/ Thursday, 13 March,2025


قدم قدم سجدے   (209)





یہ کرم یہ بندہ نوا زیاں

یہ کرم یہ بندہ نوا زیاں کہ سدا عطاپہ عطا ہوئی جو ملا طلب سے سوا ملا کبھی رد نہ عرض ِ گدا ہوئی   جو گدازِ عشق رسول ہے مرے باغِ جاں کا وہ پھول ہے وہ نماز جس میں مہک نہیں وہ ادا ہوئی بھی تو کیا ہوئی   وہ جہاں کہیں بھی ٹھہرے گئے وہ جہاں جہاں سے گزر گئے وہیں سج گئی کوئی انجمن انہیں راستوں میں ضیا ہوئی   مرے حال میں مرے قال میں مرے دل میں بزم خیال میں ہیں انہیں کی ساری تجلیاں یہ وہی ہیں جن سے ضیا ہوئی   مری دھڑکنوں میں سما گئے جو لگی تھی آگ بجھا گئے مری روح ان پہ فدا ہوئی تو ہر ایک غم سے رہا ہوئی   مری دستگیر ہے ہر قدم مری زندگانی کا ہے بھرم تری یاد ایسی رفیق ہے جو کبھی نہ مجھ سے جدا ہوئی   وہ ضیائے نورِ قدیم ہیں وہ دلیل رب ِ کریم ہیں وہ جہاں بھی جلوہ نما ہوئے تو نمایاں شانِ خدا ہوئی   اسے ابتدائے کرم کہوں کہ میں فیض لطف ِ اتم کہوں وہاں ۔۔۔

مزید

کرم کی نظر تاجدار ِ مدینہ

کرم کی نظر تاجدار ِ مدینہ کرم چاہتے ہیں کرم کے بھکاری سلامت رہے آپکا آستانہ رہے آپکا فیض جاری وساری   ہے ربطِ دوامی جسے تیرے غم سے ہے وہ آشنا منتہائے کرم سے وہ سینے میں رکھتا ہے جلوے حرم کے ترے عشق نے جس کی حالت سنواری   نظر مجھ کو بخشی تو ذوقِ نظر دو زیارت سےاپنی سرفراز کردو مرے دل کی جھولی کو جلووں سے بھر دو کبھی تو ادھر سے بھی گزرے سواری   جہاں ساتھ دیتا نہیں اپنا سایہ وہاں بیقرار ِ کرم ان کو پا یا، لیا بڑھکے آغوش میں رحمتوں نے بڑے رنگ پر ہے مری شرم ساری   یہ طوفان ہم کو ڈرائیں گے کیسے بھنور جال اپنا بچھائیں گے کیسے چلے ہیں ہم ان کے کرم کے سہارے نہیں ڈوب سکتی یہ کشتی ہماری   وہ سجدے ساسِ عمل مانتا ہوں وہ ساعت متاعِ عمل جانتا ہوں مرے واسطے حاصل ِ زندگی ہے در مصطفی پر جو ساعت گزاری   کسی نے بھی سمجھا نہیں غیرہم کو جہاں بھی گئے سب نے آنکھیں۔۔۔

مزید

تمہارا نام لبوں پر ہے دل کو راحت ہے

تمہارا نام لبوں پر ہے دل کو راحت ہے اسی کے صدقے مری زندگی سلامت ہے   اگر یہ نام ضمانت بنے نہ رحمت کی تو سانس لینا بھی مرے لیے قیامت ہے   شوق ِ طیبہ ہے تو پھر گھر سے نکل کر دیکھو کام بگڑے ہوئے بن جائیں گے چل کر دیکھو   ہفت کشور کے سلاطین سلامی دیں گے سائیہ دامن سرکار میں پل کر دیکھو   تم سے بھی پیار کرے گا یہ زمانہ سارا ان کے پیمانہء اخلاص میں ڈھل کر دیکھو   ابھی اچھا ہو وہ آزاد نہ ہو جس کا علاج خاکِ طیبہ تنِ بیمار پہ مل کر دیکھو   ہو نہ جائے کہیں برباد کمائی ساری راہِ طیبہ میں قدم رکھنا سنبھل کر دیکھو   اب کے بھی طیبہ میں حالات نے جانے نہ دیا رہ گئے دل میں ہی ارمان مچل کر دیکھو   خلد کیا ہے یہ سمجھ جاؤ گے تم بھی خاؔلد آتشِ الفتِ سرکار میں جل کر دیکھو۔۔۔

