بحرِ سخاوت صلّی اللہدرجِ صداقت صلّی اللہ ختمِ رسالت صلّی اللہشمسِ ہدایت صلّی اللہ لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ نورِ مجسّم صلّی اللہسیّدِ اکرم صلّی اللہسرورِ اعظم صلّی اللہشاہِ دو عالم صلّی اللہ لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ دین کی نعمت تم سے ملیقبرمیں راحت تم سے ملی حشر میں شفقت تم سے ملیدولتِ جنّت تم سے ملی لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ آپ سراپا رحمت ہیںآپ مُزَیِّلِ زحمت ہیںآپ ہی بحر ِ شفاعت ہیںمالک جود و سخاوت ہیں لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ ہم ہیں گناہوں میں سرشاروردِ زباں ہے یا غفّار ہم ہیں آپ کے اے سرکارکیجئے ہمارا بیڑا پار لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ مسلم کی ہستی معمورمسلم کی پستی کر دو دُور مسلم کے ارماں بھر پورمسلم کا دشمن ہو رنجور لا الہ الا اللہ ‘ اٰمنا بر سول اللہ دامن اپنا خالی ہے احمدﷺ اپنا وا۔۔۔
مزیدسرکارِ دو عالم شہہِ بطحا ہے ہمارامطلوبِ خدا سیّد والا ہے ہمارا یوںواجب و ممکن میں رقابت ہے نمایاں ہر ایک یہ کہتا ہے ہمارا ہے ہمارا محبوبِ خدا آپ ہیں میں آپ کا بندہ اللہ سے واللہ یہ رشتہ ہے ہمارا کیوں اس مدادِ کُل سے نہوں طالبِ امداد ماوٰی ہے ہمارا وہی ملجا ہے ہمارا احمد ﷺ کا ہمیشہ سے رضا جو رہا برہانؔ یہ فیضِ رؔضا ہے کہ وہ مولا ہے ہمارا کچھ مل ہی رےگا درِ اطہر پہ رؔضا کےبیٹھو یہاں برہانؔ وہ مولا ہے ہمارا۔۔۔
مزیدزباں پہ اس لیے صلِّ علیٰ بے اختیار آیا کہ دل میں نام پاک سیّدِ عالی وقار آیا جہاں میں جس گھڑی وہ رحمتِ پروردگار آیا غریبی جی اُٹھی، لیجیے غریبوں کا وہ یار آیا سلاطیں سر بسجدہ ہوں گے جس کے آستانے پر دو عالم کا وہ ملجا اور ماویٰ شہرِیار آیا نہ میں دوزخ سے خائف ہوں نہ میں خواہاں ہوں جنّت کا مجھے تو مل گیا سب کچھ جب آقا کا دیار آیا فدا لاکھوں خرد ایسے جنونِ ہوش پرور پر ادب سے سر بسجدہ جب کوئے یار آیا جہنّم کی تپش سے سینئہ گستاخ بریاں ہے کہ اس کو یارسول اللہ سنتے ہی بخار آیا جو اپنی معصیت کی لذّتوں میں مست و غافل تھا کھلی اُس وقت آنکھیں جس گھڑی روزِ شمار آیا سرِ محشر عجب ہنگامئہ نفسی بپا دیکھا تلاشِ یار میں ہر اک نفس با حالِ زار آیا سِوا اُن کے کِسے جراءت ہے، یااللہ کہنے کی جو آیا یارسول اللہ کی کرتا پُکار آیا پریشاں تھا کہ زیرِ عرش سجدہ میں نظر آئے بڑی مشکل سے دل کی بے قراری۔۔۔
