سیف اللہ المسلول معین الحق شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:حضرت شاہ فضلِ رسول۔لقب:سیف اللہ المسلول،معین الحق ۔حضرت شاہ آلِ احمداچھےمیاں رحمہ اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق آپ کا نام فضلِ رسول رکھا گیا ۔سلسلۂ نسب اسطرح ہے:حضرت شاہ فضل ِرسول بدایونی بن عین الحق حضرت شاہ عبد المجید بد ایونی،بن شاہ عبد الحمید بدایونی۔علیہم الرحمہ۔آپ کاسلسلہ نسب والدِ ماجد کی طرف سے جامع القرآن حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے رئیس المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما تک پہنچتا ہے۔
تاریخ ِولادت: آپ کی ولادت باسعادت ماہِ صفر المظفر 1213ھ،مطابق1798ءکوبدایوں(انڈیا) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم:صرف و نحوکی ابتدائی تعلیم جدا مجد اور والد ماجد سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاپیادہ لکھنؤ کا سفر کیا اور فرنگی محل لکھنؤ میں بحر العلوم قدس سرہ کے جلیل القدر شاگرد مولانا نور الحق قدس سرہ (متوفی 1338ھ)کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے چار سال کے قلیل عرصے میں تمام علوم و فنون کی تکمیل کرلی ۔حکیم ببر علی موہانی رحمہ اللہ تعالٰی سے فنِ طب کی تکمیل کی۔
بیعت وخلافت:آپ والدِ گرامی عین الحق شاہ عبد المجید بد ایونی کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے۔انہوں نےتمام سلاسل میں اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی۔درگاہِ غوثیہ کےنقیب الاشراف حضرت سید علی نےآپ کواجازت وخلافت مرحمت فرمائی۔
سیرت وخصائص:جامع المنقولات والمعقولات،جامع الشریعت والطریقت،امام اہلسنت،حامیِ سنت،ماحیِ بدعت،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،معین الحق والدین،محسن الاسلام والمسلمین،سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ معقول و منقول کے امام اور شریعت و طریقت کے شیخِ کامل تھے۔ بےحساب افرادآپ سے فیض یاب ہوئے۔آپ نے اپنے دورمیں نمایاں طور پر احقاقِ حق کا فریضہ ادا کیا ۔ بے شمار سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کا تحفظ فرمایا اور لاتعداد افراد کو راہِ راست دکھائی۔مولانا کی ذات والاصفات مرجع انام تھی، ان کے پاس کوئی علاج معالجے کے لیے آتا اور کوئی مسائلِ شریعت دریافت کرنے حاضر ہوتا۔ کوئی ظاہری علوم کی گتھیاں سلجھانے کے لیے شرفِ باریابی حاصل کرتا، توکوئی باطنی علوم کے عقدے حل کرانے کی غرض سے دامِن عقیدت و اکرتا۔
غرض و ہ علم و فضل کے نیر اعظم اور شریعت و طریقت کے سنگم تھےجہاں سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے تھے۔ وہ ایک شمع انجمن تھے، جن سےہرشخص اپنے ظرف اور ضرورت کے مطابق کسبِ ضیاء کرتا تھا۔ حرمین شریفین کی زیارت سےمستفیض ہوئے،اورخوب ریاضتیں کیں:مولوی محمد رضی الدین بدایونی لکھتے ہیں:"جو کچھ ریاضتیں آپ نے ان اماکنِ متبرکہ میں ادا فرمائیں۔ بجز قدمءاولیاء کرام کے دوسرے سے مسموع نہ ہوئیں۔ حرمین شریفین کی راہ میں پیادہ سفر اور یتیموں مسکینوں کے آرام پہنچانے میں آپ نے ہرقسم کی تکلیف گوارا کی"۔(نورنورچہرے،ص،299)
ردوہابیہ: حضرت شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ کی ساری زندگی دینِ متین کی خدمت میں گزری۔اس وقت "فتنۂ وہابیہ "نیانیاظاہرہواتھا،اورمولوی اسمعیل دہلوی کی "تفویۃ الایمان"کےذریعے ہندوستان میں اس فرقہ ضالہ کابیج بویاجارہاتھا۔وہابی خذلھم اللہ تعالی سرعام انبیاءِ کرام اوراولیاءعظام کی توہین کرتےتھے۔اس وقت ہندوستان میں آپ ہی کی ذات گرامی تھی جس نےاس فتنےکاسدباب کیا۔ہرجگہ ان کاتعاقب کیا۔
آپ فرماتے ہیں:"میں قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک میں مراقبہ کررہاتھا۔ حالتِ مراقبہ میں دیکھا کہ حضور خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دستِ مبارک میں اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف حدنظرتک کتاب پرکتاب نظرآتی ہے۔میں نے عرض کیا کہ اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی ہے؟ ارشاد مبارک ہواکہ تم یہ بار اپنے ذمے لے کر شیاطینِ وہابیہ کا قلع قمع کردو۔آپنے مراقبہ سے سر اٹھایا اور اسی ہفتہ میں کتاب مستطاب "بوارقِ محمدیہ" تالیف فرمائی۔"(ایضاً،203)