مزید

غمِ عشق نبی میں

غمِ عشق نبی میں کیف افزا چشم ِ پُر نم ہے نمایاں آنسووں سے ہے خوشی کتنا حسین غم ہے   یہی عرفان ہے اپنا یہی ایمان رکھتے ہیں کہ جس کا خلق ہے قرآں وہ قرآنِ مجسّم ہے   ہزار آلودۂ عصیاں سہی دامن مرا لیکن شفیع المذنبیں ہیں رحمتِ عالم تو کیا غم ہے   خدا کو دیکھتے ہیں ان کا چہرہ دیکھنے والے جمالِ مصطفی تنویر خلاق ِ دو عالم ہے   عروج ان کا علو ان کا خدا جانے کہا ں تک ہے کہ جن کے آستانے پر جبیں ہر شرف خم ہے   نہیں دیکھیں گے منہ ہم نامرادی کا ہم ان کے ہیں انہیں پر ناز کرتے ہیں یہی نسبت مکرم ہے   بقدر ظرف بھر دیتے ہیں جھولی ہر بھکاری کی، نگاہ ِ رحمۃ للعالمیں بخشش کی محرم ہے   یہ انداز مسیحائی یہ فیضان ِ نظر دیکھو مرے آقا کے بیماروں میں شامل ابن مریم ہے   ہیں جتنے انبیاء خاؔلد سبھی ارفع ہیں اعلیٰ ہیں مرا آقا مرا مولا مگر سب سے مکرم ہے۔۔۔

مزید

وہ دن قریب ہے کہ مدینے کو جاؤں گا

وہ دن قریب ہے کہ مدینے کو جاؤں گا آنکھوں کو اپنی طورِ تجلی بناؤں گا   جب ان کے آستانہ اقدس پہ جاؤں گا سیمائے سجدہ سے میں جبیں کو سجاؤں گا   فریادرس وہی ہیں وہی دستگیر ہیں میں داستان ِ درد انہیں کو سناؤں گا   پاسِ ادب سے لب نہ اگر کھل سکے مرے احوال آنسوؤں کی زبانی سناؤں گا   مجرم ہوں روسیاہ وخطا کار ہوں مگر سرکار بخشوائیں تو بخشا ہی جاؤں گا   جتنے بگاڑ ہیں وہ یہیں تک ہیں اور بس آقا سنوار دیں گے سنور کر ہی آؤں گا   سرکار باخبر ہیں یہ ایمان ہے مگر کہتا ہے اضطراب غمِ دل سناؤں گا   سرکار آپ کے کرم ِ بے سبب کی خیر میں بھی سند حضور سے بخشش کی پاؤں گا   سرکار جب مدینے میں خاؔلد بُلائیں گے میں دل کے سارے داغ انہیں کو دکھاؤ نگا۔۔۔

مزید

رات دن اُن کے کرم کے گیت ہم گاتے رہے

رات دن اُن کے کرم کے گیت ہم گاتے رہے بے طلب بخشش ہوئی ہم بے سبب پاتے رہے   اپنی بد اعمالیوں پر ہم تو شرماتے رہے اور کرم پر ہی کرم سرکار فرماتے رہے   یہ کرم بھی بارہا سرکار فرماتے رہے نعت میں لکھتا رہا سرکار لکھواتے رہے   صاحب ِ معراج کی نسبت مدینہ بن گئی، ہم تصور میں وہاں آتے رہے جاتے رہے   جب سے آغوش ِ کرم میں لے لیا سرکار نے جس قدر طوفان اُٹھے مجھ کو راس آتے رہے   رات بھر جشنِ چراغاں ہی رہا اشکوں کی خیر آپ کی یادوں میں ڈھل کر نور برساتے رہے   وہ مری فریاد سے پہلے مدد کو آگئے اور ہونگے وہ جنہیں حالات تڑپاتے رہے   ان پہ اتراؤ کنارے سے لگائیں گے وہی ڈوب جاؤ گے اگر غیروں پہ اتراتے رہے   کچھ نہ تھا مقصود بدار ِ محمد کے سوا ان کے دیوانے ہر اک منصب کو ٹھکراتے رہے   ان کی نسبت نے سرِ ساحل مجھے پہنچا دیا گو کئی طوفاں مری ک۔۔۔

