زباں پراس لئے صلّ علیٰ بے اختیار آیا کہ دل میں نام پاک سیّدِعالی وقار آیا تصور میں مِرے محبوب کا پیارا دیار آیا جہاں میں جس گھڑی وہ رحمتِ پروردگار آیا منادی، مژدۂ آمد، دوعالم میں پکار آیا غریبی جی اُٹھی، لیجئے غریبوں کا وہ ہار آیا زمین سے عرش تک اِک دھوم ہے تشریف لانے پر سلاطیں سر بسجدہ ہوں گے جس کے آستانے پر دوعالم کا وہ ملجا اور ماویٰ شہرِ یار آیا نہ میں دوزخ سے خائف ہوں نہ خواہاں ہوں میں جنّت کا سِوا محبوب کہ کیا چاہے، دیوانہ محبّت کا اُسے تو مِل گیا سب کچھ جو مولا کا دیار آیا مٹائے ہوش بھی اُن کی محبت میں فنا ہو کر فِدا لاکھوں خرد ایسے جنونِ ہوش پرور پر کہ فوراً سر بسجدہ ہوگیا جب کوئے یارآیا جہنّم کی تپش سے سینۂ گُستاخ بریاں ہے عداوت سے وہ سوزاں اور ہیبت سے وہ لرزاں ہے کہ اُس کو ’’یا رسول اللہ ‘‘سُنتے ہی بُخار آیا تمیزِ خیر و شر میں نفس امّارہ جو ح۔۔۔
مزیدبہت بے بس بہت بے کس ہیں اب ہم نہیں ہے آج، اپنا کوئی ہمدم عدو ہے برسرِ آزار ہر دم مدد لِللہ اے سرکارِ عالم! زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم زبس ناکارہ و بدکار ہیں ہم سراپا معصیت کردار ہیں ہم بد ہیں ذلیل و خوار ہیں ہم مگر بندے تِرے سرکار ہیں ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم نہیں دُنیا میں اب کوئی ہمارا ہمیں ہے آپ ہی کا اِک سہارا تحمّل کا نہیں اب ہم میں یارا ہمارے آپ ہیں اور آپ کے ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم یہ مانا ہم بہت سرکش ہیں مولا تِرے احکام کی کچھ کی نہ پروا ہوئے اپنے ہی کرتوتوں سے رسوا خود اپنے آپ سے بیزار ہیں ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم مسلماں ہر جگہ مشقِ ستم ہیں مسلماں ہر جگہ وقفِ اَلم ہیں مسلماں ہر جگہ مصروفِ غم ہیں تِرے بندوں پہ یہ بیداد پیہم! زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم۔۔۔
مزیدسرکار کرم کے صدقہ میں خواجہ کا روضہ دیکھ لیا خواجہ کی غریب نوازی کا دربار میں نقشہ دیکھ لیا سرکار میں جھولی پھیلا کر، مانگوں تو کیا کچھ پاؤ گے اللہ کے فضل و رحمت سے دیتے ہیں خواجہ دیکھ لیا جو لے کے تمنّا آتا ہے، وہ لے کے مُرادیں جاتا ہے اندازِ طلب بھی دیکھ لیا، اندازِ عطا بھی دیکھ لیا رحمت کے خزانے بھی بے حد، خواجہ کی سخاوت بھی بے حد دیتے تو نہیں دیکھا ہے مگر، دامن جو بھرا تھا دیکھ لیا دربار معینی سے بے شک، محروم رہا جو مُنکر تھا کتنے ہی تمنّا والوں کو واصل بہ تمنّا دیکھ لیا مسکین و تونگر سب یکساں، جذبات سے کھنچتے آتے ہیں اِک قبر میں سونے والے کا، انسانوں پہ قبضہ دیکھ لیا عشّاق کا مجمع روضہ پر، پروانوں سا اُمڈا آتا ہے کیا شمع جمالِ انور میں سرکار کا روضہ دیکھ لیا جس نور کا جلوہ کعبہ اور طیبہ کو منوّر کرتا ہے بغداد میں اور اجمیر میں بھی اُس نور کا جلوہ دیکھ لیا جتنے بھی ول۔۔۔
