جمعرات , 05 رجب 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Thursday, 25 December,2025

سعید خان میانہ چشتی قدس سرہ

آپ بڑے صاحب حال و ذوق بزرگ تھے شیخ نظام الدین نارنولی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے بعض تذکرہ میں آپ کو شاہ اعلیٰ پانی پتی کا خلیفہ لکھا ہے۔ کلام کرتے تو صحرائی جانور بھی متاثر ہوتے۔ آپ کی محفل سماع میں اُڑتے پرندے گرتے تھے اور حاضرین مرغ بسمل کی طرح تڑپتے تھے ایک دن حضرت ایک درخت کے نیچے سماع کر رہے تھے درخت پر ایک فاختہ بیٹھی تھی زمین پر گری اور تڑپنے لگی ایک شخص اٹھا اس نے اس تڑپتی ہوئی فاختہ کو پکڑا اور ذبح کرکے لے گیا آپ کو خبر ہوئی تو بڑے ناراض ہوئے وہ شخص دیوانہ ہوگیا اپنے بھائی کو قتل کردیا اس کے جرم میں خود پھانسی پر چڑھا۔ شیخ سعید خان ۱۰۶۷ھ میں فوت ہوئے۔ باسعادت شد چو در خلد بریں شیخ اسعد ہادی رہبر سعید قلزم فیض است سال وصل او ہم معلیٰ متقی اکبر سعید ۱۰۶۷ھ ۔۔۔

مزید

شیخ عارف چشتی لاہوری قدس سرہ

  آپ شیخ اسحاق بن کاکو چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے لوگ آپ کو میاں عارف کے نام سے پکارتے تھے آپ نے شاہجہاں کے زمانہ اقتدار میں اپنی مشیخیت کا علم بلند کیا بڑے مرید تھے ہر مہینے کے آخری ہفتہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور دس دن تک آپ کے حجرے کا دروازہ بند رہتا تھا جس دن حجرے سے برآمد ہوتے عام وخواص کو حجرے کے دروازے سے ہٹا دیا جاتا اگر کوئی حجرے کے دروازے پر بیٹھا رہتا تو جس پر آپ کی نگاۂِ جلال پڑجاتی تین دن تک بے ہوش رہتا تھا جس دن حجرے سے نکلتے سارا دن تنہا گزارتے تھے اور کسی کو پاس آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی مجلس سماع میں بیٹھتے تو بڑے تڑپتے بعض اوقات خدشہ ہوتا تاکہ آپ ختم ہوگئے ہیں آخر کار اعتکاف میں ہی واصل بحق ہوئے آپ ۱۰۶۴ھ میں لاہور میں فوت ہوئے۔ آپ کا مزار حضرت طاہر بندگی مجدّدی کے احاطہ میں میانی کے قبرستان میں ہے۔ چوں جناب عارف چشتی ولی سوئے جنت شد ازیں عالم رواں سا۔۔۔

مزید

شیخ اسماعیل چشتی اکبر آبادی قدس سرہ

  آپ اکبر آباد کے بلند پایٔہ مشائخ میں سے تھے ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے زمانہ تھے آپ کے پاس طالب عقبیٰ بھی آتے اور طالب دنیا بھی دونوں فیض یاب ہوتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ دنیا دار کا کام کردو اسکے دل میں درویشوں سے محبت پیدا ہوگئی طالب حق کا بھی کام کرو اس کے دل میں خدا کی محبت جاگزین ہوگی چونکہ آپ دین و دنیا کے دونوں قسم کے لوگوں کی حاجات پوری کرتے تھے آپ کے دروازے پر لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ مجالس سماع میں بڑا حصہ لیتے تھے مخبر الواصلین نے آپ کا سال وصال ۱۰۴۴ھ لکھا ہے۔ مزار اکبر آباد میں ہے۔ خلیل دہر اسماعیل ثانی بہشتی شد چوآن نیکو سرشتے بتاریخ وصالش گفت سرور ولی الدین اسماعیل چشتی ۱۰۴۴ھ ۔۔۔