مزید

کس طرح کبھی غمگین وہ نہیں ہوتے

کس طرح کبھی غمگین وہ نہیں ہوتے سرور کیف کے پیہم وہ جام پیتے ہیں،   تمہاری یاد نے بخشی ہے روشنی جن کو وہ خوش نصیب تو بس ظلمتوں سے جیتے ہیں   جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابل نذرانہ سرکار بھرم رکھنا رسوا نہ ہو دیوانہ   دل سے غمِ ہستی کا ہر نقش مٹا ڈالا آباد خدا رکھے تجھ کو غمِ جاناں نہ   جس دل میں مدینے کے ارمان مچلتے ہیں سوبار خزاں آئے بنتا نہیں ویرانہ   چھوٹا ہوا ترکش سے ہر تیر پلٹ آئے یہ بات اگر چاہے سرکار کا مستانہ   خود جن کو پلاتے ہیں سرکار توجہ سے کرتا ہے طواف ان کا خود آن کے میخانہ   جلوت میں بدل جائے میری شبِ تنہائی تم چاہو تو بن جائے جنت مرا ویرانہ   سرکار کی نسبت کا یہ خاص کرم دیکھو کہتی ہے مجھے دنیا سرکار کا دیوانہ   آجاؤ کہ مستی کی تکمیل یہیں ہوگی ملتا ہے مدینے میں پیمانے پہ پیمانہ   جب سر کو جھکاؤں میں۔۔۔

مزید

جذبہءِ عشقِ سرکار کام آگیا

نبی کے نام پہ سوجاں سے جو قربان ہوتے ہیں خدا شاہد وہی تو صاحب ِ ایمان ہوتے ہیں جو ان کے ذِکر کی محفل سجاتے ہیں محبت سے رسول اللہ ان کے گھر میں خود مہمان ہوتے ہیں جذبہءِ عشقِ سرکار کام آگیا ان کا احسان ہے حاضری ہوگئی بے طلب دامن ِ آرزو بھر گیا پوری ہر ایک اپنی خوشی ہوگئی   ہجر کی ظلمتوں میں سحر ہوگئی دور آفاق سے تیرگی ہوگئی سبز گنبد پہ قرباں نظر جب ہوئی ہر حجاب اٹھ گیا روشنی ہوگئی   کیا بتاؤں میں آقا کے لطف وکرم کیا بیاں ہو کرم کا خدا کی قسم ان کی رحمت نے اتنا نوازا مجھے ہر طلب سے طبیعت غنی ہوگئی   ان کے در سے شفاعت کی پائی سند میری ہستی کا حاصل ہیں وہ ساعتیں سایہ دامن مصطفی مل گیا پاک ہر عیب سے زندگی ہوگئی   بندگی آشنا بندگی سے نہ تھی نسبت خاص کچھ روشنی سے نہ تھی ان کے قدموں میں جب میں نے سر رکھ دیا میری ہستی کی معراج بھی ہوگئی   شرمِ عصیاں لئ۔۔۔

مزید

شرم عصیاں سے اٹھتی نہیں ہے جبیں

شرم عصیاں سے اٹھتی نہیں ہے جبیں اپنے دامن میں مجھ کو چھپا لیجئے ہنس رہا ہے زمانہ مرے حال پر آج مجھ کو گلے سے لگا لیجئے   پاشکستہ ہوں منزل مری دور ہے کیا کوئی اور بھی مجھ سا مجبور ہے گر پڑا ہوں سر راہ لینا خبر آسرا دے کے مجھ کو اٹھا لیجئے   ایسا حُسن تصور مجھے بخشش دو سامنے بس تمہاری ہی تصویر ہو جو مجھے دیکھ لے وہ درد دیں پڑھے مجھ کو سرکار ایسا بنا لیجئے   میں کہاں اور کہاں وہ دیار کرم باد شاہ عجم تاجدار ِ حرم میں یہ سمجھوں گا سب کچھ مجھے مل گیا خاک ہوں میں زمیں سے اٹھا لیجئے   غم ہستی مجھے ڈھونڈتا ہی رہے اور میں دیکھ کت مسکراتا رہوں تاجدارِمدینہ کرم کیجئے مجھکو کچھ اس طرح سے چھپا لیجئے   دردِ الفت سدا رنگ لاتا رہے سوز بڑھتا رہے کیف آتا رہے زندگانی کی معراج ہو جائے گی آستانے پہ اپنے ملا لیجئے   یہ تو مانا کہ خاؔلد برا ہے مگر آپ کا ہے خدارا ک۔۔۔

