ہفتہ , 29 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Saturday, 20 December,2025

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ

ابوثعلبہ خشنی،ان کے اور ان کے والد کے نام کے بارے میں بڑااختلاف ہے،کسی روایت میں ان کانام جرہم ،کسی میں جرثوم بن ناشب،کسی میں ابن ناشم،کسی میں ابن ناشر،کسی میں عمروبن جرثوم، کسی میں لاشر بن جرہم،کسی میں اسود بن جرہم اور کسی میں ابن جرثومہ مذکور ہے،لیکن ان کی نسبت اور صحبت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں،اور خشینہ کا نام وائل بن نمر بن ویرہ بن ثعلب بن حلوان تھا،اور نمر بنو قضاعہ سے کلب بن ویرہ کا بھائی تھا،اوراپنی کنیت کی وجہ سے مشہور تھے،انہوں نے حضورِاکرم سے بیعت رضوان کی تھی اور امیر معاویہ کے عہد میں شام میں فوت ہوئے،ایک روایت میں ہے،کہ عبدالملک بن مروان کے زمانۂ خلافت میں فوت ہوئے۔ ابنِ کلبی لکھتے ہیں کہ لاشربن جرہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت رضوان کی،اور آپ نے خیبر کے خراج سے ان کے لئے پیداوار کا ایک حِصہ مقرر ۔۔۔

مزید

ابوثعلبہ ثقفی رضی اللہ عنہ

ابوثعلبہ ثقفی،وہ کردم کے عمزاد تھے اور حدیث کردم میں ان کا ذکر آیا ہے،جعفر بن عمرو بن امیہ نے ابراہیم بن عمر سے روایت کی،کہ انہوں نے کردم بن قیس سے سُنا،کہ ایک دفعہ وہ اپنے عمزاد ابو ثعلبہ کے ساتھ تھا،اور دن سخت گرم تھا،میرے پاس جوتے تھے،اوروہ ننگے پاؤں تھا،اس نے مجھ سے جوتے مانگے،میں اس شرط پر رضامند ہوا،کہ وہ اپنی لڑکی میرے نکاح میں دیدے،کافی پس وپیش کے بعد وہ اس پر رضامند ہوا،جب واپس گھر پہنچے ،تواس نے جوتے واپس کر دئیے،لیکن لڑکی کے نکاح سے منکر ہوگیا،میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے صورتحال بیان کی،تو آپ نے اس شرط کو باطل فرمادیا،کہ اس میں میرے لئے کو ئی بھلائی نہیں ہے،تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

ابوثعلبہ اشجعی رضی اللہ عنہ

ابوثعلبہ اشجعی،بقول امام بخاری انہیں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی،یہ حجازی شمار ہوتے ہیں،ابوالفرج بن ابوالرجاء نے اذناً باسنادہ ابن ابی عاصم سے ،انہوں نے حسن بن علی سے،انہوں نے حماد بن مسعدہ سے،انہوں نے ابن جریج سے،انہوں نے ابوالزبیر سے،انہوں نے عمر بن بہان سے،انہوں نے ابوثعلبہ اشجعی سے روایت کی،انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا،یارسول اللہ !قبولِ اسلام کے بعد میرے دو بیٹے فوت ہو چکے ہیں،حضورِاکرم نے فرمایا، جسے ایسی صورت پیش آئے،اللہ تعالیٰ اسے اسکے بچوں پر رحم فرماکر جنّت عطاکرتا ہے۔ ۔۔۔

مزید

ابوثورالفہمی رضی اللہ عنہ

ابوثورالفہمی،فہم بن عمرو بن قیس بن عیلان سے تھے،انہیں صحبت میسر آئی ،لیکن ان کا اور ان کے والدکا نام نہیں معلوم ہوسکا،اہل مِصران کی حدیث سے متعارف ہیں،عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ابوزکریا یحییٰ بن اسحاق بن کنانہ سے،انہوں نے ابن الہیعہ سے(ح)میرے والد نے اسحاق بن عیسیٰ سے،انہوں نے ابن لہیعہ سے، انہوں نے یزید بن عمرو المعافری سے ،انہوں نے ابوثور فہمی سےروایت کی کہ ہم حضورِ اکرم کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے،کہ معافر قبیلے کے کپڑے حضورِاکرم کے سامنے لائے گئے،ابوسفیان نے کہا،لعنت ہو ان کپڑوں پر،اوران کے بننے والوں پر،حضوراکرم نے فرمایا،ایسامت کہو،یہ میرے لوگ ہیں اورمیں ان کا ہوں،تینوں نے ان کا ذکرکیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

ابوصالح مولی ام ہانی رضی اللہ عنہ

ابوصالح مولی ام ہانی،حسن بن سفیان نے انہیں صحابہ میں شمارکیاہے،ابوموسیٰ نے اذناً حسن بن احمد سے،انہوں نے احمد بن عبداللہ بن احمدسے،انہوں نے ابوعمروبن حمدان سےمانہوں نے حسن بن سفیان سے،انہوں نے سعید ذوئب سے،انہوں نے عبدالصمدسے،انہوں نے رزین سے،انہوں نے ثابت سے،انہوں نے ابوصالح مولی ام ہانی سے روایت کی کہ انہیں ام ہانی دخترابوطالب نے آزادکردیا،میں ہرمہینے یا دومہینے بعدان سے ملنے جاتاتھا،ایک دفعہ ان کے پاس مَیں بیٹھاہواتھا،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،آپ کو دیکھتے ہی ام ہانی نے کہا۔ اے ابنِ عم!میرے اچھے اعمال مجھے بھاری معلوم ہوتے ہیں،نیزمیری قوتِ عمل کمزورہوگئی ہے، کیاکوئی بچاؤ کی صورت ہے،آپ نےفرمایا،ام ہانی خیرکے کئی دروازے ہیں،اگرتوسودفعہ الحمد پڑھے،توتیرایہ عمل سوغلام آزاد کرنے کےبرابرہوگا،اگرسوباراللہ اکبرکہےتواس کاثواب اتنا ہوگا،جتناکہ ایک ایسے آدمی کوجوسوگھوڑے زین۔۔۔

