/ Thursday, 13 March,2025


حدائق بخشش   (122)





واہ کیا جودوکرم ہےشہ بطحا تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرانہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیراتارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا فیض ہے یا شہِ تسنیم نرالا تیراآپ پیاسوں کے تجسّس میں ہے دریا تیرا اَغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرااَصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیںخسروا! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمانصاحبِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیبیعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیںکون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاساخود بجھا جائے کلیجا مِرا چھینٹا تیرا چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلافتیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیرابسچے سورج وہ دل۔۔۔

مزید

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرااونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرااَولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیراشیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتّا تیرا تو حسینی حسنی کیوں نہ محیّ الدین ہواے خضر! مجمعِ بحرین ہے چشمہ تیرا قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھےپیارا اللہ تِرا چاہنے والا تیرا مصطفیٰ کے تنِ بے سایہ کا سایہ دیکھاجس نے دیکھا مِری جاں! جلوۂ زیبا تیرا ابنِ زہرا کو مبارک ہو عَروسِ قدرتقادری پائیں تصدّق مِرے دولھا! تیرا کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابنِ ابی القاسم ہےکیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا نبوی مینھ، علوی فصل، بتولی گلشنحسنی پھول! حسینی ہے مہکنا تیرا نبوی ظل، علوی برج، بتولی منزلحسنی چاند! حسینی ہے اُجالا تیرا نبوی خور، علوی کوہ، بتولی معدنحسنی لعل حسینی ہے تجلّا تیرا بحر و بر، شہر و قریٰ، سہل و ۔۔۔

مزید

تو ہے وہ غوث کہ ہرغوث ہے شیدا تیرا

تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیراتو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبےافقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا مرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیںہاں اصیل ایک نوا سنج رہے گا تیرا جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گےسب ادب رکھتے ہیں دل میں مِرے آقا تیرا بقسم کہتے ہیں شاہانِ صریفین و حریمکہ ہوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسیقطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبے کا طوافکعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبے پہ نثارشمع اِک تو ہے کہ پروانہ ہے کعبہ تیرا شجرِ سرو سہی کس کے اُگائے تیرےمعرفت پھول سہی کس کا کِھلایا تیرا تو ہے نوشاہ براتی ہے یہ سارا گلزارلائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جوش پہ ہےبلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا گیت کلیوں کی چٹ۔۔۔

مزید

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرامر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلیڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منھ اور بھپر جاتا ہےچار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سرمکھ ہو تو اِک وار میں دو پَر کالےہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرےچاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتےیہ گھٹائیں، اُسے منظور بڑھانا تیرا وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک کا ہے سایہ تجھ پربول بالا ہے تِرا ذکر ہے اُونچا تیرا مٹ گئے مٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اَعدا تیرےنہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹےجب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا سُمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِنکارمنکرِ فضلِ حضور آہ یہ لکھا تیرا میرے سیّاف کے خنجر سے تجھے باک نہیںچیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیرا ۔۔۔

مزید

ہم خاک ہیں اورخاک ہی ماویٰ ہے ہمارا

ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہماراخاکی تو وہ آدم جَدِ اعلیٰ ہے ہمارا اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میںیہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیّدِ عالماُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا خم ہوگئی پشتِ فلک اِس طعنِ زمیں سےسُن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا اُس نے لقبِ ’’خاک‘‘ شہنشاہ سے پایاجو حیدرِ کرّار کہ مولا ہے ہمارا اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھےاِس خاک میں مدفوں شہِ بطحا ہے ہمارا ہے خاک سے تعمیرِ مزارِ شہِ کونینمعمور اِسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائیآباد رؔضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا حدائقِ بخشش  ۔۔۔

مزید

غم ہوگئے بے شمار آقا

غم ہوگئے بے شمار آقابندہ تیرے نثار آقا بگڑا جاتا ہے کھیل میراآقا آقا سنوار آقا منجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹیدے ہاتھ کہ ہوں میں پار آقا ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میریلِلّٰہ یہ بوجھ اتار آقا ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہبھاری ہے تِرا وقار آقا مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہےتم کو تو ہے اختیار آقا میں دور ہوں تم تو ہو مِرے پاسسن لو میری پکار آقا مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگاتم سا نہیں غم گُسار آقا گرداب میں پڑ گئی ہے کشتیڈوبا ڈوبا، اتار آقا تم وہ کہ کرم کو ناز تم سےمیں وہ کہ بدی کو عار آقا پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کادے دے ایسی بہار آقا جس کی مرضی خدا نہ ٹالےمیرا ہے وہ نام دار آقا ہے مُلکِ خدا پہ جس کا قبضہمیرا ہے وہ کام گار آقا سویا کیے نابکار بندےرویا کیے زار زار آقا کیا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائیں دنیا کے یہ تاج دار آقا اُن کے ادنیٰ گدا پہ مٹ جائیںایسے ایسے ہزار آقا بے ابرِ کرم کے میرے دھبّےلَا تَغْسِل۔۔۔

