/ Thursday, 13 March,2025


سفینہِ بخشش   (82)





چشم التفات

جو ان کی طرف مری چشم التفات نہیں کوئی یہ ان سے کہے چین ساری رات نہیں بجز نگاہِ کرم کے تو کچھ نہیں مانگا بگڑتے کیوں ہو بگڑنے کی کوئی بات نہیں بہت ہیں جینے کے انداز پر مرے ہمدم مزہ نہ ہو جو خودی کا تو کچھ حیات نہیں بوقت نزع یاں للچا کے دیکھتا کیا ہے یہ دارِفانی ہے راہی اسے ثبات نہیں اٹھا جو اخترؔ خستہ جہاں سے کیا غم ہے مجھے بتائو عزیزو! کسے ممات نہیں۔۔۔

مزید

امید وفا

میری میت پہ یہ احباب کا ماتم کیا ہے شور کیسا ہے یہ اور زاریٔ پیہم کیا ہے وائے حسرت دم آخر بھی نہ آکر پوچھا مدعا کچھ تو بتا دیدۂ پر نم کیا ہے کچھ بگڑتا تو نہیں موت سے اپنی یارو ہم صفیرانِ گلستاں نہ رہے ہم کیا ہے ان خیالات میں گم تھا کہ جھنجھوڑا مجھ کو ایک انجانی سی آواز نے اک دم کیا ہے کون ہوتا ہے مصیبت میں شریک و ہمدم ہوش میں آ یہ نشہ سا تجھے ہر دم کیا ہے کیف و مستی میں یہ مدہوش زمانے والے خاک جانیں غم و آلام کا عالم کیا ہے ان سے اُمیدِ وفا ہائے تری نادانی کیا خبر ان کو یہ کردارِ معظم کیا ہے وہ جو ہیں ہم سے گریزاں تو بلا سے اپنی جب یہی طورِ جہاں ہے تو بھلا غم کیا ہے میٹھی باتوں پہ نہ جا اہلِ جہاں کی اخترؔ عقل کو کام میں لا غفلتِ پیہم کیا ہے ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

لب جاں بخش

لبِ جاں بخش کا اے جاں مجھے صدقہ دیدو مژدۂ عیشِ ابد جانِ مسیحا دے دو غمِ ہستی کا مداوا مرے مولیٰ دے دو بادۂ خاص کا اک جام چھلکتا دے دو غرق ہوتی ہوئی ناؤ کو سہارا دے دو موج تھم جائے خدارا یہ اشارہ دے دو ہم گنہگار سہی حضرتِ رضواں لیکن ان کے بندے ہیں جناں حق ہے ہمارا دیدو تپش مہرِ قیامت کو سہیں ہم کیسے اپنے دامانِ کرم کا ہمیں سایہ دے دو بھول جائے جسے پی کر غم دوراں اخترؔ ساقیٔ کوثر و تسنیم وہ صہبا دے دو۔۔۔

مزید

اشک رواں

سوزِ نہاں اشک رواں آہ و فغاں دیتے ہیں یوں محبت کا صلہ اہلِ جہاں دیتے ہیں کون رکھتا تری اس خاص عنایت کا بھرم بس ہمیں دادِ ستم گر یہ کناں دیتے ہیں اب پسِ مرگ ابھرتے ہیں یہ دیرینہ نقوش ہم فنا ہوکے بھی ہستی کا نشاں دیتے ہیں کفر ہے دیکھ یہ خوف اور رجا ان سے ندیم بت بھی کیا تجھ کو بھلا سودوزیاں دیتے ہیں ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

گلوں کی خوشبو

وہی تبسم وہی ترنم وہی نزاکت وہی لطافت وہی ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جن سے شوخی ٹپک رہی ہے گلوں کی خوشبو مہک رہی ہے دلوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیں کہ ایک بجلی چمک رہی ہے یہ مجھ کو کہتی ہے دل کی دھڑکن کہ دستِ ساقی سے جام لے لو وہ دور ساغر کا چل رہا ہے شرابِ رنگیں چھلک رہی ہے یہ میں نے مانا حسین و دلکش سماں یہ مستی بھرا ہے لیکن خوشی میں حائل ہے فکر فردا مجھے یہ مستی کھٹک رہی ہے نہ جانے کتنے فریب کھائے ہیں راہِ الفت میں ہم نے اخترؔ پر اپنی مت کو بھی کیا کریں ہم فریب کھا کر بہک رہی ہے ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

قطعات

تمہارے رخ کے جلووں سے منور ہوگیا عالم مگر کیونکر گھٹا غم کی مرے دل سے نہیں چھٹتی کروں اخترشماری انتظارِ صبح میں کب تک الٰہی ہے یہ کیسی رات کہ کاٹے نہیں کٹتی نہ گھبرا حادثاتِ دہر سے اتنا مرے ہمدم یہ دنیا ہے کبھی یہ ایک حالت پر نہیں ڈٹتی ٭…٭…٭ سویا نہیں میں رات بھر عشق حضور میں کیسا یہ رت جگا رہا کیف و سرور میں پچھلے پہر جو مرگیا ان کا وہ جانثار سرگوشیاں یہ کیا ہوئیں غلمان و حور میں ٭…٭…٭ جبین وہابی پہ دل کی سیاہی نمایاں ہوئی جیسے ہو مہر شاہی کہ ایں سجدہ ہائے بغیر محبت نہ یابند ہرگز قبول از الٰہی ٭…٭…٭ یا رسول اللہﷺ مدینہ کی فضائوں کو سلام یا رسول اللہﷺ طیبہ کی ہوائوں کو سلام کیجئے اپنے کرم سے صورتِ عیش دوام یا رسول اللہﷺ عطا ہو خلد طیبہ میں مقام ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

