بن ابی ثعلبہ: ان سے یہ حدیث مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہروز کی مذی کے سیلاب کے بارے میں فرمایا کہ پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے تو اسے روک کر باقی پانی نچلے کھیت کو دیا جائے ان سے (مالک بن ابی ثعلبہ) سے محمد بن اسحاق نے روایت کی ہے۔ جعفر کا قول ہے کہ اس کی روایت یحییٰ بن یونس نے کی۔ یحییٰ کا قول ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ کیونکہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ جناب مالک کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی تھی، کیونکہ ابن اسحاق کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں، زیادہ سے زیادہ اس کی ملاقات تابعین سے منقول ہے۔ ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن الحارث: حماد بن زید نے ایوب سے اُس نے ابوقلابہ سے اس نے مالک بن الحارث سے روایت کی کہ ہم چھ آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں ۲۰ دین قیام کیا، آپ بڑے رحم دل تھے، فرمایا جب تم اپنے اپنے علاقوں کو واپس جاؤ تو اپنے لوگوں کو پڑھاؤ اور انھیں ادائے نماز کا مقررہ اوقات پر حکم دو، اس صحابی کے والد کا نام الحویرث ہے چنانچہ ہم اسے بعد میں بیان کریں گے، لیکن ابوموسیٰ نے اس کی تخریج اسی مقام پر کی ہے۔ ان کا صحیح نام الحویرث ہے۔۔۔۔
مزید
بن ذی حمایہ: ان سے مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر سے واپسی پر فرمایا کہ ہمیں فوری طور پر قوم کی بیٹیوں کے پاس لے چلو، بقول جعفر یحییٰ بن یونس نے ان کی تخریج کی ہے اور یہ حدیث مرسل ہے اور وہ ابن یزید بن ذی حمایہ ہیں، جنھوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی اور ابن یزید سے ابوبکر بن ادبی جمریم نے ان سے روایت کی اور ابوشرحبیل مالک بن ذی حمایہ نے معاویہ بن ابوسفیان سے روایت کی اور ان سے صفوان بن عمرو نے روایت کی اور احمد بن محمد بن عیسیٰ نے تاریخ الحمصین میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن ذی حمایہ: ان سے مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر سے واپسی پر فرمایا کہ ہمیں فوری طور پر قوم کی بیٹیوں کے پاس لے چلو، بقول جعفر یحییٰ بن یونس نے ان کی تخریج کی ہے اور یہ حدیث مرسل ہے اور وہ ابن یزید بن ذی حمایہ ہیں، جنھوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی اور ابن یزید سے ابوبکر بن ادبی جمریم نے ان سے روایت کی اور ابوشرحبیل مالک بن ذی حمایہ نے معاویہ بن ابوسفیان سے روایت کی اور ان سے صفوان بن عمرو نے روایت کی اور احمد بن محمد بن عیسیٰ نے تاریخ الحمصین میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔۔۔۔
مزید
زمانۂ جاہلیت کے آدمی ہیں، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات ثابت نہیں جناب سفیان ثوری نے اسماعیل بن سمیع الحنفی سے اور اس نے مالک بن عمیر سے (بقول سفیان بن ثوری وہ زمانۂ جاہلیت کے آدمی ہیں) یوں روایت بیان کی کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ حضور نے ناگواری کا اظہار نہ کیا۔ بعد میں ایک اور آدمی آیا، اس نے بیان کیا یا رسول اللہ! میرے باپ نے آپ کی شان میں گستاخی کی، مگر میں نے اسے قتل نہیں کیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی کسی ناگواری کا اظہار نہ فرمایا۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔ بہ قولِ ابو عمر یہ روایت حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔۔۔۔
مزید
زمانۂ جاہلیت کے آدمی ہیں، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات ثابت نہیں جناب سفیان ثوری نے اسماعیل بن سمیع الحنفی سے اور اس نے مالک بن عمیر سے (بقول سفیان بن ثوری وہ زمانۂ جاہلیت کے آدمی ہیں) یوں روایت بیان کی کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ حضور نے ناگواری کا اظہار نہ کیا۔ بعد میں ایک اور آدمی آیا، اس نے بیان کیا یا رسول اللہ! میرے باپ نے آپ کی شان میں گستاخی کی، مگر میں نے اسے قتل نہیں کیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی کسی ناگواری کا اظہار نہ فرمایا۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔ بہ قولِ ابو عمر یہ روایت حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔۔۔۔
