/ Friday, 14 March,2025


قدم قدم سجدے   (209)





عِشق خیر الانام رکھتے ہی

عِشق خیر الانام رکھتے ہیں ایک کیف ِ دوام رکھتے ہیں   دِردِ لَب ان کا نام رکھتے ہیں خود پہ دوزخ حرام رکھتے ہیں   کتنا محفوظ ہے سکوں اس کا وہ جسے شاد کام رکھتے ہیں   اُن کے مستوں کا کیف کیا کہنا مے کدہ ساز جام رکھتے ہیں   باد شاہوں کو جو نصیب نہیں ہم نبی کے غُلام رکھتے ہیں   اسی گلی کے گدائے خاک نشیں اِک نمایاں مقام رکھتے ہیں   ذِکرِ سرور کے فیض سے باقی ہم بھی عالم میں نام رکھتے ہیں   جگمگاتے ہیں عاشقان ِ رسول دل میں ماہِ تمام رکھتے ہیں   جو نبی کے غُلام ہیں خاؔلد سارا عالم غُلام رکھتے ہیں۔۔۔

مزید

آجاؤ رحمتوں کے خزینے کے سامنے

آجاؤ رحمتوں کے خزینے کے سامنے پھیلے ہیں سب کے ہاتھ مدینے کے سامنے   اللہ رے یہ شان دَیارِ حبیب کی کعبہ جُھکا ہوا ہے مدینے کے سامنے   دنیا میں نکہتوں پہ جنہیں بھی غرور ہے سارے خجل ہیں اُن کے پسینے کے سامنے   سرکش بنے مُجمۂ عجزو اِنکسار اَخلاقِ مصطفی کے قرینے کے سامنے   جب کہہ لیا خلوص سے یا مصطفی مدد ساحِل خود آگیا ہے سفینے کے سامنے   یہ افتخار اور کسی کو نہیں نصیب ہر سر جُھکا ہوا ہے مدینے کے سامنے   خاؔلد بلائیں مُجھ کو جو آقائے نامدار دیکھوں میں رقص روحِ مدینے کے سامنے۔۔۔

مزید

ہوں بے قرار عرضِ مُدعا کے لیے

ہوں بے قرار عرضِ مُدعا کے لیے حضور چشم ِ کرم کیجئے خدا کے لیے   دعا میں، میں نے وسیلہ جو اُن کو ٹھہرایا اَثر نے دوڑ کے بوسے مری دعا کے لیے   تمہارے در کی گدائی نے یہ شرف بخشا کہ بادشاہوں نے بڑھ کر قدم گدا کے لیے   گنا گاروں کا محشر میں رہ گیا پردہ کشادہ دامنِ رحمت ہوا عطا کے لیے   درِ حضور کسی بے نوا پہ بند نہیں کھلا ہی رہتا ہے بابِ عطا سخا کے لیے   مدینے چل کے ادا ہوگا عشق کا سجدہ مچل رہی ہے جبیں اُن کے نقشِ پا کے لیے   سُکون پایا دلِ مُضطراب نے کعبہ میں مزے بہشت کے ہم نے مدینے جا کے لیے   یہ میری جُھولی مرادوں سے بَھر گئی خاؔلد کھلے نہ تھے ابھی لب عرض ِ مُدعا کے لیے۔۔۔

مزید

ہر حال میں انہیں کو پکارا جگہ جگہ

ہر حال میں انہیں کو پکارا جگہ جگہ دیتے رہے وہ مجھ کو سہارا جگہ جگہ   بحر خطا میں غرق میں ہوتا تو کس طرح رحمت نے مجھ کو آ کے اُبھار جگہ جگہ   دنیا ہو یا لحد ہو کہ وہ پل صِراط ہو کافی ہے مجھ کو تیرا سہارا جگہ جگہ   آسان میری مشکلیں ہوتی چلی گئیں! پایا ترے کرم کا اشارا جگہ جگہ   از فرش تابہ عرش جہاں خیال میں پایا ہے ہم نے جلوہ تمہارا جگہ جگہ   ہر دینے والا ہاتھ انہیں کا تو ہاتھ ہے منگتوں کا ہو رہا ہے گزارا جگہ جگہ   ہے نسبتِ رسول سے طوفان ساز گار کرتی ہے پیش موج کنارا جگہ جگہ   خاؔلد یہی تو مرشد کامل کا فیض ہے آیا نظر وہ حُسن دِلآرا جگہ جگہ۔۔۔

