/ Friday, 14 March,2025


برہانِ ملت حضرت مولانا برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ   (43)





بجز محبوب رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو

بجز محبوبِ رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو جب اُن کے ہو چکے پھر ہم کو حاجت غیر کی کیوں ہو؟ ہم اُن کے وہ ہمارے، روزِ محشر سلطنت اُن کی جو اُن کا ہے وہ اپنا ہے، تو جنّت غیر کی کیوں ہو؟ جنہیں حاصل ہُوا اعزاز، کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتْ کا ہدایت کے لیے اُن کی سماجت غیر سے کیوں ہو؟ زمانہ سارا پل رہا ہے جب اُن کے صدقے میں تو اَب اُن کے سَوا بُرہانؔ کو نسبت غیر کی کیوں ہو؟۔۔۔

مزید

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری دو عالم پہ بالا ہے امّت تمہاری شہیدٌ علیٰ النّاس اُمّت تمہاری وَلٰکِنْ کَفَانَا شہادت تمہاری نہ پایا کسی نے نہ پائے گا کوئی یہ رُتبہ تمہارا یہ عزّت تمہاری اسے پھر جہنّم سے کیا ہو علاقہ ہے جس دل میں سرکار اُلفت تمہاری سبھی چاہتے ہیں وسیلہ تمہارا بھلا کس کو چھوڑے شفاعت تمہاری اُنہیں بے کَسی میں جس نے پُکارا بڑھی، کھولے آغوش رحمت تمہاری عنایت تو اعدا پہ بھی ہو رہی ہے غلاموں کو کیا چھوڑے رافت تمہاری اگرچہ معاصی میں سرشار ہیں ہم مگر ہے تو آخر شفاعت تمہاری کرو خادمِ شرع بُرہاںؔ کو اپنے کہ خدمت خدا کی ہے خدمت تمہاری طریقہ کرو اپنے آباء کا روشن اسی میں ہے بُرہانؔ عزّت تمہاری۔۔۔

مزید

ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی

فرقت کی آگ ہے مرے دل پر لگی ہوئی کیوں کر دکھاؤں تمہیں، اندر لگی ہوئی تم کو عطا ہوئے ہیں علومِ ازل ابد تم جانتے ہو کیا ہے اور کیوں کر لگی ہوئی کوئی چلے بہشت میں، دوزخ میں کوئی جائے ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی فرماتے ہونگے امّتِ عاصی سے بار بار ’’دوڑو سبیل ہے، لبِ کوثر لگی ہوئی‘‘ اے دل اگر زیارتِ احمدﷺ نصیب ہو بُجھ جائے پھر تو سینے کے اندر لگی ہوئی پیارے تری عُلُوِّ مراتب کی تیز دھار برچھی وہابیوں کے جگر پر لگی ہوئی بُرہانؔ تھام دامنِ احمد رضا کو تُو ہے اس کی ڈور سوئے پیمبر لگی ہوئی۔۔۔

مزید

گیسوئے ہستی پریشاں کل بھی تھا اور آج بھی

روضۂ اطہر کا ارماں کل بھی تھا اور آج بھی عاصیوں بخشش کا ساماں، کل بھی تھا اور آج بھی مثل میثاق ربویّت ازل سے تا ابد عظمتِ احمدﷺ کا پیماں، کل بھی تھا اور آج بھی ابتداء عالم کی جس کے نُورِ اقدس سے ہوئی نُور پاک ان کا درخشاں، کل بھی تھا اور آج بھی رحمت للعالمیں فرما کے واضح کردیا سارا عالم زیرِ فرما، کل بھی تھا اور آج بھی ظلِّ انوار احمدﷺ کی ضیائیں واہ واہ! ذرّہ ذرّہ جن سے تاباں، کل بھی تھا اور آج بھی کہہ کے مَنَّ اللہ ہم پر نعمتیں کردیں تمام دائمی اکرام منّاں، کل بھی تھا اور آج بھی دینِ مرضی، حبِّ حق، فتح و شفاعت یومِ حشر رحمتِ عالم کا احساں، کل بھی تھا اور آج بھی یادِ رب کے اور ذکرِ رب کے ساتھ، اُن کا ذکر بھی مومنوں کا عین ایماں، کل بھی تھا اور آج بھی دیکھ لی معراج میں، قدرت بشر کی دیکھ لی ہر مسلماں اُس پہ نازاں، کل بھی تھا اور آج بھی فرض ہر اطاعت، عبادت، ذکر  میں، ۔۔۔