مزید

ابوسُفیان بن محصن رضی اللہ عنہ

ابوسفیان بن محصن،انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا،ان سے عدی مولی ام قیس نے روایت کی،احمد بن حازم نے صالح مولی التؤامہ سے ،انہوں نے عدی مولی ام قیس سے ، انہوں نےسفیان بن ابومحصن سے روایت کی،کہ ہم نے یوم النحر کو حضورِاکرم کے ساتھ حمزۃ العقبہ پرکنکریاں پھینکیں اورپھرہم نے کرتے پہن لئے،ابن مندہ اورابونعیم نے ان کا ذکرکیا ہے۔ ابونعیم لکھتے ہیں،ابن مندہ نے ذکرکیا ہے،لیکن ابوسنان نام لکھاہےاورابوسفیان کو غلط کہاہےاور باسنادہ ابراہیم بن محمد اسلمی سے،انہوں نے صالح سے،انہوں نے عدی سے،انہوں نے ابوسنان سے حدیث رمی بیان کی۔ ۔۔۔

مزید

حضرت ابو سفیان بن حرب

 حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نام ونسب: پورا نام صخر بن حرب بن اميہ بن عبد شمس۔اموی قریشی الكنانی۔ لقب: ابو حنظلہ تاريخ ولات:63 قبل ہجرت / 560ء (عام الفيل سے دس سال قبل) مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ سیرت وخصائص: قبیلہ قریش کی اموی شاخ کے ایک سردار تھے۔ مدت تک اسلام کی مخالفت کرتے رہے۔ غزوہ بدر اورغزوہ احد کے معرکوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف جنگ لڑی۔ پھر ایک لشکر جرار لے کر مدینے پر چڑھائی کی مگر مسلمانوں نے مدینے کے گرد خندق کھود کر حملہ آوروں کے عزائم ناکام بنادیا۔ ابوسفیان نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کی۔ مسلمانوں نے مکے پر چڑھائی کی تو ابوسفیان نے شہر نبی اکرمﷺ کے حوالے کردیا۔ نبی اکرم ﷺنے مکے میں داخل ہوتے وقت اعلان فرمایا کہ جو لوگ ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے، ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ ابوسفیان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ فتح مکہ ہوجانے کے بعد حلقہ بگ۔۔۔

مزید

ابوسُلمی رضی اللہ عنہ

ابوسُلمی،حضورِاکرم سے ملاقات کی،مگرآپ سے صرف ایک بات انہیں یادرہ گئی ہے،کہ ایک بار حضوراکرم نے نمازصبح میں سورۂ اَذَاالشَّمسُ کُوِّرَت پڑھی،ان سے سری بن یحییٰ نے روایت کی۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں،کہ میں نے اپنے والدکوسنا،وہ کہتے تھے،کہ میں نے حسان بن عبداللہ سے پوچھا،کیا سری بن یحییٰ کی ملاقات ابوسلمی سے ہوئی تھی،انہوں نے کہا،ہاں ،ابوعمرنے ان کاذکرکیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

ابوفسیلہ رضی اللہ عنہ

ابوفسیلہ،محمدبن عمرالمدینی نے کتابتہً حسن بن احمدبن عبداللہ سے،انہوں نے محمد بن محمد سے، انہوں نےمحمد بن عبداللہ حضری سے،انہوں نے ابوبکربن ابوشیبہ سے،انہوں نے زیاد بن ربیع یحمدی سے،انہوں نے عبادبن کبیرشامی سےاورانہوں نے اپنے قبیلے کی ایک عورت سے جس کا نام فسیلہ تھا،اپنے والد سےسُنا،کہ انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلّم سے دریافت کیا،یارسول اللہ!کیااپنی قوم سے محبت کرناعصبیت ہے،آپ نے فرمایا،نہیں،بلکہ اپنی قوم کی بے انصافی پر مدد کرناعصبیت ہے۔ ان کے نام کے بارے میں ایک روایت حصیلہ ہے اوران کے والد کانام واپلہ بن اسقع تھا،ابوموسیٰ اور ابونعیم نے ان کا ذکرکیاہے،ابن اثیرلکھتے ہیں،کہ بلاشبہ ان کے والد کانام واثلہ بن اسقع تھا۔ ۔۔۔

مزید

ابواوفی رضی اللہ عنہ

ابواوفی،عبداللہ اور زید ان کے دو بیٹے تھے،ان کا نام علقمہ بن خالد بن حارث بن ابی اسید بن رفاعہ بن ثعلبہ بن ہوازن بن اسلم بن اقصی بن حارثہ تھا،انہیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی،واقدی نے ان کا ذکر کیا ہے،یہ وہ صاحب ہیں،جو حضورِ اکرم کی خدمت میں صدقات لے کر آئے تھے،توحضور اکرم نے دعافرمائی تھی،اے اللہ !تو ابواوفی کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید