حضرت بابا قدس کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ خطہ دلپذیر کشمیر کے بلند رتبہ مشائخ میں سے تھے۔ قبیلہ آہن گراں سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر مادر زاد ولی اللہ تھے۔ شیخ العارفین نورالدین ولی نے آپ کی پیدائش سے ایک سو سال پہلے آپ کی پیدائش کی خوشخبری دی اور آپ کے مراتب و کمالات کا اظہار کردیا تھا۔ آپ سے بچپن میں ہی ذوق خدا پرستی کے احوال نمایاں ہونے لگے تھے۔ اور طریقہ ریشاں پر عمل درآمد کرتے تھے۔ ریشی سلسلہ طریقت کشمیر میں بڑا مقبول تھا۔ یہ سلسلہ کبرویہ سلسلۂ طریقت کی ایک شاخ ہے۔ کشمیری زبان میں ریش عابد و زاہد انسان کو کہتے ہیں۔ آپ کو اویسی فیضان حاصل تھا۔ بابا قدس بھی اویسی ہی تھے۔ ظاہری طور پر آپ کو کسی بزرگ سے تعلق نہیں تھا۔ ساری رات قیام کرتے عبادات میں مشغول رہتے خلق محمدی کا عمدہ نمونہ تھے۔ آپ کا دسترخوان مہمان نوازی کے لیے کھلا رہتا تھا۔ آپ ابھی بچے ہی تھے۔ کہ آپ کے گھر ایک مہمان آگئے۔ آپ کی۔۔۔
مزید
حضرت مولانا فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ نام ونسب:اسم گرامی:مولانا فضل امام خیرآبادی۔لقب: بانیِ سلسلہ خیرآبادیت،امام المعقولات۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:مولانا فضل امام خیرآبادی بن شیخ محمد ارشد بن حافظ محمد صالح بن مولانا عبدالواجد بن عبدالماجد بن قاضی صدرالدین بن قاضی اسماعیل ہرگامی بن قاضی عماد بدایونی بن شیخ ارزانی بدایونی بن شیخ منور بن شیخ خطیرالملک بن شیخ سالار شام بن شیخ وجیہ الملک بن شیخ بہاؤالدین ب شیر الملک شاہ ایرانی بن شاہ عطاء الملک بن ملک بادشاہ بن حاکم بن عادل بن تائروں بن جرجیس بن احمد نامدار بن محمد شہریار بن محمد عثمان بن دامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہم اجمعین۔(باغیِ ہندوستان:66)۔اس طرح 33واسطوں سےسلسلہ نسب حضرت خلیفہ ثانی تک پہنچتاہے۔ علامہ فضل امام خیرآبادیکے ۔۔۔
مزید
علم و عرفان، زہدہ و تقویٰ، ریاضت و مجاہدہ میں مقامِ بلند و کراماتِ ارجمند رکھتے تھے۔ اپنے والدِ ماجد حضرت جان محمد حضوری قدس سرہٗ کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت پائی تھی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی اُنہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ تمام عمر ارشاد و ہدایت میں گزاری۔ ایک خلق کثیر آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہُوئی۔ آباؤ اجداد کے فیضان کے مظہر تھے۔ آپ کے حلقۂ ارادت میں جو بھی داخل ہوتا جلدی اوجِ طریقت پر پہنچ کر مرتبۂ حضوری پر فائز ہو جاتا تھا۔ ۲۱۔شوال بروز جمعہ ۱۱۰۰ھ میں بعہدِ اورنگ زیب عالمگیر وفات پائی۔ اپنے پدرِ بزرگوار کے مزار کے ساتھ ہی مدفون ہوئے۔ چوں از دنیا بفر دوسِ بریں رفت یکے تاریخِ وصلش بحر فیض است ۱۱۰۰ھ جنابِ سرورِ دیں شیخ حق بیں دگر سردار سرور سیّد الدین ۱۱۰۰ھ ۔۔۔
مزید
حضرت سید عبدالوہاب حضوری علیہ الرحمۃ اپنے عہد کے مشائخ وصوفیا میں ممتاز الوقت تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد سے پائی تھی۔ سلسلہ قادریہ میں بھی انہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ علم و فضل، عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ اور درس و تدریس میں مقامِ بلند رکھتے تھے۔ تادمِ زیست لاہور میں ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ایک خلقِِِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے اخذِ فیض کیا۔ آپ کی ذاتِ بابرکت تک یہ فیضا ن جاری رہا کہ جو آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا وہ جلدی ہی اوجِ طریقت میں مرتبۂ حضوری حاصل کرلیتا۔ بروز جمعہ ۲۱۔شوال ۱۱۳۱ھ میں وفات پائی۔ مقبرہ اپنے جد امجد جان محمد حضوری کے متصل ہے۔ اِن کے بعد اِن کے فرزند سیّد عبداللہ[1] شاہ سجادہ نشین ہوئے۔ [1]۔ پھر آپ کے فرزند سید نور شاہ اور ان کے فرزند سیّد غلام محی الدین یکے بعد دیگرے سجادہ نشین ہوئے۔ سید غلام محی الدین کے دو فرزند تھے: سید احم۔۔۔
مزید
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ قصوری علیہ الرحمۃ۔۔۔
مزید
حضرت مولانا حکیم محمد ابراہیم لاکھو علیہ الرحمۃ حکیم مولانا حافظ محمد ابراہم بن محمد عباس لاکھو (گوٹھ مٹھا خان جو کھیہ تحصیل دولت پور صفن ضلع نواب شاہ) تقریباً ۱۲۴۳ھ کو تولد ہوئے۔ میاں محمد ابراہم کو بچپن میں چہرے پر ماتا ہوئی جس کے سبب آنکھوں کی روشنی ختم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بچپن ہی میں والدین انتقال کر گئے اس طرح سخت تکالیف میں پرورش پائی۔ کفالت کا ذمہ آپ کے چچا نے اپنے سر اٹھایا۔ تعلیم و تربیت: گوٹھ دودوبگھیہ میں آخوند ہارون کے پاس قرآن شریف ناظرہ پڑھا ۔ اس کے بعد مورو میں نامور فقیہ عالم حضرت علامہ مفتی قاضی عبدالرئوف کے مدرسہ میں داخل ہو کر سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد فارسی عربی کی کتابیں پڑھ کر درس نظامی مکمل کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی درسگاہ میں طب میں تحصیل کی ۔ آنکھیں نہ ہونے کی وجہ سے رب کریم نے انہیں آنکھوں والی توانائی دماغ میںودیعت فرمائ۔۔۔
مزید