مزیدانوار کا نزول ہے ‘ آسماں سے کیا؟ محبوب کا عُروج ہے ‘ کون و مکاں سے کیا؟ حاضر ہوئے ہیں رُوحِ امیں چھت کو توڑ کر پردے تمام کھول دیے‘ درمیاں سے کیا؟ در پر بُراق ‘ چشم بردہ‘ جبرئیل ساتھ وہ عرض کر رہے ہیں شہہ دو جہاں سے کیا؟ شاہِ زمن کو یاد کیا کردگار نے کھلتے ہیں راز سرورِ عالی مقام سے کیا؟ لے کر بُراق، چشمِ زدن میں ہَوَا ہُوا حیراں ہے وہم، کوئی گیا ہے یہاں سے کیا؟ اقصٰی میں انبیاء کی جماعت ہے منتظر اظہار تہنیت ہے، کسی میہماں سے کیا؟ صف بستہ ہیں ملائکہ اور ہِل رہے ہیں لب ذکر دُرود کرتے ہیں اپنی زباں سے کیا؟ کیوں اس درجہ آج جو عرش محوِ سرور ہے شوق لقائے سیّدِ کون و مکاں سے کیا؟ آج استواءِ عرش کی تفسیر مل گئی اب بھی تُو معترض نہ ہلے گا گماں سے کیا؟ فرمایا،جبرئیل، جو سدرہ پہ رُک گئے ’’ہوتے ہیں آپ ہم سے جُدا اب یہاں سے کیا؟‘‘ قصرِ د۔۔۔
مزیدنبی کے نور سے عالم کو جگمگانا تھا نبی کی ذات عرشِ استوا بنانا تھا مکان سے انہیں لا مکاں بنانا تھا دِکھانی شان تھی، معراج اِک بہانہ تھا نبی کے جلوہ قدرت ہیں یہ مکین و مکاں نبی کے سایۂ رحمت ہیں یہ زمین و زماں یہ آسمان یہ شمس و قمر یہ سارا جہاں سبھی نے ان کی اطاعت کا حکم مانا تھا قدم حرم سے اُٹھا بیتِ اقدس میں پہنچا عجیب لُطفِ تقریب تھا، قابَ قَوسین کا خطاب کر کے اِلیٰ عبدِہِ فَاَوحیٰ کا عظیم رفعتِ محبوب ِ حق دِکھانا تھا حبیبِ حق پہ ہوئی اسریٰ بِعبدہٖ نازل یہی وہ عبد ہیں، ہے جن کی عبدیّت کامل صفاتِ حق کے خلائق میں مظہر و حامل انہی کو خلق کا مختارِ کُل بنانا تھا رضائے احمدِ مُر سل، رضا خدا کی ہے عطا حبیب کے ہاتھوں، عطا خدا کی ہے اطاعت اُن کی ہی، بس بندگی خدا کی ہے مطاعِ خلق محمّد کا آستانا تھا وضو، بُراق، امامت رُسُل کی اقصٰی میں عروج سبعِ سَمٰوات عرش و سدرہ میں ۔۔۔
مزیداے نقشِ نعلِ پاکِ نبیﷺ، یہ تیری وجاہت کیا کہناجس نعل کی تُوتصویر بنا، اُس نعل کی عزت کیا کہنا جن پیارے پیارے قدموں کی، پاپوش بنی، باپوس رہیٹھنڈی ہوں مری آنکھیں جس سے، اُس نعل کی صورت کیا کہنا وہ بھی تھے جنہوں نے خدمت کی، اُس نعلِ پاک محمد ﷺ کیاُن روشن قسمت والوں کا، یہ تاجِ سعادت کیا کہنا ہے ناز ہمیں بھی قسمت پر، گو نعل نہیں تصویر تو ہےکافی ہے عقیدت مندوں کو، یہ پیاری نسبت کیا کہنا اقصٰی سے سما، سدرہ سے دنیٰ، پھر عبد پہ انعامِ فاوحیٰجن قدموں کو ہو یہ سیر عطا، اُن قدموں کی رفعت کیا کہنا جن قدموں نے عرش کو زینت دی ، اُن قدموں کی اس نے حفاظت کیسو جان سے میں صدقے جاؤں، اُس نعل کی قسمت کیا کہنا جن آنکھوں نے دیکھا آقا کو، جن ہونٹوں نے چوما قدموں کواُن آنکھوں کی قسمت کیا کہنا، اُن ہونٹوں کی لذّت کیا کہنا نعلین پہ قرباں ہو جاؤں، میں اُن کا غبار کہاں پاؤںاے ۔۔۔