مزید

عرش پر کُرسی مِلی جس کو خدا کو سامنے

کیسی عظمت ہے محمدﷺ کی خدا کے سامنے ہیچ ہیں سب عظمتیں خیر الوریٰ کے سامنے اِک خدا کا نور تھا اور کن کے فرمانے کے بعد پرتوِ نورِ خدا تھا بس خدا کے سامنے نور اگلوں کے جو چمکے وہ چمک کر رہ گئے مطلعِ انوارِ حق، شمس الضحیٰ کے سامنے طُور پر موسیٰ گِرے لائے تجلّی کی نہ تاب اور محبوبِ خدا ہیں خُود خدا کے سامنے نوح و ابراہیم و عیسیٰ دے چکے سب کو جواب اب چلے ہیں شافعِ روزِ جزا کے سامنے حشر کے دن نفسی نفسی کہہ رہا ہے ہر نبی رحمۃ للعالمیں ہیں کبریا کے سامنے کیا قلم تعریف لکھ سکتا ہے اس کی لوح پر عرش پر کُرسی مِلی جس کو خدا کے سامنے آفتاب روزِ محشر کا ہمیں کیا خوف ہو سایۂ دامانِ محبوبِ خدا کے سامنے بابِ خیبر ایک تِنکے کی طرح سے اُڑ گیا حضرتِ خیبر شکن، شیرِ خدا کے سامنے غوثِ اعظم کو دیا وہ مرتبہ اللہ نے اولیاء ہیں سَرنگوں غوث الوریٰ کے سامنے سر پہ ہے بار گنہہ حاضر ہیں پیشِ ذوالجلال ۔۔۔

مزید

تیری گلی کا منگتا بے نان رہ نہ جائے

آقا تمہاری ذات کا دھیان رہ نہ جائے مدّت کا ایک دل میں ارماں رہ نہ جائے ہوکر تِرے بھکاری کیوں جائیں غیر کے دَر اَوروں کا ہم پہ کوئی احسان نہ جائے ہے دعوتِ شفاعت محشر میں عاصیوں کو محروم اس سے کوئی مہمان رہ نہ جائے بحرِ کرم سے آقا سارے گناہ دھو دو ہم عاصیوں پہ داغِ عصیاں نہ جائے سرکار محشر میں جب بخشائیں عاصیوں کو رکھنا خیال اتنا بُرہان نہ جائے بُرہانؔ کھڑا ہے در پر دامن رضا کا تھامے تیری گلی کا منگتا بے نان نہ جائے۔۔۔

مزید

عید ولادت

وہ سرکار عالی مقام آرہا ہے شہنشاہِ ذی اقتدار آرہا ہے جو باعث ہے تخلیقِ اَرض و سما کا وہ محبوبِ پروردِگار آرہا ہے ہے جس کی اطاعت خدا کی اطاعت وہ آقائے بااختیار آرہا ہے لباسِ بشر میں وہ نُورِ مجسّم بصد شانِ عزّو وقار آرہا ہے بشیر و نذیر و امینِ دو عالم شہِ دین بصد افتخار آرہا ہے زمین و فلک جس کے زیرِ نگیں ہیں خدائی کا وہ تاجدار آرہا ہے غریبی مسرّت سے اِترا رہی ہے غریبی کا والی و یار آرہا ہے چمکنے لگے ہیں یتیموں کے چہرے یتیمی کا اِک غمگسار آرہا ہے ہر اک ذرّے نے جس کی تعظیم کی ہے وہ سلطان عظمت مدار آرہا ہے اُٹھیں اُس کی تعظیم کو اہلِ سنّت ہدایت کا اِک شاہکار آرہا ہے صلاۃ و سلام اُس کی خدمت میں بُرہاںؔ جو محبوبِ پروردگار آرہا ہے۔۔۔