مزید

بلندیوں پہ ہمارا نصیب آ پہنچا

بلندیوں پہ ہمارا نصیب آ پہنچا زہے نصیب مدینہ قریب آ پہنچا   نظر میں کعبے کا کعبہ لبوں پہ صَل علیٰ مرا کہاں سے کہاں تک نصیب آ پہنچا   سرِ نیاز جھکاؤ ادب سے دیوانوں وہ دیکھو گنبدِ خضرا قریب آ پہنچا   قریب تھا کہ سفینہ بھنور میں آجاتا مری مدد کو خُدا کا حبیب آ پہنچا   کھڑی تھی موت سرہانے نئی حیات ملی خدا کا شکر کہ میرا طبیب آ پہنچا   میں اپنے شوق کے قرباں تری عطا کے نثار شکستہ پا ترے در کے قریب آ پہنچا   نثار میں کرم بے حساب کے خاؔلد دَیّارِ طیبہ میں مجھ سا غریب آ پہنچا۔۔۔

مزید

کوئی بھی ہم کو نہ دے سکے گا

کوئی بھی ہم کو نہ دے سکے گا جو خاص نعمت حضور دینگے دکھائیں گے وہ جمال اپنا تو دیکھنے کا شعور دینگے   میں جب بھی جو چیز مانگ لوں گا مجھے یقین ہے، حضور دینگے وہ اپنے لطف و کرم کا صدقہ ضرور دینگے ضرور دینگے   درِ نبی کا میں ہوں بھکاری رہے گی جھولی نہ میری خالی کہیں بھی ان کو پکار لوں گا وہ بھیک نزدیک و دور دینگے   ہر اک پکارے گا نفسی نفسی نہ ہوگا کوئی کسی کا حامی وہ اپنے دامن میں عاصیوں کو پناہ یوم ِ نشور دینگے   مٹاؤ عشق نبی میں ہستی قسم خدا کی بقا ملے گی! ممات نا آشنا کریں گے حیات پر بھی عبور دیں گے   کریم سے فاصلہ کرم کا کبھی بھی ثابت نہ ہوسکے گا وہ دیدہ ودل کا نور ہیں خود وہ دیدہ ودل کو نور دینگے   مجھے ہے قسمت پہ ناز خاؔلد فقیر کوئے حبیب ہوں میں نہ جانے کیا کیا ملا ہے اب تک نہ جانے کیا کیا حضور دینگے۔۔۔

مزید

رب کے فیض اَتم کی بات کرو

رب کے فیض اَتم کی بات کرو تاجدار ِ حرم کی بات کرو   جن کا حُسن کرم سے وجہ حیات اُن کے حُسن کرم کی بات کرو   تم گدا ہو دَر ِ محمد کے اپنے جاہ و حشم کی بات کرو   ابرِ رحمت سے جس کا رشتہ ہے بس اسی چشم ِ نم کی بات کرو   کون ان کی عطا سے ہےمحروم معطئ محترم کی بات کرو   جو کرم ہے کریم مطلق کا اُس سراپا کرم کی بات کرو   راستے خود ہی جگمگائیں گے اُن کے نقشِ قدم کی بات کرو   غمِ دنیا کا ہے علاج یہی عشق شاہ امم کی بات کرو   وجہ تسکین ہے ان کا غم خاؔلد آہ کی چشمِ نَم کی بات کرو۔۔۔

مزید

ہے بے قرار دعا جیسے مُدّعا کے بغیر

ہے بے قرار دعا جیسے مُدّعا کے بغیر رہا گیا نہ خدا سے بھی دلبر با کے بغیر   صراطِ حق کا تعیّن نہ کر سکی دنیَا محمد ِ عربی تیرے نقشِ پا کے بغیر   بڑہا کے دستِ طلب مانگنا ہے بے ادبی درِ کریم سے ملتا ہے التجا کے بغیر   کسی کی بات بنی ہے نہ بن سکے گی کبھی جہاں میں واسطۂ فیض مصطفی کے بغیر   انہیں کی صرف دو ہائی دو ڈو بنے والو نہ پار ہوگا سفینہ یہ نا خدا کے بغیر   تری رضا کو نہ کیوں عینِ بندگی مانیں خدا بھی ہوگا نہ راضی تری رضا کے بغیر   ترے حبیب کا ادنی غلام ہے خاؔلد مرے کریم اسے بخش دے سزا کے بغیر۔۔۔