مزید

شیخ عبدالجلیل چشتی پکنوی قدس سرہ

آپ بڑے مشہور ولی اللہ تھے وہ اویسی طریقے پر تھے ظاہری طور پر آپ کا کوئی مرشد نہ تھا لیکن روحانی طور پر وہ خواجہ معین اجمیری کے تربیت یافتہ تھے جو شجرۂ اپنے مریدوں کو لکھ کر دیتے اپنے نام کے ساتھ حضرت خواجہ اجمیری کی برہ راست نسبت قائم کرتے اپنی کتابوں میں بھی آپ نے لکھا تھا کہ مجھے حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ سے کسی واسطے کے بغیر فیض ملا ہے آپ کی بہت سی تصانیفات ہیں چنانچہ مکتوبات رموزات اسراریہ اور اس قسم کی کئی کتابیں آپ نے لکھیں۔ آپ کی وفات ۱۰۴۳ ہجری میں ہوئی۔ ز دنیا چو شد در بہشت برین ولی شیخ عالم خلیل خلیل بخوان مجمع تاریخ او بفرما مکرم خلیل خلیل ۱۰۴۳ھ ۔۔۔

مزید

شاہ نعمان چشتی برہا نپوری قدس سرہ

آپ شاہ بکاہی چشتی کے مرید تھے  آپ  سے بیعت ہونے سے پہلے  دولت آباد میں اپنے پیر  کی خدمت میں حاضر رہتے تھے پیر کی وفات کا  وقت قریب آیا تو  انہوں نے شاہ نعمان کو اپنے پاس بلایا اورحکم دیا کہ وہ بکاہی کی خدمت میں جائیں اور اپنا حصہ جاکر وصول کریں شاہ نعمان اپنے پیر کی وفات کے بعد دولت آباد سے روانہ ہوئے اور ہریان پورہ پہنچے اور شاہ بکاہی کی خدمت میں عرض کی کہ میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا تمہارے آنے  سے پہلے تمہارے پیر کی زبردست سفارش پہنچ چکی ہے اس کے بعد آپ نے شاہ نعمان کو اپنی خاص  تسبیح اور مصّلی عنایت  فرمایا  اور اپنی نظر مقام عصر کا قائل بنا کر قلعہ عیصر کی طرف روانہ فرمایا۔ معارج الولایت میں لکھا ہے کہ جب شاہ نعمان قلعہ عیصر کی طرف جانے  کے لیے رخصت ہونے لگے تو شاہ بکاہی کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اُس قلعے میں شاہ محمود پہلے ہی موجو۔۔۔

مزید

سیّد مزمل چشتی قدس سرہ

سید مزمل چشتی شیخ عبد الوہاب جو ہندوستان کے اکابر سادات میں سے تھے کہ بیٹے  ہیں آپ نے جوانی کے عالم میں اپنے پیر و مرشد  کی نگرانی میں بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے کئی کئی راتیں قیام اللیل فرماتے اپنے مرشد سے اتنے  فیضان پائے کہ صاحب کرامات و کمالات بن گئے۔ معارج الولایت میں لکھا ہے کہ سید مزمل کو ایک بار خیال آیا کہ وہ اپنے مرحوم والد کی قبرکی زیارت کرے چنانچہ اپنا یہ  ارادہ اپنے پیر و مرشد کے سامنے بڑے اصرار سے کیا مگر آپ نے تین بار اس ملاقات سے منع فرمایا مگر سید مزمل کا اصرار بڑھتا گیا حضرت نے فرمایا اچھا اگر تم اصرار کرتے ہو تو یاد  رکھو تم کو اتنے سال شیر شاہ سوری کے لشکر میں ملازمت کرنا ہوگی جب شیر شاہ قلعہ گوالیار کی فتح کے لیے لشکر  کشی کرے تو تم اس لشکر میں ساتھ ہوگے تمہارے لیے ایک  کھلی جگہ پر خیمہ نصب  کر دیا جائے گا جہاں تم فتح قلعہ کے لیے۔۔۔

مزید

حضرت شیخ جلال الدین تبریزی

آپ  خانوادہ چشت میں ایک عظیم شیخ ہیں  آپ کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے روحانی فیض ملا۔ بعض مشائخ آپ کو سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ سے تصور کرتے ہیں۔ کشف و کرامات میں بے نظیر تھے۔ ترک و تجرد میں بے مثال تھے۔ ابتدائی سلوک کے سات سال شیخ الشیوخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے (غالباً اسی وجہ سے بعض حضرات آپ کو سہروردیوں میں شمار کرتے ہیں) اگرچہ شیخ جلال الدین تبریزی حضرت شیخ ابوسعید تبریزی قدس سرہ کے مرید تھے۔ مگر ابوسعید کی وفات کے بعد آپ شیخ الشیوخ کی خدمت میں حاضر  ہوئے اور کمال کو پہنچے کچھ عرصہ بعد آپ کی ملاقات حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ سے ہوئی وہاں ہی آپ نے حضرت خواجہ قطب الدین اوشی کو دیکھا۔ حضرت خواجہ قطب الدین نے آپ کو اپنی روحانی تربیت سے درجۂ کمال تک پہنچا دیا اور اس طرح ان کے خلیفہ خاص بنے۔ اور خانواہ چشت میں معروف ہوئے۔ حضرت شیخ الشیوخ خواجہ ش۔۔۔