مزیدہر مسلمان کو لازم ہے مسلماں ہونا جانِ اسلام ہے سرکار پہ ایماں ہونا پیروی جس کی بنا دیتی ہے محبوبِ خدا اُن کا ہر کام میں بس تابع فرما ہونا آپ ہی سے تو ہوئی آدمیّت کی تکمیل شرف انساں کا ہے وابستۂ داماں ہونا سرورِ دین کی غلامی نہ ہو جب تک حاصل ”آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا‘‘ اُن کے ہی نور سے پیدا ہے جہاں پھر اُن سے غیر مُمکن ہے کسی چیز کا پنہاں ہونا راستہ صدق و سعادت کا بتا دیتا ہے دل میں اخلاصِ نیّت ، ہاتھ میں قرآں ہونا یاد دل میں رہے اور اسمِ مبارک لب پر منزلِ قبر کا مشکل نہیں آساں ہونا یا نبی کہتے رہو ، پُل سے گزرتے جاؤ رَبِّ سَلِّم کی صدا ہے، نہ پریشاں ہونا زندگی، موت ، سبھی وقت وہ کام آئینگے اُن سے پھِر کر نہ کہیں حشر میں حیراں ہونا ہے شفاعت پہ نظر، گر چہ گنہگار ہیں ہم عاصیوں تم نہ کبھی اس سے ہراساں ہونا ہوتی ہے مظہرِ اخلاص، ہر اِک قربانی بہ دلِ صدق و۔۔۔
مزیدکلام اللہ شاہد ہے نبی کی شانِ رفعت پر مدارِ عالم امکان ہے بس اُن کی رحمت پر خدا کا فضل چاہے تو وسیلہ لے محمد ﷺ کا خدا کا فضل ملتا ہے محمدﷺ کی حمایت پر محبت گر خدا کی ہے تو بن بندہ محمدﷺ کا رضا اللہ کی ہے، منحصر ان کی محبت پر کیا شق چاند کو ، سورج کو پلٹا، نخل پاس آیا گواہی برمَلا دی سنگ ریزوں نے نبوّت پر اثر صدیق پر ہونے نہ پایا زہرِافعیٰ کا نثار ایسے لعاب ِ دہن کی معجز کرامت پر چلائے اُنگلیوں سے آبِ رحمت کے وہ فوارے سبیلیں کھول دیں تشنہ صحابہ کی جماعت پر یہ سُبحٰنَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبدِہٖ اشارہ ہے فضیلت آپ ہی کو ہے رسُولوں کی امامت پر چلے اقصٰی سے ہفت افلاک و عرش و سدرہ جا پہنچے دنیٰ تالا مکاں حیرت زدہ ہیں ان کی عزت پر یہاں مستانِ غفلت، خوب محوِ خوابِ غفلت ہیں وہاں رحمت کی بارش تھی گنہگارانِ امّت پر علومِ اوّلین و آخریں سے بھر دئیے دامن کھلیں کیا راز محبوب و۔۔۔
مزیدنوُرِ حُضور سے بنے، اَرض و فلک الگ الگ جِنّ و بشر جُدا جُدا، حور و مَلَک الگ الگ اصل انہی کی ذات ہے، جملہ نبی طفیل ہیں ایک سے سو دئیے جلیں سب کی چمک الگ الگ شمس و قمر کی یہ جِلا، عقل و بصر میں یہ ضیاء سب میں وہ ایک نور ہے، سب کی جھلک الگ الگ باغِ جہاں کی ہر کلی، اُن کے ہی فیض سے کِھلی رنگ ہر ایک کا ہے جُدا، سب کی مہک الگ الگ ممکن و مظہرِ وجوب، حادث و پَر توِ قِدَمْ چاروں ہی رنگ ایک میں ، جیسے دھنک الگ الگ فوقِ کمالِ عبدیّت، تحت ظِلالِ حقیقت رہتی ہے آنکھ درمیاں، دونوں پَلَک الگ الگ فرشِ زمیں پہ کیوں رہے، عرشِ بریں پہ کیوں گئے چاندنی اُن کے فیض کی، جائے چنک الگ الگ نائبِ غوث و مصطفٰیﷺ، عبد السلام اور رضا بُرہاںؔ تو اختیار کر، دونوں جھلک الگ الگ۔۔۔