منظر اسلام

منبع نورِ رسالت منظرِ اسلام ہے درس گاہِ علم و سنت منظرِ اسلام ہے قبلہ گاہِ دین و ملت منظرِ اسلام ہے مرکزِ اصلاحِ خلقت منظرِ اسلام ہے یادگارِ اعلیٰ حضرت منظرِ اسلام ہے ٭ ایضاً ٭ دور سے آتا یہاں ہر ایک تِشنہ کام ہے بادۂ حبِ نبی کا اس کو ملتا جام ہے آپ کٹ جاتا ہے اس سے جو بھی نافر جام ہے منکروں کے واسطے یہ تیغِ خوں آشام ہے جیسا اس کا نام ہے ویسا ہی اس کا کام ہے۔۔۔

مزید

بتقریب سالگرہ

بے بی سلمیٰ بنت عظیم جی صالح جی ساکن کلکتہ ٓٓٓٓ------------------------ نسیمِ صبح وہ اُٹھلاتی کیوں ادھر آئی یہ کیسی کیف و مسرت کی اک لہر آئی ہر ایک لب پہ تبسم یہ کیسا رقصاں ہے عظیم جی کے یہاں کیوں ہجوم یاراں ہے سنا ہے سالگرہ ہے دلاری بے بی کی مچی ہے دھوم عزیزوں میں پیاری بے بی کی بفرطِ شرم نرالا ہی اس کا عالم ہے پسینہ رخ پہ جو بہتاہے رشکِ شبنم ہے کچھ اس ادا سے ہوئی وہ انجمن آرا کہ مہ و شانِ جہاں میں ہو جیسے وہ یکتا وہ بولتی ہے تو بلبل کوئی چہکتی ہے خرام کرتی ہے تو برق سی چمکتی ہے وہ کتنی بھولی ہے اور نیک ہے بے بی غرض کے اپنے محاسن میں ایک ہے بے بی دعا آخر میں ہے بارگاہِ رحماں میں الٰہی روز ترقی کر اس کے ایماں میں ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

تہنیت بتقریب شادی

عبد الکریم صاحب برائے حاجی سلیمان ابراہیم ٓٓ------------------------- مژدہ دیتی دلِ مضطر کو صبا آئی ہے چل سلیماں کے یہاں انجمن آرائی ہے چل دکھائیں وہ کسی کا تجھے دولھا بننا اٹھ کے کیا خوب یہ سامانِ شکیبائی ہے غمِ ہستی کو بھلادے یہ ہے بزمِ مستی جھوم کر تو بھی کہہ فضا ساری ہی صہبائی ہے دل بھی آخریہ پکار اٹھاکہ اے بادِ صبا آفریں کیا تری باتو ں کی پذیرائی ہے ہم بھی اس ماہ جبیں کو دیکھیں تو سہی مہ جبینوں کی نظر جس کی تماشائی ہے یا خدا تازہ رہیں یہ پھول سہرے کے سدا نہ کبھی جائے جو یہ فصل بہار آئی ہے ان دو پھولوں سے کھلیں پھول کچھ ایسے یارب بلبلِ دینِ نبی جن کا تمنائی ہے جن کی خوشبو سے معطر ہو دماغِ عالم کہ مجھے قوم سے الحاد کی بو آئی ہے ہمصفیروں میں یہ چرچے ہیں ترے اخترؔ بلبل باغِ رضا خوب نوا پائی ہے ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

سہرا بتقریب شادی خانہ آبادی

کیسا باغ و بہار ہے سہرا کس قدر خوشگوار ہے سہرا نورِ جانِ بہار ہے سہرا غیرتِ لالہ زار ہے سہرا کس کے رخ پر نثار ہے سہرا کس کیلئے تار تار ہے سہرا کیا گہر ہے بجائے گل اس میں کس قدر آب دار ہے سہرا رحمتِ دوجہاں کے جلوے ہیں گلشنِ نو بہار ہے سہرا رضویوں کی بہار ہے سہرا سنیوں کا قرار ہے سہرا نجدیوں کو کہاں ہے تابِ نظر آتشِ شعلہ بار ہے سہرا سینۂ یار کے لئے ٹھنڈک دلِ اعدا میں خار ہے سہرا چشمِ بد دور کیوں نہ ہو تجھ سے تیرے رخ کا حصار ہے سہرا گلشنِ فیضِ مفتیٔ اعظم رشکِ صد لالہ زار ہے سہرا از طفیلِ شفیع بہرِ سعید زندگی کی بہار ہے سہرا پھول سہرے کے کہہ رہے ہیں سنو! ماں کے دل کی پکار ہے سہرا ہیں رفیق و حسن بھی نعرہ زن واہ کیا خوشگوار ہے سہرا رخِ رضیہ پہ تازگی ہے نئی تازگی کا نکھار ہے سہرا فاطمہ صابرہ کے صدقے میں باقی و پائیدار ہے سہرا شاہدہ پر بھی کیف طاری ہے کس خوشی کا خ۔۔۔

مزید