مزید

حضرت حافظ اکبر امام عبدالرزاق

حضرت حافظ اکبر امام عبدالرزاق رضی اللہ عنہ ولادت: ۱۲۶ھ وفات: ۲۱۱ھ   اسم گرامی عبدالزاق ابو بکر کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے عبدالرزاق ابو بکر کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے عبدالرزاق بن ہمام بن نافع یمن کے پایۂ تخت صنعاء میں ۱۲۶ھ میں آپ کی ولادت ہوئی صنعانی مشہور ہوئے آپ کے والد ہمام ثقہ تابعین میں شمار ہوتے تھے۔ ابتداء میں اپنے والد اور مقامی شیوخ سے علم حاصل کیا تجارت کے لیے اسلامی بلادو امصار کے سفر کیے اور وہاں کے شیوخ سے استفادہ کیا۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ‘‘رحل فی تجارۃ الی الشام ولقی الکبار’’ وہ تجارت کی غرض سے شام ہوجاتے اور وہاں کے کبار علماء کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱) غیر معمولی قوت حفظ و ضبط کے مالک تھے ابراہیم بن عباد زہری کا بیان ہے کہ ان کو سترہ ہزار حدیثیں یاد تھیں۔ (الاعلام، ج۲، ص۵۱۹) امام عبدالرزاق نے بیس سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں مہارت ۔۔۔

مزید

حضرت مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری

حضرت مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری بن مولوی امداد حسین خان بن اکبر آباد (انڈیا) میں ۱۹۰۱ء کو تولد ہوئے ۔ تعلیم و تربیت: آپ خود لکھتے ہیں : ’’فارغ التحصیل ہو چکا تھا‘‘۔ (حیات قدسی ) اس سے یقین ہو جاتا ہے ۔کہ آپ فارغ التحصیل عالم تھے لیکن تفصیلات کا علم آپ کی تعلیم یافتہ اولاد کو بھی نہیں ہے۔ آپ کی علمیت شاعری اور حیات قدسی (تصنیف)سے آشکارا ہے ۔ قادر الکلام شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی ثم کراچی آپ کے شاعری میں استاد تھے۔ بیعت: آپ سلسلہ عالیہ قادر یہ میں قدوۃ السالکین حضوت مولانا بہاوٗ الدین بنگلوری ؒ دزبار شریف غوثیہ مرشد آباد (انڈیا) سے اپنے والد محترم کے ہمراہ دست بیعت ہوئے۔ آپ کو اپنے مرشد سے والہانہ محبت تھی اور یہ محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ان کے حالات سے متعلق کتاب ’&rsq۔۔۔

مزید

حضرت مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری

حضرت مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری بن مولوی امداد حسین خان بن اکبر آباد (انڈیا) میں ۱۹۰۱ء کو تولد ہوئے ۔ تعلیم و تربیت: آپ خود لکھتے ہیں : ’’فارغ التحصیل ہو چکا تھا‘‘۔ (حیات قدسی ) اس سے یقین ہو جاتا ہے ۔کہ آپ فارغ التحصیل عالم تھے لیکن تفصیلات کا علم آپ کی تعلیم یافتہ اولاد کو بھی نہیں ہے۔ آپ کی علمیت شاعری اور حیات قدسی (تصنیف)سے آشکارا ہے ۔ قادر الکلام شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی ثم کراچی آپ کے شاعری میں استاد تھے۔ بیعت: آپ سلسلہ عالیہ قادر یہ میں قدوۃ السالکین حضوت مولانا بہاوٗ الدین بنگلوری ؒ دزبار شریف غوثیہ مرشد آباد (انڈیا) سے اپنے والد محترم کے ہمراہ دست بیعت ہوئے۔ آپ کو اپنے مرشد سے والہانہ محبت تھی اور یہ محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ان کے حالات سے متعلق کتاب ’&rsq۔۔۔

مزید