپہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہممول کے عیب دار پھرتے ہیں ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاںپانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں بائیں رستے نہ جا مسافر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں جاگ سنسان بَن ہے رات آئیگرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں کوئی کیوں پوچھے تیری بات رؔضاتجھ سے کتّے ہزار پھرتے ہیں ۔۔۔

مزید

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیے ہیں

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیںجس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں جلتے بھجا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہوجب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گےاب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمھاری جانب کشتی تمھیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیے ہیں دولھا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکومشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سرد ہوگارو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رؔضا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ۔۔۔

مزید