مزیدسُنیں گے وہ، بپا ہے شورِ داروگیر امت میں یہ رحمت ہے کہ بے تابانہ آئیں گے قیامت میں اَماں جو عاصیوں کو مِل گئی دامانِ رحمت میں یہ جرأت ہے کہ بے باکانہ جائینگے قیامت میں وہ وَاحدْ لاَ شَریکَ لَہٗ، ہے یکتا اپنی وحدت میں محمد مصطفٰی ﷺ کو کر دیا، یکتا نبوّت میں وہاں تھا لَنْ تَرَانِیْ، رَبِّ اَرِنِیْ کی تمنّا پر نہ تھی تابِ تجلّی حضرت موسی کی قسمت میں شبِ اسریٰ تقاضہ اُدْنُ یَا اَحمد ﷺ مسلسل تھا کہ محبوبِ خدا بڑھ کر ہیں سب سے اپنی رفعت میں عمل، محبوب کو راضی کرے جو، وہ محبت ہے کہ نافرمانئ محبوب خامی ہے محبت میں نِرا ایمان کا دعویٰ تو لاحاصل ہے مومن کا دلیل ایمان کی خود کو مِٹا دینا ہے اُلفت میں کہیں مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ سے تنبیہ فرمائی نہیں کوئی شریک اس ذاتِ اقدس کا شفاعت میں وہ ربِّ العٰلمیں کے، رحمت لّلعالمیں ہو کر بتایا میں ہوں جس کا رب وہ سب ہے اُن کی رحم۔۔۔
مزیدتم سیّدِ کونین، شہہِ ہر دو سَرا ہو، اے سرورِ عالم طالب ہو خدا کے، تمہیں مطلوبِ خدا ہو، اے سرورِ عالم تم منعمِ کل، لُطف و کرم عام تمہارا، انعام تمہارا تم سیّدِ کُل، فخرِ رُسُل، شاہِ ھُدا ہو، اے سرورِ عالم گلشن کی ہر ایک شاخ میں، ہر برگ و شجر میں، ہر گُل میں ثمر میں تم حسنِ ازل، نورِ ابد،رنگِ بقا ہو، اے سرورِ عالم انگشتِ تحیّر تہہِ دندانِ حَکیماں، اعجاز نمایاں ہو نُور سے پُرجسم نہ سائے کا پتا ہو، اے سرورِ عالم سرکار بھلا کب یہ طلب دل کی ہو پُوری، حاصل ہو حضوری ہو آپ کا دربارِ مقدّس، یہ گدا ہو، اے سرورِ عالم بیماریِٔ دل کو ہے ترقّی پہ ترقّی، اب کیا کرے کوئی خدمت میں بُلا لو کہ تمہی اس کی دَوَا ہو، اے سرورِ عالم بُرہانؔ کو کب شعر و سخن کا ہے سلیقہ ، صدقہ رضا کا ہے پھر لطف کہ ہر شعر محبت سے بھرا ہو، اے سرورِ عالم۔۔۔
مزیدہُوا نورِ نبوّت جلوہ گر ایسے زمانے میں کہ ظلمت کُفر کی چھائی ہوئی تھی ہر گھرانے میں موحّد کوئی بھی اللہ اکبر کہہ نہ سکتا تھا ہر اِک مشرک فنا تھا، لات و عِزّیٰ کے منانے میں ہوئی شمعِ رسالت جب منور نورِ وحدت سے ضیاء ایمان کی جا پہنچی ہر اِک کفر خانے میں جہاں کا ذرّہ ذرّہ گونج اُُٹھا اللہ اکبر سے وہ پھیلی روشنی توحید کی سارے زمانے میں نہ بھٹکو در بدر اس سایۂ رحمت میں آجاؤ ہے ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں انہی کے پرتوِ انوار وحدت اور رحمت سے تامّل کیا؟ تجلّی گاہ، دل اپنا بنانے میں ثبات و استقامت ہی ہے سرمایہ سعادت کا یہی ہے بے بہا گوہر، محبت کے خزانے میں شریعت پر استقامت، مقصد اپنی زندگی کا ہو یہی بُرہانؔ ہے اِک مرحلہ آنے میں، جانے میں۔۔۔
مزید