مشائخ و فقراء کے قطب، ائمہ و علما کے پیشوا اوتاد کے جائے پناہ، عابدوں زاہدوں کے ذریعہ فخر خواجہ شیخ محمد چشتی ہیں (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک کرے اور ان کا مشہد و مزار منور درخشاں فرمائے) جوانواع کرامات سے آراستہ اور درجات مشاہدات سے پیراستہ تھے۔ آپ نے خرقہ ارادت خواجہ احمد چشتی کی خدمت سے زیب تن فرمایا تھا۔ منقول ہے کہ خواجہ محمد چشتی اکثر اوقات عالم تحیر میں ڈوبے رہتے تھے اور سالہا سال آپ کا مبارک پہلو زمین پر نہ پہنچتا تھا آپ مجاہدہ کے اتنہائی درجہ اور غلبۂ شوق میں سرنگوں ہوکر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کے مکان میں ایک عمیق اور نہایت گہرا کنواں تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الٰہی میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ایک دن آپ دجلہ کے کنارے پر بیٹھے ہوئے اپنا خرقہ مبارک سی رہے تھے کہ اسی اثناء میں خلیفۂ وقت کے فرزند رشید کا اس طرف سے نہایت شان و شوکت سے گذر ہوا۔ جب اس کی پر شوق۔۔۔
مزید
آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے مشائخ میں سے تھے بڑے صاحب دل اور صاحب باطن بزرگ تھے آپ شیخ اللہ دتا کے مرید تھے وہ شیخ کریم الدین کے وہ شیخ محمد غوث کے وہ شیخ قادر بخش کے وہ حامد شاہ کے اور محمد صدیق لاہوری قدس سرہم کے مرید تھے۔ آپ ۱۲۶۷ھ میں فوت ہوئے بہادر شاہ لاہوری نے آپ کی تاریخ وفات لفظ خدا پرست (۱۲۶۷ھ) نکال کی ہے آپ کے خلفاء میں سے سیّد چراغ شاہ سبزواری جو آپ کے خالہ زاد بھائی بھی تھے بڑے معروف ہوئے اور وہی آپ کے سجادہ نشین بنے۔ چو از دنیا بفردوس بریں رفت غلام مصطفےٰ ہادی عالم وصالش مخزن شرع است سرور ۱۲۶۷ھ دو بارہ جلوہ گر شد نور اعظم ۱۲۶۷ھ ۔۔۔
مزید
بچپن ہی سے خدا طلبی کا جذبہ تھا۔ چار سال کی عمر میں قرآن پاک کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اور مولانا حیدر چرخی کے منظور نظر بن گئے حتٰی کہ علوم تفسیر حدیث فقہ اور اصول کی تکمیل کی سلسلہ طریقت میں شیخ محمد علی چشتی قدس سرہ کے مرید ہوئے۔ خرقہ خلافت حاصل کیا۔ ہر وقت ذکر بالجہر کرتے اور ذکر خفی سے اجتناب فرمایا کرتے آپ کے خادم اور مرید بھی ذکر بالجہر کی ضربیں لگاتے اس طرح ساری وادی اللہ کے ذکر سے گونج اٹھتی تھی۔ آپ ۸۳ سال کی عمر میں ۱۶؍ شوال ۱۱۲۶ھ کو انتقال فرماگئے۔ کشمیر میں اپنے گھر کے پاس ہی دفن کیے گئے۔ بقعر زمین چونکہ مانند گنج بتاریخ ترحیل او ازخرد نہاں گشت مرشد محمد شفیق عیاں گشت مرشد محمد شفیق ۱۱۲۶ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ اعظم روپڑی کے خلیفہ تھے ابتدائی زندگی میں قلعی گری کیا کرتے تھے۔ دوبیویاں تھیں جب اللہ سے لگن لگی تو دونوں کو طلاق دے دی ایک عرصہ تک ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول رہے اور آپ اس عرصہ بہلول پور روپڑ میں قیام پذیر رہے زندگی کے آخری حصہ میں روپڑ سے چل کر مانک پور رہنے لگے یہاں بے پناہ مخلوق آپ کے دروازے پر آنے لگی حالت جذب و مستی یہاں تک پہنچی کہ جو شخص بھی آپ کے دروازے پر آتا جذب و مستی کا حصہ پاتا تھا۔ آپ اس میں جس پر نگاہ ڈالتے اسے اپنا منظور نظر بنالیتے تھے بعض حضرات تو آپ کی ایک نگاہ سے مجذوب بن جاتے تھے۔ چنانچہ کریم شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اسی علاقہ کے مشہور مجذوب آپ کی ایک نگاہ کی زد میں آئے اور مجذوب بھی تھے۔ آپ سولہ (۱۶) ماہ رمضان المبارک بروز ہفتہ ۱۲۴۷ھ میں فوت ہوئے آپ کا مزار مانک پور میں زیارت گاہ عوام و خواص ہے آپ کے با کمال خلفاء میں سے مولوی امانت ع۔۔۔
مزید
آپ لاہور کے عظیم خلفائے چشتیہ میں سے ہیں شیخ سلیم چشتی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ سماع اور وجد میں بے مثال تھے۔ آپ کا لنگر عام و خاص کے لیے کھلا تھا آپ انیس ذوالحجہ ۱۲۲۸ھ کو فوت ہوئے آپ کا مزار لاہور میں ہے۔۔۔۔