مزید

نبی کا دیا سب خدا کا دیا ہے

تِرا نور عالم میں جلوہ نُما ہے اسی سے زمین و فلک منجلا ہے نجوم و کواکب میں شمس و قمر میں اُسی کی تجلّی، اُسی کی ضیاء ہے نبی اپنی امّت کے سردار تھے سب ہمارا نبی سیّد الانبیاء ہے رسالت رسولوں کی تھی ایک حد تک ہمارے نبی کی رسالت سِوا ہے نبی ہوتے آئے یکے بعد دیگر ہمارا نبی خاتم الانبیاء ہے ہم ہی ایک کیا سارا عالم ہے اُن کا خُدا کے وہ ہیں اور اُن کا خدا ہے مِلا، مِل رہا ہے، ملے گا اُن ہی سے نبی کا دیا، سب خدا کا دیا ہے چَلے سیر سبعِ سمٰوات کرلی گئے عرش تک، کون اُس جا گیا ہے؟ وَاَوْحٰی فَاَوْحٰی فَقَدْ جَاءَ رَجْعاً فقط ایک ہی آن میں سب ہُوا ہے وَرُوْحٰی رِیَاحْ الصَّبَا عِنْدَ رَوْضٍ فَقَدْ لِیْ لِمَنْ فِیْہِ جلوہ نما ہے وَاَنْتَ عَزِیْز ٌ حَرِیْصٌ عَلَیْنَا رَؤُوفُ رَحِیْمٌ کَرِیْمٌ عطا ہے تِرے نام پر ہند میں جی رہے ہی مگر دل مدینہ میں اپنا پڑا ہے مئے کو جِلا، مار، اپ۔۔۔

مزید

تم لاکھ بشر اپنے کو کہو

اے سر و گلستانِ عالم، لاریب تو جانِ عالم ہے اے بزمِ عقیدت کے دولہا تجھ سے ہی شانِ عالم ہے جب آپ نہ تھے عالم بھی نہ تھا، خالق اِک کنزِ مخفی تھا جب آپ آئے عالم یہ ہوا! تو نور ظہوورِ عالم تھا اے شاہِ زمیں اے شاہِ زماں اے باعثِ خلق کون و مکاں کس چیز پہ تیرا حکم نہیں تو شاہِ شہانِ عالم ہے اے مرکز نقطۂ نونِ کُن، تجھ سے ہے محیط کون و مکاں رحمت کے خطوطِ واصل سے پیوستہ کمانِ عالم ہے اے مظہرِ اوّل ہرِّ خفی، اے منبعِ آخر، نورِ ہُدٰی ہے تو ہی پنہاں، اور تو ہی عیاں تجھ سے ہی تو شانِ عالم ہے ناموس خدائے واحد نے ، توحید کا ڈنکا پیٹ دیا کعبہ کے بُتوں کے گرنے سے غوغائے بُتانِ عالم ہے بُستانِ عرب، بستانِ عجم، بُستانِ زمیں، بُستانِ زمن ریحان و بہار ہر بستاں، تو جان جہانِ عالم ہے انساں میں مافوقُ الفطرت دیکھی نہ کبھی ایسی قدرت تم لاکھ بشر اپنے کو کہو، کچھ اور گُمانِ عالم ہے بندوں پہ نہ ہو کی۔۔۔