مزید
بن حجش الاسدی: ہم نے ان کا نسب ان کے والد کے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ یہ حرب بن اُمّیہ کے حلیف تھے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت ابی خنیس تھی اور کنیّت ابو عبد اللہ تھی انھوں نے اپنے والد اور دو چچاؤں کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ وہاں سے واپس پر اُنھوں نے والد کے ساتھ ہجرت کی اُنھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسّر آئی نیز اُنھوں نے حضور سے روایت بھی کی ہم نے اس کتاب میں ان کے چچا اور پھوپھیوں کا ذکر کیا ہے۔ جب عبد اللہ بن حجش احد کی طرف روانہ ہوئے، تو اُنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے محمد کا وصی مقرر کیا اور بیٹے کے لیے خیبر میں کُچھ مال خریدا، اور مدینہ کے چوک دقیق میں اس کے لیے ایک مکان بھی خریدا۔ واقدی لکھتا ہے کہ محمد کی پیدائش ہجرت سے پانچ برس پہلے ہوئی تھی اور محمد بن طلحہ بن عبد اللہ! محمد بن عبد اللہ کی پھوپھی کا بیٹا تھا کیونکہ ۔۔۔
مزید
بن سلام حارث الاسرائیلی: آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تھے انصار کے حلیف تھے اور ان کے والد یہود کے جلیل القدر عالم تھے۔ ان سے منقول ہے کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے فرمایا اللہ نے تمہاری طہارت کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے کیا تم مجھے اس کے بارے میں بتاؤ گے۔ انھوں نے عرض کیا ہمیں تو ریت میں پانی سے استنجا کا حکم دیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن سلام مسلمان ہوگئے تھے، چنانچہ ہم ان کا تذکرہ کر آئے ہیں۔ ان کے لڑکے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا موقعہ ملا اور اور انھوں نے حضور سے روایت بھی کی۔ اس کی تینوں نے تخریج کی ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن عثان: یہ محمد بن ابو بکر الصدیق ہیں۔ ان کی والدہ کا نام اسماء بنتِ عمیس تھا۔ ہم ان کا نسب ان کے والد کے ترجمے میں لکھ آئے تھے۔ ان کی ولادت حجۃ الوداع کے موقعہ پر ذو الحلیفہ میں ذو العقدہ کی ۲۵؍ تاریخ کو ہوئی۔ ان کی والدہ رفعِ حاجت کے لیے نکلی تھیں کہ وضع حمل ہوگیا۔ حضرت ابو بکر نے رسولِ کریم سے اس باب میں شرعی حکم دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہانےکے بعد تہلیل و تسبیح کی اجازت ہے، لیکن جب تک وہ پاک نہ ہو، کعبے کا طواف نہ کرے۔ ابو الحرم مکی بن ریان بن شبۃ الخوی نے باسنادہ یحییٰ بن یحییٰ سے اس نے مالک سے اس نے عبد الرحمان بن قاسم سے، اس نے اپنے باپ سے اس نے اسماء بنتِ سے روایت کی کہ میرے بطن سے محمد بن ابو بکر صحرا میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابو بکر سے حضور اکرم نے فرمایا کہ غسل کے بعد تہلیل و تسبیح پڑھ لیا کرے۔ حضرت عائشہ نے ان کی کنیت ابو القاسم رک۔۔۔
مزید
بن اسود بن حارثہ بن نضلہ بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب القرشی العدوی: یہ اوران کے بھائی مطیع ان ستّر آدمیوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے بنوعدی میں سے ہجرت کی تھی۔ ان کی ماں عجماء عامر بن فضل بن عفیف بن کلیب بن حبشیہ بن سلول کی بیٹی تھی۔ دونوں بھائیوں کو ابن العجماء کہتے تھے۔ بیعۃ رضوان میں موجود تھے اور جنگ مؤتہ میں شریک ہُوئے تھے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن مندہ نے ان کے نسب کے بارے میں دوسروں سے اختلاف کیا ہے: مسعود بن اسود بن عبد الاسد بن بلال بن عمر۔ مگر یہ نسب بنو مخزوم کا ہے اس لیے یہ غلط ہے۔ اسی ترجمے میں ابن مندہ نے باسنادہ ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ بنو عدی بن کعب سے، مسعود بن اسود جنگ مؤتہ میں موجود تھے۔ ان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ مگر آخر الذکر روایت درست ہے۔ ابو جعفر نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن ا۔۔۔
مزید