مزید

شہِ کونین آئے دو جہاں کا مُدّعا بن کر

شہِ کونین آئے دو جہاں کا مُدّعا بن کر دوا بن کر، شفا بن کر، کرم کی انتہا بن کر   کسی صورت نہ ہوتیں مشکلیں آسان دنیا کی نہ آتے سرور ِ عالم اگر مشکل کشا بن کر   متاع دو جہاں سے دامن ِ امید بھر جائے کوئی دیکھے مرے سرکار کے در کا گدابن کر   تھے جتنے انبیاء بھیجے گئے وہ معجزہ بن کر امام الانبیاء آئے سراپا معجزہ بن کر   گنہ گار ان اُمت کا نہ جانے حشر کیا ہوتا نہ بخشا تے اگر تم شافع ِروز ِ جزا بن کر   منوّر کر رہے ہیں صبح و شام ِ زندگانی کو کبھی شمس الضحیٰ بن کر کبھی بدر الدُّجیٰ بن کر   مدینے میں طلب سے بھی سوا ملتا ہے منگتوں کو برستی ہیں خدا کی رحمتیں اَبر سخا بن کر   صدائے مَن رانی سے کھلا یہ راز بندوں پر محمد مصطفی آئے خدا کا آئینہ بن کر   مدینے جب بلائیں گے مرے سرکار اے خاؔلد مجھے لے جائے گا شوقِ زیارت رہنما بن کر۔۔۔

مزید

وہ جہاں ہیں مری نسبت ہے وہاں سے پہلے

وہ جہاں ہیں مری نسبت ہے وہاں سے پہلے حسرتِ خلد مدینہ ہے جِناں سے پہلے   ہم گنہ گاروں کی سرکار دو عالم کے طفیل ہوگی بخشش بھی تو بخشش کے کمال سے پہلے   دِلِ بے تاب تڑپ کر تُو انہیں یاد تو کر وہ تو اِمداد کو آتے ہیں فُغاں سے پہلے   جان کی جان نِکل جائے قیامت ہو جائے دِل اگر ان پہ فدا ہو مری جاں سے پہلے   یہ ہے کعبہ، یہ مدینہ، یہ تِرا نقشِ قدم ابتدا ہو مرے سجدوں کی کہاں سے پہلے   دِل نے پائی ہی نہ تھی لذّت ِ عشق احمد اے بلال ِ حبشی تیری اذاں سے پہلے   آپ تھے آپ فقط صورتِ انوار ِ خدا اور کوئی بھی نہ تھا کون ومکا ں سے پہلے   نعت کہتا ہوں قلم اپنا بیاں سے پہلے چوم لیتا ہوں قلم اپنا بیان سے پہلے   دیکھ لو کاش میں وہ روئے منوّر خاؔلد باغِ ہستی میں بہار آئے خِزاں سے پہلے۔۔۔

مزید

آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے

آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے سرکار کے قدم مری قسمت بَدل گئے   آیا نظر جو گنبدِ خِضْرا خُدا گواہ جذبات میرے نور کے سانچے میں ڈھل گئے   یہ جان کر وہ بار گہ کار ساز ہے طیبہ کی سمت اہل ِ نظر سر کے بل گئے   فیضان مصطفی تھا کہ ہم رَاہ ِ عِشق میں سَو بار لڑکھڑائے مگر پھر سَنبھل گئے   صَل علیٰ یہ نامِ محمد کی برکتیں طوفان آفتوں کے مرے سر سے ٹل گئے   ہر مَنصب و وقار نے بڑھ کر قدم لیئے سرکار کے غلام جِدھر سے نکل گئے   خاؔلد جو اُن کا نام لیا ظلمتیں چھٹیں! لاکھوں چَراغ خود مری راہوں میں جل گئے۔۔۔

مزید

مقدّر آج کتنے اَوج پر ہے

مقدّر آج کتنے اَوج پر ہے جبیں میری نبی کا سنگ ِ در ہے   نظر جلوؤں میں ڈوبی جارہی ہے مدینہ رات دِن پیش ِ نظر ہے   دیّار ِ مصطفی منزل ہے اپنی خیال ِ مصطفی زادِ سفر ہے   تیری جانب تو دنیا جھک رہی ہے بتا کعبہ ترا قبلہ کدھر ہے   ہمیں موج ِ حوادث کیا ڈبوئے ہمارا نا خدا خیر البشر ہے   زباں پر لاؤں کیا حرفِ تمنّا شہ ِ کونین کو جب خود خبر ہے   نبی کے روئے انور کی بدولت ہماری رات بھی رشکِ قمر ہے   طلب ِ سے سوا پاتے ہیں منگتے مدینہ رحمت ِ باری کا گھر ہے   خوصِ دِل بڑی دَولت ہےخاؔلد محبت میں یہی بَس معتبر ہے۔۔۔

مزید