مزید

نور باطن دیکھنے کو قلب روشن چاہیئے

سعئِ قرب حق میں گر فوزاً عظیماً چاہیئے اتباعِ سید ِ اکرم، یقیناً چاہیئے کلمہ گوئی تو فقط اسلام کو کافی نہیں حبِّ احمد دل سے قولاً اور فعلاً چاہیئے تجھ کو اے زاہد مبارک قصرِ جنّت کا خیال بس ہمیں سرکار کے سائے میں مسکن چاہیئے آرزوئے اَحْسَنُ اللہ لَہٗ رِزْقاً تو ہے جذبۂ اخلاص بھی بروجہہِ احسن چاہیئے یوں تو ہر اِک تن، تن آسانی کا جویا ہے مگر راہِ مولا میں جو کام آجائے، وہ تن چاہیئے اُلفتِ سرکار کا دعویٰ تو کرتے ہیں سبھی کرسے سب قربان وہ صدّیق کا من چاہیئے دولت دنیا کبھی دنیا ہی میں بےکار ہے قبر میں اور حشر میں کام آئے وہ دھن چاہیئے جس کو دیکھو حشر کی شدّت سے بچنے کے لیے کہہ رہا ہے اُن کی رحمت ، اُن کا دامن چاہیئے سایۂ دامانِ رحمت یوں تو مل سکتا نہیں سنّیت کا خوب گہرا رنگ و روغن چاہیئے ہے جہنّم ’’ذَاتَ لَھَبٍ‘‘ کی صدا ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد۔۔۔

مزید

کعبہ بھی اس کا کعبہ ہے

سرکار کرم، آقائے نعم جو آپ کا بندہ ہوجائے دنیا کے جو بندہ پرور ہیں، وہ ان کا آقا ہو جائے ایمان کی دولت، دولت ہے، جو حشر میں کام آئیگی سرکار کی مہرِ محبت سے معمور خزانہ ہو جائے قبروں کی بھیانک تاریکی، محشر کے تپتے سُورج کا کیا حزن ہو اور کیوں خوف رہے جب لُطف تمہارا ہو جائے جب نور نے ان کو نور کیا اور ہاتھ میں ان کے نور دیا پھر نور سے کیا شے مخفی ہو، جب نور کا جلوہ ہو جائے یہ کتنا آسان نسخہ ہے اللہ کو راضی کرنے کا بس آپ کا بندہ بن جائے، محبوبِ خدا کا ہو جائے اے ربِّ دو عالم جلِّ علا، اے رحمتِ عالم صلِّ علیٰ طوفانِ حوادث سے باہر مُسلم کا سفینہ ہو جائے محبوب کی گلیاں دل میں بسیں جنّت کی تمنّا کون کرے اے کاش محبت کے صدقے دیدارِ مدینہ ہو جائے اِک چشمِ زدن میں عصیاں کا سب انبار فنا ہو جائے گا گر حشر کی نفسی نفسی میں اِک اُن کا اشارہ ہو جائے آنکھیں تو لگی ہیں کعبہ پر دل روضۂ اقد۔۔۔

مزید

محبت میں ایسے قدم ڈگمگائے

خدا جس کو محبوب اپنا بنائے یہ بندہ بھی ان سے محبت جتائے نہ کام آئے گا صرف اللہ پہ ایماں وہ مومن ہے جو اُن پہ ایماں لائے اُسی نورِ رحمت نے دنیا میں آ کر نشاں ظلمتِ کُفر کے سب مٹائے نہیں اپنی اولاد سے کس کو اُلفت نہیں کون، دل جس کا دولت پہ آئے کسوٹی مگر سچّے ایماں کی یہ ہے ہر ایک چیز پر اُن کا حبّ غالب آئے   مناہی سے بچ کر اوامر پہ عامل خُدا کا جو ہو کے خودی کو مٹائے بڑا متقی وہ جو ہے اُن کا تابع محبت کا مرکز وہی بن کے آئے خدا کو جو چاہے وہ ہو جائے اُن کا خدا اس کو محبوب اپنا بنائے نہیں فرق محبوب اور محبّ میں کہ محبوب خود ہی محبت جتائے محبت کی معراج اسریٰ میں دیکھو کہ حیرت زدہ ہیں سب اپنے پرائے یہ اسریٰ کے دولھا کی ہے شانِ عظمت کہ جبریل ہیں اپنے سر کو جُھکائے وہ برق بُرّاق اِک ادنیٰ تڑپ میں حرم اور اقصیٰ سے سدرہ در آئے وہاں قاب و قوسین اور لامکاں سے ندا بار ب۔۔۔

مزید