ان کا نام مسعود تھا اور مسعود بن عبد الرحمان بن مثنی بن مطاع بن عیسی بن مطاع لخمی ان کی اولاد سے تھے۔ انہوں نے اپنے والد مثنی سے انہوں نے طبرانی سے روایت کی۔ یہ ابو سعد سمعانی اور ابو احمد عسکری کا قول ہے۔ ابو احمد کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا۔ تم اپنی قوم کے مطاع (امیر) ہو۔ تم ان میں واپس جاؤ کہ جو بھی میرے علم کے نیچے پناہ لے گا۔ وہ عذاب سے بچ جائے گا۔ اُنہوں نے قوم کو یہ بات بتائی تو وہ سب جمع ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کی۔ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ ۔۔۔
مزید
عکامس السلمی: یہ بنو سلیم بن منصور سے تھے۔ کوفی شمار ہوتے ہیں۔ ان سے ابو اسحاق سبیعی نے۔ انہوں نے ابراہیم بن محمد فقیہہ وغیرہ سے، انہوں نے باسناد ہم محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے بندار سے، انہوں نے مؤمل سے انہوں نے سفیان بن ابو اسحاق سے انہوں نے مطر بن عکامس سے روایت کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب خدا چاہتا ہے کہ فلاں آدمی، فلاں ملک میں جا مرے تو وہ کسی غرض کے لیے وہاں چلا جاتا ہے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن ہلال بن نبی صباح بن لکینر بن افصی بن عبد القیس اور صباح جو بکر کے بھائی تھے۔ ابو سلمہ منفری نے مطر بن عبد الرحمٰن سے روایت کی، کہ انہیں بنو عبد القیس کی ایک عورت نے جس کا نام ام ابان بنتِ زارع تھا، اپنے دادا زارع بن عامر سے روایت سنائی کہ وہ حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اپنے اخیافی بھائی کے ساتھ، جس کا نام مطر بن ہلال تھا، روانہ ہوئے، تا آنکہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچ گئے۔ پھر انہوں نے حدیث بیان کی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد طباسی نے مطر سے انہوں نے امام ابان سے، انہوں نے دادا سے روایت کی کہ ان کے دادا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے گھر سے نکلے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک دیوانہ بیٹا تھا جسے وہ حضور کے پاس دعا کے لیے لائے تھے۔ ۔۔۔
مزید
بن جندلۃ السلمی: زید القمی نے محمد بن سیرین سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ بنو سلیم کے ایک بدو نے جس کا نام مطرح بن جندلہ تھا، حضور اکرم سے دریافت کیا، یا رسول اللہ! آپ کی امّت کو امم سابقہ پر کتنی فضیلت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جتنی فضیلت کہ خالق کو مخلوق پر حاصل ہے۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ہم پیشتر ازیں اس حدیث کا ذکر مفرح بن جدالہ کے ترجمے میں کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک دوسری کی تصحیف معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ ۔۔۔
مزید
بن بہصل بن کعب بن قشع بن دلف بن اہضم بن عبد اللہ بن حرماز: ان کا نام حارث بن مالک بن عمرو بن تمیم ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم کا یہی قول ہے۔ ابو عمر نے ان کا نسب یوں بیان کیا ہے: مطرف بن بہصل مازنی جن کا تعلق بنو مازن بن عمرو بن تمیم سے ہے۔ ان کے حالات اعشی مازنی کے قصے میں مذکور ہیں۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی، لیکن کوئی روایت ان سے مذکور نہیں۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن عبیدۃ البلوی: یہ صاحب مصری شمار ہوتے ہیں۔ انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان سے ربیعہ بن لقیط نے روایت کی، کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسلام میں جو فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا، اس کے شر سے بچنے کے لیے مَیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کو گھر سے نکلا۔ اُن کے دروازے پر مطعم بن عبیدہ سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھا، کس سے مِلنے جا رہے ہو۔ مَیں نے جواب دیا۔ مَیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے اس شخص سے ملنے آیا ہوں، تاکہ اس وقت تک ان کا ساتھ دوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اختلاف کو اتفاق میں بدل دے۔ مطعم نے کہا، خدا تیری امداد کرے، پھر کہا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی کہ خواہ مجھ پر ایک نکٹا حبشی حاکم بنا دیا جائے۔ مَیں اس کی بات سنوں اور اطاعت کروں۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن ازہر بن عبد عوف بن عبد بن حارث بن زہرۃ القرشی: ان کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام عبد الرحمن اور دوسرے کا طلیب تھا۔ سابقون اولوں سے تھے اور ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے اور دونوں وہاں فوت ہوگئے تھے اور جناب مطلب کے ساتھ ان کی بیوی رملہ بنتِ ابو عوف بن سبیرہ سہمیہ نے بھی ہجرت کی تھی۔ وہاں ان کے ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام عبد اللہ تھا۔ کہتے ہیں۔ عبد اللہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اسلام میں باپ کی میراث پائی۔ ابو عمر اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن حنطب بن حارث بن عبید بن مخزوم مخزومی قرشی: ان کی والدہ حفصہ بنتِ مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھی۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابو بکر اور عمر کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی کان اور آنکھ کی نسبت سر سے ہوتی ہے، لیکن اس کا اسناد قوی نہیں ہے۔ انہوں نے یہی حدیث اپنے والد حنطب کو بھی سنائی۔ ان سے ایک اور حدیث بایں انداز مذکور ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ غیبت کیا ہے آپ نے فرمایا۔ غیبت اسے کہتے ہیں کہ جس آدمی کے بارے میں تو جو بات بیان کرتا ہے، اسے سن کر وہ بُرا منائے۔ مَیں نے کہا، اگر وہ بات سچی ہو تو پھر؟ آپ نے فرمایا۔ اگر تو جھوٹ کہے گا۔ تو وہ بہتان ہوگی۔ انہی مطلب کی اولاد سے حکم بن مطلب بن عبد اللہ بن مطلب بن حنطب اپنے عہد کے بہت بڑے سخی اور کریم النفس تھے۔ آخری عمر میں پارس۔۔۔
مزید
بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف: ایک روایت میں ان کا نام عبد المطلب مذکور ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لڑکے تھے۔ زبیر کہتے ہیں کہ اچھے خاصے مرد تھے۔ انہوں نے دمشق میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ایک روایت میں ہے: کہ ۲۹ ہجری میں افریقہ جانے کے ارادے سے مصر آئے تھے۔ عبد الوہاب بن ابی حبہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے: انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے محمد بن جعفر سے انہوں نے شعبہ سے اُنہوں نے عبد ربہ بن سعید سے اُنہوں نے انس بن ابی انس سے، اُنہوں نے عبد اللہ بن نافع بن عمیا سے اُنہوں نے عبد اللہ بن حارث سے اُنہوں نے مطلب بن ربیعہ سے روایت کی، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو دو رکعتوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے مجھے ہر دو رکعت کے بعد تشہد، خشوع، خضوع کے علاوہ اپنے ہاتھوں کو دعا کےلیے پھیلان۔۔۔
مزید
بن ابی وداعہ: ابو وداعہ کا نام حارث بن صبیرہ بن سعید بن سعد بن سہم بن عمرو بن حصیص قرشی سہمی تھا۔ اور ان کی ماں کا نام اروی بنت حارث بن عبد المطلب بن ہاشم تھا۔ فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔ پھر کوفہ آگئے اور وہاں سے پھر مدینہ چلے گئے اور ان کے والد ابو وداعہ بدر کے دن گرفتار ہوگئے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے قابو رکھنا۔ اس کا ایک لڑکا ذہین و فطین ہے۔ چنانچہ مطلب بن ابی وداعہ زرِ فدیہ لے کر چپکے چپکے باپ کو چھڑانے کے لیے مدینے گئےا ور چار ہزار درہم ادا کر کے باپ کو چھڑا لائے۔ یہ پہلے قیدی تھے جس نے زرِ فدیہ ادا کیا۔ چنانچہ قریش نے اسے جلد بازی اور ادائیگی قرضہ پر ملامت کی۔ مطلب نے کہا۔ مَیں اپنے باپ کو قید میں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس کے بعد لوگ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اپنے اپنے قیدیوں کو چھڑا لائے۔ مطلب سے ان کے بیٹوں کثیر او۔۔۔
مزید