حضرت شمس الائمہ محمد بن عبد الستار کردری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسمِ گرامی: محمد بن عبد الستار بن محمد کردری عمادی۔ کنیت: ابو الوجد ۔لقب:شمس الائمہ تھا۔ تایخِ ولادت:آپ علیہ الرحمہ 18 ذو القعدہ559 ھ میں پیدا ہوئے۔ تحصیلِ علم: شمس الائمہ کردری رحمۃ اللہ علیہ نے علمِ ادب پہلے ناصر الدین مطرزی صاحب پڑھا۔شمس الائمہ بکر بن محمد زرنجری سے فقہ پڑھا،حدیث کوسنااور دیگر اساتذہ سے مختلف علوم فنون حاصل کئے۔حسن بن منصور قاضی خان اور صاحبِ ہدایہ علی بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہما سے بھی آپ نے علم حاصل کیا۔ سیرت وخصائص: شمس الائمہ محمد بن عبد الستار کردری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام محقق،فاضلِ مدقق،فقیہ و محدث،عارفِ مذاہب،محیی اصول فقہ تھے۔ آپ نے اس طرح اخلاص وسنجیدگی سے علم حاصل کیا کہ آپ متعدد و علوم میں فائق ہوئے اور اپنے اقران پر غالب آئے اور اہل زمان نے آپ کے فضل و تقدم کا اقرار کیا حتی کہ آپ کے حق می۔۔۔
مزید
حضرت سید ابراہیم بن محمد دمشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سید ابراہیم بن محمد بن محمد کمال الدین بن محمد بن حسین بن محمد بن حمزہ دمشقی: آپ کا نسب پیغمبر خدا کی طرف منتہیٰ ہوتا ہے اور اپنے اسلاف کی طرح ابن حمزہ کی کنیت سے معروف تھے۔اپنے زمانہ کےعلامہ،محدث،نحوی،اعلام محدثین اور علمائ جبذہ میں سے حرانی الاصل تھے۔دمشق میں سہ شنبہ کی رات کو مابین مغرب عشاءکے ۵ ماہ ذی القعدہ ۱۰۵۴ھ کو پیدا ہوئے اور اسی جگہ اپنے والد کی نگرانی میں پرورش پائی۔علوم اپنے والد ماجد اور ایک جماعت علماء وفضلاء سے حاصل کیے اور عمر بھر تدریس اورتنشیرِ علوم میں مصروف رہے۔ آپ نے اسی شیوخ سے اجازت لی،شیخ ابراہیم برماوی،عبداللہ بن سالم بصری،شیخ عبداللہ لاہوری ثم المدنی خیر الدین رسلی اور عبدالقادری بغدادی وغیرہ سے استفادہ کیا۔آپ کی تصانیف میں ’&rsq۔۔۔
مزید
آپ سید راجی حامد شاہ کے مرید اور خلیفہ ہیں آپ کو کئی بار حضرت خضر علیہ اسلام کی صحبت بھی نصیب ہوئی اور آپ نے حضرت معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روحانی فیض پایا تھا یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین نے آپ کو باطنی طور پر حضرت خضر علیہ اسلام کے حوالے کر دیا تھا ہندی زبان کا یہ شعر معارج الولایت میں بھی ملتا ہے اور شرح الحروف العالیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ جُگ جُگ عمر جو حضرت خواجی حضرت نبی رسول نواجی دانیال جو پر گٹ کنیان حضرت خواجی خضر ہند دنیا یعنی حضرت خواجہ معین الدین دائمی اور باطنی عمر کے مالک ہیں انہوں نے چاہا کہ دانیال کو ظاہر کریں اور اولیاء اللہ میں اُن کا ایک مقام متعین کریں چنانچہ انہوں نے خواب میں حضرت دانیال کو حضرت خضر کے حوالے کردیا۔ شیخ دانیال ۹۹۴ھ ہجری میں فوت ہوئے اُس وقت آپ کی عمر ایک سو گیارہ سال تھی۔ چوں۔۔۔
مزید
آپ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے جب سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ سفرِ حج پر روانہ ہوئے تو آپ بھی اُن کے ساتھ تھے حج سے واپسی پر گجرات پہنچے تو شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے احمد آباد میں مقرر کردیا۔ شیخ محمد شیروانی اور بعض دوسرے عزیزوں کو بھی آپ کے ساتھ رہنے کا حکم دیا۔ شیخ طہ نے عرض کی حضور اس علاقے میں بڑے بڑے اولیاء اللہ ہیں جن کی شہرت سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے میں یہاں رہ کر کیسے کام کرسکوں گا۔ آپ نے فرمایا یہ تمام لوگ تمہارے مطالع اور فرما نبردار بن جائیں گے شیخ طاہا احمد آباد میں قیام پذیر ہوئے وہاں کے بزرگوں نے آپ کا باطنی امتحان لیا اور پھر آپ کے تابعدار بن کر روحانی فائدہ حاصل کرنے لگے۔ معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں کہ اکبر کے زمانے میں مظفر ہوائی کو گجرات کا سلطنت دار بنادیا گیا۔وہ حضرت شیخ ک۔۔۔
مزید
آپ کے والد بزرگوار کا نام یوسف چشتی تھا آپ خود سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اورمرید تھے کہتے ہیں کہ آپ جس دن اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اُسی دن سے مقبول نظر ہوگئے اور آپ کے سر پر تاج خلافت سجادیا یہ بات دیکھ کر حضرت کے دوسرے مرید بھی آگے بڑھے اور عرض کی حضور کریم کئی سال سے آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس میں کیا راز ہے آپ نے فرمایا شیخ ولی اپنے کو دیگر تمام چیزوں سے پُر کر کے پکا کر لائے تھے میں نے اُس میں صرف نمک ہی ڈالا ہے اور وہ تیار ہوگئی آپ لوگوں کو پختہ ہوتے ہی وقت لگے گا۔ آپ کی وفات ۱۰۰۴ھ ہجری تھی۔ یافت از حق ولایت جنت چوں ولی خُدا ولی اللہ جامع فیض گو ترحیلش ہم ولی شیخ اولیاء فرما ۱۰۰۴ھ ۔۔۔
مزید
آپ حضرت شیخ اسلیم چشتی کے خلیفہ تھے اور اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے تھے کہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم جہانگیر کو اُس کے والد جلال الدین اکبر بادشاہ اپنے ساتھ لے کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے روضہ منورہ کی زیارت کو گئے اس سفر میں شیخ پیارا کو ساتھ لے لیا گیا تاکہ وہ شہزادہ جہانگیر کی نگرانی کر سکیں اتفاق ایسا ہوا کہ اجمیر میں پہنچ کر شہزادہ بیمار ہوگیا اس وجہ سے اکبر بادشاہ بڑا ہی پریشان ہوا۔ اکبر نے شیخ پیارا کو کہا کہ آپ کے پیر و مرشد نے ہمارے ساتھ اس لیے بھیجا تھا کہ شہزادے کی دیکھ بھال کر سکیں شیخ پیارا نے جواب دیا کہ ہم حضرت کی خدمت میں عرض لکھ رہے ہیں آپ جو کچھ فرمائیں گے اس پر عمل کیا جائے گا چنانچہ آپ نے ایک شاہی قاصد کے ہاتھ شیخ سلیم کے نام عرضی لکھی جس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ بادشاہ کو کہہ دیں کہ انشاء اللہ شہزادہ تندرست ہوجائے گا چونکہ ہم نے تمہیں شہزا۔۔۔
مزید