مزید
آپ سلسلہ میران بھیکھہ کے خلیفہ اعظم تھے آپ جسے دیکھتے محبت خداوندی کا خوگر بنا دیتے تھے ایک رات سید اعظم رحمۃ اللہ علیہ اپنی گھوڑی پر سوار اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں میں جا رہے تھے راستہ میں راہزنوں نے آگھیرا۔ آپ کی گھوڑی کا مطالبہ کیا آپ نے بڑے حوصلے سے سمجھایا کہ جس گھوڑی پر میں سوار ہوں نہایت کمزور اور لاغر ہے اس کی کوئی قیمت نہیں ہاں میرے گھر ایک گھوڑی ہے وہ میں دے سکتا ہوں اگر آپ لوگ تھوڑا سا وقت یہاں ٹھہریں تو میں ابھی لا کر دے دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ اپنے گھر آئے اور اچھی گھوڑی لے جاکر راہزنوں کے حوالے کردی راہزن گھوڑی لے کر چل دیے دوسرے دن تمام ڈاکو اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیے آپ کے گھر پہنچے توبہ کی آپ کی گھوڑی کے ساتھ نذرانے پیش کر کے معافی کے خواستگار ہوئے۔ آپ ۱۲۲۷ھ کو فوت ہوئے آپ کا مزار رو پڑ میں ہے۔۔۔۔
مزید
آپ سید علیم اللہ جالندھری قدس سرہ کے مرید خاص اور خلیفہ اکمل تھے دوآبہ جالندھر میں قصبہ راؤں میں رہتے تھے ظاہری اور باطنی علوم میں یگانۂ روزگار تھے۔ ساری زندگی تعلیم و تربیت میں گزار دی۔ آپ ۱۹؍ ذوالحجہ ۱۲۲۰ھ میں فوت ہوئے آپ کی تاریخ وفات ہے۔ بُد محمد سعید شیخ زمان ۱۲۲۰ھ۔۔۔
مزید
آپ جامع کرامات تھے لاہور سے بیس میل کے فاصلہ پر قصبہ شرقیور میں رہتے تھے چونکہ آپ خواجہ تھے ابتدائی زندگی میں عام نو مسلم افراد کی طرح تجارت کرتے تھے۔ غلہ سبزی لے کر فروخت کرتے تھے بعض اوقات گندم اور چنے خرید کر مختلف علاقوں میں فروخت کرتے تھے۔ بعض اوقات شرقپور سے غلہ لے کر بیلوں پر لاد کر لاہور لاتے تھے اور اسی کاروبار میں گزر اوقات کرتے تھے ایک بار دوسرے بیوپاریوں کے ساتھ شرقپور سے لاہور آرہے تھے۔ نیاز بیگ کے قدیمی مدرسہ گنبد والا کے نزدیک پہنچے تو آپ کے بیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور غلہ زمین پر آگرا آپ نے اپنے ہمرائی تاجروں کو کہا کہ میرا غلہ تھوڑا تھوڑا تقسیم کر کے لاہور لے چلو مگر کسی نے پرواہ نہ کی اور سکھوں کے ڈر سے قافلہ چلتا گیا۔ ان دنوں مغل سلطنت کمزور ہوچکی تھی اور اس علاقہ میں سکھوں کے جتھے لوگوں کو لوٹ لیتے تھے۔ شیخ محمد سعید اسی حالت میں بے یار و مددگار رہے اور اس ویرانے میں۔۔۔
مزید
آپ سید علیم اللہ جالندھری کے خلیفہ تھے حضرت پیر روشن ضمیر کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور بے پناہ مخلوق کو راۂ ہدایت سکھائی۔ آپ ۱۲۱۳ھ میں فوت ہوئے مزار پُر انوار جالندھر میں ہے میاں غلام رسول ساکن ٹانڈہ نے آپ کا سال وصال رضی اللہ عنہ (۱۲۱۳ھ) سے لیا ہے۔۔۔۔
مزید
آپ حضرت شاہ بھیکھہ چشتی کے خادم تھے افغان قوم سے تعلق رکھتے تھے اور جالندھر میں رہائش تھی آپ نے ظاہری علوم سید عبدالرشید سید کبیر اور سیّد عتیق اللہ جالندھری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے آپ کا لباس قلندر رانہ تھا۔ حضرت شاہ بھیکھہ کی وفات کے بعد آپ لاہور آگئے۔ اور شیخ شاہ بلاق قد وری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے فیض کامل حاصل کیا آپ نے اپنی عمر میں نوے جلدیں تصنیف کیں ان میں فوائد آثار شرح دیوان خواجہ حافظ بڑی مشہور ہوئیں۔ آپ کا اپنا بھی ایک دیوان ہے جو بہت اعلیٰ شعروں پر مشتمل ہے آپ مولوی جان محمد ترکی جو بڑے عالم اجل تھے علمی وعظ کرتے رہتے تھے انہوں نے اپنی کتاب میں اُن کی فضیلت اور کرامات کا ذکر کیا ہے آپ کے شاگردوں میں ساچندلادر اور عظمت خان برکی صاحبِ دیوان ہوئے ہیں سیّد علیم اللہ جالندھری بھی ظاہری علوم میں آپ کے شاگرد تھے۔ آپ کی وفات ۱۱۷۰ ہجری میں ہوئی اور آپ کا مزار پر انوار جالندھ۔۔۔
مزید