حضرت شاہ فضل رسول قادری علیہ الرحمہ نےمولوی اسمٰعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کوقریب سےدیکھا۔ ان کےعقائداورعزائم کابنظرِ غائرجائزہ لیا۔ ان کےطورو طریق کوبخوبی جانچا اور پھر ضمیر کی آواز کو بلاکم و کاست تحریر کردیا۔ فرماتے ہیں:"فاحشہ رنڈیوں کی بھی پیش کش (نذر)لینے میں تامل نہ تھا، یہاں تک کہ جو فرنگیوں کے گھروں میں تھیں۔ چناں چہ بنارس کا ریذیڈنٹ اگنسن بروک نام، اس کے گھر میں ایک فاحشہ تھی، بڑی اختیار والی اور صاحبِ مقدور مرید ہوئی اور دس ہزار روپے نذرپیش کیے اور اس کے مرید ہونے سے ریذیڈنٹ نے بہت خاطرداری کی کہ سید صاحب نے اس کو اپنی بیٹی فرمایا تھا، راقم (حضرت شاہ فضل رسول)بھی وہاں موجود تھا"۔(سیف الجبار،ص،73)
مولوی اسمٰعیل دہلوی کےبارےمیں امام المحدثین کی رائے: امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نےتقویۃ الایمان پراظہارِ ناراضگی فرمایا۔حضرت مولانا شاہ محمد فاخر الہ آبادی قدس سرہٗ فرماتے تھے: کہ جب اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان لکھی اور سارے جہان کو مشرک و کافر بنانا شروع کیا تو اس وقت حضرت شاہ عبدالعزیزصاحب آنکھوں سےمعذوراور بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ افسوس کے ساتھ فرمایا: کہ میں تو بالکل ضعیف ہوگیا ہوں، آنکھوں سے بھی معذور ہوں، ورنہ اس کتاب اور اس عقیدہ فاسد کا رد بھی تحفہ اثنا عشریہ کی طرح لکھتا کہ لوگ دیکھتے ۔(نورنورچہرے،ص،311)
ابنِ عبدالوہاب اپنوں کی نظرمیں:محمدبن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں ان کےشیخ الاسلام مولوی حسین احمد مدنی کی رائے قابلِ ملاحظہ ہے۔لکھتے ہیں:صاحبو! محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتدائے تیرھویں صدی میں نجدی عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و جماعت سے قتل و قتال کیا اور ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا۔ ان کے اموال کو غنیمت کا مال او رحلال سمجھاکیا۔ان کےقتل کوباعثِ ثواب و رحمت شمار کرتا رہا ۔ اہل حرمین کو خصوصاً اور اہل حجاز کو عموماً اس نے تکالیفِ شاقہ پہنچائیں۔ سلفِ صالحین اور اکابرین کی شان میں نہایت گستاخی و بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔ بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کے تکالیفِ شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار، فاسق و فاجر شخص تھا۔ (الشہاب الثاقب،ص،50)
دربار رسالتﷺ میں آپ کی قبولیت:جب آپ کی عمر 77 برس ہوئی، تو آپ کے شانوں کے درمیان پشت پر زخم نمودار ہوا۔ ایک دن قاضی شمس الاسلام عباسی، جو آپ کے والد ماجد کے مرید تھے، عیادت کے لیے حاضر تھے، آپ نے فرمایا:"قاضی صاحب! بمقتضائے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ آج آپ سے کہتا ہوں کہ میں دربارِ نبوت سے استیصالِ فرقۂ وہابیہ کے لیے مامور کیا گیا۔ الحمد اللہ! کہ فرقہ باطلہ اسمٰعیلیہ واسحاقیہ کا رد پورے طور ہوچکا، دربار نبوت میں میری یہ سعی قبول ہوچکی ، میرے دل میں اب کوئی آرزو باقی نہ رہی، میں اس دارِ فانی سے جانے والا ہوں۔ (ایضاً،ص،313)
آپ نے خدمتِ خلق، عبادت و ریاضت، درس و تدریس، وغط و تبلیغ کے مشاغل کے باوجود تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ آپ نے اعتقادیات، درسیات ،طب،تصوف او ر فقہ میں قابلِ قدر کتابیں تصنف فرمائیں ہیں۔علماء اہلسنت کوان کتب کالازمی مطالعہ کرناچاہئے۔
تاریخِ وصال: 2/جمادی الاخریٰ 1289ھ،مطابق8/اگست1872ء،بروز جمعرات ظہر کے وقت اسمِ ذات کے ذکر خفی میں مصروف تھے کہ اچانک دو دفعہ بلند آواز سے اللہ اللہ کہا اور ساتھ ہی روح قفسِ عنصری سے اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کر گئی۔درگاہِ قادری(بدایوں) میں آرامگاہ ہے۔
نوٹ!سیف اللہ المسلول شاہ فضلِ رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ فضلِ حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات قدسی صفات کی وجہ سے اہل ِباطل کےمقابلہ میں اہل ِحق (اہل ِسنت وجماعت)ماضی قریب میں "بد ایونی"اور "خیر آبادی"کےلقب سے پکارے جاتے تھےاور فی زمانہ امام اہل ِسنت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے(پاک وہندمیں)اہلِ حق(اہل ِسنت وجماعت)"بریلوی"کے لقب سے پکارے اور جانے جاتے ہیں۔جیساکہ قرونِ اولیٰ میں معتزلہ،مجسمہ وغیرہ کے مقابلہ میں اہلِ حق اپنے آپکو"اشعری"ماتریدی"کہتے تھے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علماء اہلسنت۔نورنورچہرے۔