مزید

میں میلی تن میلا میرا کر پاکرو سرکار

میں میلی تن میلا میرا کر پاکرو سرکار پاپ کی گھٹڑی سر پہ اٹھائے آئی تمرے دوار   دردر جانا دھر دھر ہونا یہ بھی ہے ایمان جگ داتا کی آس ہے پگلے سب کی پالنہار   میرے کھویا بیچ بھنور میں کشتی ڈوبی جائے تیرا ہوں تو میری خبر لے کون لگائے پار   مجھ منگتے کی بات ہی کیا ہے وہ ہیں بڑے لچپال ان کی کرپا اور دَیا سے پلتا ہے سنسار   ان کی عطا کے سب گن گاؤ ان سے ہی فریاد کرو سب سے بڑی حامی ہے ہماری سب سے بڑی سرکار   ان کی یاد ایمان بنالو خود کو ہی قرآن بنا لو ان کی یاد سے مٹ جاتے ہیں سارے ہی آزار   ان کے کرم کی آس ہے مجھ کو میں تو نہیں مایوس خود ہی دوا بھی مجھ کو دیں گے جن کا ہوں بیمار   کچھ تو میری آس بندھا دو تن من ہے بے چین روتے روتے رتیاں بیتیں کب ہوگا دیدار   اس کےلئے تو سرمایہ ہے پیار مدینے والے کا سوچیں سمجھیں کہنے والے خاؔلد کو نادا۔۔۔

مزید

میں ہوں ان کے درکا منگتا

میں ہوں ان کے درکا منگتا ان کے کرم سے آس لگی ہے جیسے نباہیں ان کی مرضی جیسے نوازیں ان کی خوشی ہے   دل میں سوزِ عشق نبی ہے آنکھ میں آنسو لب پہ ہنسی ہے تن من واروں بل بل جاؤں کتنی حسیں سوغات ملی ہے   جگ داتا تو سب کا آقا میرا ملجا میرا ماویٰ ہے ٹکڑوں پہ تیرے گزارا منگتے کی اوقات یہی ہے   رنگِ دنیا دیکھ چکا ہوں ان کی طرف اب میں بھی چلا ہوں جن کے کرم کا بول ہے بالا جگ میں جن کی دھوم مچی ہے   من کی بپتا کون سنے گا جھولی میری کون بھرے گا جاؤں کہاں اس در سے اٹھ کر آخر تم سا کون سخی ہے   مجھ کو نہیں پروائے زمانہ میری قسمت جاگ اٹھی ہے نبیوں کا جو صدر نشیں ہے میرا بھی لچپال وہی ہے   ان کی یاد میں جو بہتے ہیں وہ آنسوہیں میری دولت بخشش کا سرمایہ بھی ہیں ان اشکوں میں جنت بھی ہے   بحرِ الم ہے دور کنارا ناؤ شکستہ تیز ہے دھارا خاؔلد کو سرکار سنبھا۔۔۔

مزید

ان پہ سب کچھ نثار کرتے ہیں

ان پہ سب کچھ نثار کرتے ہیں ہم بڑا کارو بار کرتے ہیں   عاصیوں پر بڑے کریم ہیں وہ رحمتیں بے شمار کرتے ہیں   سب ہیں اچھوں کے چاہنے والے وہ تو ہم سے بھی پیار کرتے ہیں   ذکر کرتے ہیں جو محمد کا ذکر ِپروردگار کرتے ہیں   ایک بار ان کا نام لے کوئی وہ کرم بار بار کرتے ہیں   صاحب ِ تاج ور کے منگتے کو شاہِ والا تبار کرتے ہیں   سب سہارے فریب ہیں خاؔلد وہی کشتی کو پار کرتے ہیں۔۔۔

مزید