مزیدخدا ہے تمہارا ولی غوثِ اعظمہوئے تم خدا کے ولی غوثِ اعظم حبیب خدا کے ہو نورِ نظر تم تمام اولیاء کے ولی غوثِ اعظم مِلی تم کو قدرت، کرامت کی کنجی ولایت کی شاہنشہی غوثِ اعظم ہوئے نگہتوں سے معطّر دو عالم گُلِ بوستانِ نبی غوثِ اعظم تناول سے جس مُرغ کو بخشی عزّت عطا کی اُسے زندگی غوثِ اعظم لیا دوش پر اولیاء نے بہ عزّت تمہارا قدم سیّدی غوثِ اعظم گناہوں کی وسعت، محیط دو عالم ہر اک شے پہ ہے آگہی غوثِ اعظم تمہیں جس نے ’’یا غوث‘‘ کہہ کر پُکارا مُراد اسکی پوری ہوئی غوثِ اعظم تمہارے جو خدّام ہیں چاہتے ہیں وسیلہ تمہارا سبھی غوثِ اعظم با خلاصِ دل تم کہو تو اَغثِنِیْ نہ فرمائیں گے رد کبھی غوثِ اعظم سروں پر غلاموں کے سایہ فِگن ہے تمہارا کرم ہر گھڑی غوثِ اعظم میسّر ہو مجھ کو تمہارے کرم سے در پاک کی حاضری غوثِ اعظم مِرے چشم و لب ہوں تمہارا ہو روضہ یہ ہے آرزوئے۔۔۔
مزیدغوث کے در کو چھوڑ کر غیر کے در پہ جائیں کیوں ٹکڑوں پہ جن کے ہے پلا اُن کا دیانہ کھائے کیوں تیری گلی کا سنگ بھلا، راہ سے تیری جائے کیوں ناز کا ہے پلا ہُوا، جھڑکیاں سب کی کھائے کیوں یوں تو عطا پہ ہے عطا، یاں ہے سِوا خطا کے کیا تیرا کرم ہے قادرا، پھر مجھے شرم آئے کیوں تیرا کرم ہے موجزن، نار سے پھر ہو کیوں محن تیرے ہی لُطف سے ہے امن، آگ ہمیں جلائے کیوں ہم تو تِرے فقیر ہیں غیر کا خوف کیوں کریں بیٹھے ہیں ٹھنڈے سائے میں کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں سایۂ مصطفٰے ہیں آپ ، رحمتِ کبریا ہیں آپ سب پر ہے آپ کا کرم، ہم کو بھلا بھلائے کیوں فیضِ رضاؔ سے دوستو، بُرہاںؔ کی نظم کو سُنو سینے پہ دشمنوں کے آج، برچھی سے چبھ نہ جائے کیوں۔۔۔
مزیدرجب کی نو (۹) ہے اور خواجہ کا یہ دربارِ عالی ہے یہاں کی ہر ادا وقتِ سحر ہی نرالی ہے نگہ عشّاق کی روضہ کے دروازوں سے وابستہ تلاوت میں کوئی ضربات اللہ ہُو میں وارفتہ کہیں تو نعت کی مجلس میں زور و شور صلُّوا سے کہیں قوال کے نغموں میں پیدا شور ہا ہُو ہے کہیں گانے کا قوّالیوں کا شور برپا ہے کوئی سر دُھن رہا ہے وجد میں کوئی تھرکتا ہے سما ں پیدا کیا وجد آفریں نغمے نے سازوں کے تو حال و قال میں ہُو حق ہیں نعرے نعرہ بازوں کے کمر جنبش میں ہے اور دونوں ہاتھوں میں ہے پیچ و خم جُھکا ہے سر زباں پر لفظ یا خواجہ ہیں آنکھیں نم اذانِ فجر نے ساری فضا ہی کو بدل ڈالا نہ وہ نغمے نہ قوالی نہ اب وہ شور باقی تھا وہ ہیبت چھائی توحید و رسالت کی ہر اِک دل پر صدا تکبیر و توحید و صلوٰۃ آئی ہر اِک لب پر کھڑے ہیں دست بستہ صف بہ صف رب کی عبادت میں نہیں اس وقت کچھ بھی فرق غُربت میں امارت میں وہ ہے رحمت کی با۔۔۔
مزیدتضمین برسلام اعلیٰ حضرت مظہرِ سرِ وحدت پہ لاکھوں سلام منبع ہر فضیلت پہ لاکھوں سلام صدرِ بدرِ نبوت پہ لاکھوں سلام مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام تاج دارِ شفاعت پہ روشن درود اس سراپا ہدایت پہ روشن درود بحرِ جود و سخاوت پہ روشن درود مہرِ چرخِ نبوت پہ روشن درود گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام باعثِ خلق کا سرورِ محترم مرکزِ علم و اخلاق و حلم و حکم سیدِ انبیا سرورِ باغِ کرم شہر یار اِرم تاج دارِ حرم نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام دونوں عالم کے آقاﷺ پہ دائم درود بے پناہوں کے ماویٰ پہ دائم درود شافع روزِ عقبیٰ پہ دائم درود شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود نوشہ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام جانِ صدیق ہے مار سے بے خطر عصرِ حیدر ادا ہوگئی وقت پر چاند کٹ کر ہوا اِک اِدھر اِک اُدھر صاحبِ رجعت شمس و شق القمر نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام جھک گئے جس کے قدموں پہ شاہوں کے ۔۔۔
مزید