مزید

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کانظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا یہی ہے اصلِ عالم مادّہ ایجادِ خلقت کایہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کاخدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا گنہ مغفور، دل روشن، خنک آنکھیں، جگر ٹھنڈاتَعَالَی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا نہ رکھی گُل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقیچٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا بڑھا یہ سلسلہ رحمت کا دَورِ زلفِ والا میںتسلسل کالے کوسوں رہ گیا عصیاں کی ظلمت کا صفِ ماتم اٹھے، خالی ہو زنداں، ٹوٹیں زنجیریںگنہگارو! چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنّت کا سکھایا ہے یہ کس گستاخ نے آئینہ کو یا ربنظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حیرت کا اِدھر اُمّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پرنرالا طَور ہوگا گردشِ چشمِ شفاعت کا بڑھیں اِس درجہ موجیں کثرتِ افضالِ والا کیکنارہ مل گیا اس نہر ۔۔۔

مزید

لطف ان کا عام ہو ہی جائیگا

لطف اُن کا عام ہو ہی جائے گاشاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا جان دے دو وعدۂ دیدار پرنقد اپنا دام ہو ہی جائے گا شاد ہے فردوس یعنی ایک دنقسمتِ خدّام ہو ہی جائے گا یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاںنفس تو تو رام ہو ہی جائے گا بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیںمٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کردل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا ایک دن آواز بدلیں گے یہ سازچہچہا کہرام ہو ہی جائے گا سائلو! دامن سخی کا تھام لوکچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو!ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا مفلسو! اُن کی گلی میں جا پڑوباغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا گر یوں ہی رحمت کی تاویلیں رہیںمدح ہر الزام ہو ہی جائے گا بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دوشیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوںجیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا مِٹ کہ گر یوں ہی رہا قرضِ حیاتجان کا نیلام ہو ہی جائے گا عاقلو! ا۔۔۔

مزید

لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شد پیدا جاناجگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سَرا جانا اَلْبَحْرُ عَلَا وَالْمَوْجُ طَغٰے من بے کس و طوفاں ہوشربامنجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا یَا شَمْسُ نَظَرْتِ اِلٰی لَیْلِیْ چو بطیبہ رسی عرضے بکنیتوری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مِری شب نے نہ دن ہونا جانا لَکَ بَدْرٌ فِی الْوَجْہِ الْاَجْمَلْ خط ہالۂ مہ زلف ابرِ اجلتورے چندن چندر پرو کنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا اَنَا فِیْ عَطَشٍ وَّسَخَاکَ اَتَمّ اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرمبرسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا یَا قَافِلَتِیْ زِیْدِیْٓ اَجَلَکْ رحمے بر حسرتِ تشنہ لبکمورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا وَاھًا لِّسُوَیْعَاتٍ ذَھَبَتْ آں عہدِ حضورِ بارگہتجب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینے کا جانا اَلْقَلْبُ شَحٍ وَّالْھَمُّ شُجُوْں۔۔۔

مزید

نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا

نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھاحضورِ خاکِ مدینہ خمیدہ ہونا تھا اگر گُلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھاکنارِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا حضور اُن کے خلافِ ادب تھی بے تابیمِری اُمید تجھے آرمیدہ ہونا تھا نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھنہ اس قدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیںدِلِ حزیں تجھے اشکِ چکیدہ ہونا تھا پناہِ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتانہ صبرِِ دل کو غزالِ رمیدہ ہونا تھا یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیںعبث نہ اَوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کوسلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّم تھا وعدۂ ازلینہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہونا تھا نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طبیہ سے لاتیکہ صبحِ گُل کو گریباں دریدہ ہونا تھا ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گُل سےرگِ بہار کو نشتر رسیدہ ہونا تھا بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ن۔۔۔

مزید

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا

شورِ مہِ نَو سن کر تجھ تک میں دَواں آیاساقی میں تِرے صدقے مے دے رمضاں آیا اِس گُل کے سوا ہر پھول با گوشِ گراں آیادیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا جب بامِ تجلّی پر وہ نیّرِ جاں آیاسر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیااب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فنا ہوں گےدیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا سر اور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نورظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہےسکتے میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسیلو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والوکیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا لے طوقِ الم سے اب آزاد ہو اے قمریچٹھی لیے بخشش کی وہ سَروِ رواں آیا نامے سے رؔضا کے اب مٹ جاؤ برے کامودیکھو مِرے پَلّے پر وہ ا۔۔۔

مزید

خراب حال کیا دل کو پر ملال کیا

خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیاتمھارے کوچے سے رخصت کیا نہال کیا نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھیقضا نے لا کے قفس میں شکستہ بال کیا وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جس میں مل ڈالافغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا یہ رائے کیا تھی وہاں سے پلٹنے کی اے نفسسِتم گر الٹی چھری سے ہمیں حلال کیا یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھ کو اے ظالمچھڑا کے سنگِ درِ پاک سر و بال کیا چمن سے پھینک دیا آشیانۂ بلبلاُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھایہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا حضور اُن کے خیالِ وطن مٹانا تھاہم آپ مٹ گئے اچھا فراغِ بال کیا نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے نا کامیہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا جو دل نے مر کے جَلایا تھا منّتوں کا چراغستم کہ عرض رہِ صرصرِ زوال کیا مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایایہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا تو جس کے واسطے چ۔۔۔

مزید