/ Friday, 03 May,2024

شیخ پیر محمد لکھنوی قدس سرہ

  آپ بڑے کامل اور مکمل درویش تھے حرمین الشریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ کا اصلی وطن تو جونپور تھا مگر آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف شہروں میں قیام کیا ایک عرصہ تک دہلی رہے اور وہاں ہی پڑھتے رہے وہاں سے قنوج آئے اور وہاں کے علماء کرام سے بعض کتابیں پڑھیں وہاں سے لکھنو چلے گئے اور سید عبدالقادر لکھنوی سے چند کتابیں پڑھیں وہاں سے ہی جذب الٰہی دامن گیر ہوا ان دنوں ایک چشتی بزرگ شاہ عبداللہ سیاح رحمۃ اللہ علیہ کوہ بستان میں سکونت پذیر تھے آپ نے ساری اسلامی دنیا کی سیر کی تھی آپ انہی کے مرید ہوگئے خاندان چشتیہ سے خاص فیض ملا آپ کو دوسرے سلسلوں میں بھی بیعت کا شرف ملا تھا تدریس و تعلیم میں مشغول رہے مخلوق خدا کو ہدایت کرتے رہے لکھنو میں آپ کو مرشد گرامی نے حکم دیا کہ دریائے گومتی کے کنارے جاکر ریاضت کریں وہاں آپ ایک طرف لوگوں کو روحانی تربت دیتے دوسری طرف طلباء کو کتابیں پڑھاتے تھے آپ۔۔۔

مزید

شیخ احمد عبدالحق رودلی قدس سرہ

آپ اہل طریقت کے اُستاد اور ارباب حقیقت کے قبلہ تھے۔ معرفت کی رموز کے واقف اور حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے بچپن سے ہی اللہ کی محبت اور عشق سے سینہ سرشار تھا۔ حضرتِ مرشد کی محبت سے پہلے ہی بڑی ریاضتیں کرتے رہے۔ جب شیخ جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوئے تو بڑے بلند مقامات اور کرامات کے مالک بن گئے۔ پیر و مرشد کی وفات کے بعد ان کی مسند ارشاد پر جلوہ فرما ہوئے۔ ابھی آپ کی عمر سات سال تھی آپ کی والدہ انہیں نمازِ تہجد کے لیے اٹھایا کرتیں تھیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا آپ والدہ سے چوری چوری اُٹھ کر گھر میں کسی کونے میں چلے جاتے اور نفل پڑھنے لگتے والدہ کو پتہ چلتا تو محبت کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا۔ لیکن چونکہ آپ کےدل میں اللہ کی محبت موجزن تھی بارہ سال کی عمر میں اپنے گھر سے نکلے اور اللہ کی طلب میں دہلی پہنچے۔ اُن دنوں آپ کے بڑے بھائی تقی الدین ای۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ شاہ محمود سنجاں

آپ کا اسم گرامی محمود اور کنیت رکن الدین تھی آپ موضع سنجان خواف سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ مودود چشتی  رحمۃ اللہ علیہ کے خلفیہ خاص تھے، آپ کوشاہ اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپ کو اپنے پیر روشن ضمیر سے یہ لقب عطا ہوا تھا۔ کہتے ہیں جب تک حضرت شاہ سنجان چشت میں قیام پذیر رہے پیشاب تک نہیں کیا، اگر وضو توڑنے کی ضرورت پیش آتی، تو چشت کے حدود د سے باہر نکل جایا کرتے تھے۔ وہاں ہی تازہ وضو کرکے حدود چشت میں داخل ہوا کرتے۔ آپ کی وفات ۵۹۷ھ میں ہوئی۔ بجنت رفت چوں زیں دیر فانی معلی شاہ عالی جاہ محمود عیاں شد سال ترحیلش بسرور ز عالی زبدۂ دیں شاہ محمود ۵۹۷ھ۔۔۔

مزید

شیخ محمد متوکل کنتوری قدس سرہ

آپ بھی شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ آپ کے والد ہرات کے علاقے سے ہندوستان میں آئے اور قصبہ اجولی میں قیام کیا۔ اور آپ کو شیخ نصیر الدین سے خرقۂ خلافت ملا۔ ایک دفعہ آپ بہڑاہچ میں اپنے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حجرے کو چٹخنی لگا کر بند رکھا ہوا تھا۔ آپ نے اچانک دیکھا کہ ایک جوگی اپنے تمام بدن پر خاکستر ملے ہوئے حجرے کے کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔ حضرت شیخ نے یونہی نظر ڈالی معلوم کیا کہ یہ جوگی اپنے تصرف سے میرے حجرے میں آبیٹھا ہے آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اللہ، اللہ کرنے میں مشغول رہے۔ آخر جوگی اٹھا اور سلام عرض کیا۔ شیخ نے سلام کا جواب دیا جوگی نے آگے بڑھ کر آپ سے مصافحہ کیا اور حضرت شیخ سے باتیں کرنا شروع کیں حضرت شیخ اپنے حجرے میں جس طرف نگاہ ڈالتے ہر طرف ہر چیز سونے کی دکھائی دیتی تھی۔ مگر شیخ نے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہ کی۔ جوگی نے سمجھا کہ شیخ بے پرواہ۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ محی الدین کاشانی

آپ شیخ المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ قدس سرہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ زہد و تقویٰ میں کامل، خرق و کرامت میں معروف اور علوم تفسیر  و حدیث میں ماہر تھے سارا شہر آپ سے علوم دینیہ حاصل کرتا تھا۔ آپ نے مرید ہوتے ہی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی کرلی، بادشاہ نے آپ کو قضا کا پروانہ دیا تھا، آپ نے یہ فرمان اپنے پیر و مرشد کے سامنے لاکر جلا دیا اور فقر و مجاہدہ کو اختیار کرکے خرقہ خلافت حاصل کرلیا۔ کہتے ہیں کہ جب قاضی کاشانی نے تمام دنیاوی نعمتوں سے منہ موڑ لیا اور فقر و فاقہ کو اپنالیا، تو آپ کے لواحقین اہل و عیال جو دنیا کی آسائشوں کے خوگر تھے تنگ دست ہوگئے، ان لوگوں کے ایک واقف حال نے یہ صورت حال بادشاہ وقت علاء الدین خلجی کے دربار میں پیش کی تو سلطان نے اودھ کی قضا کو از سر نو حضرت قاضی کاشانی کے سپرد کردیا، جب یہ خبر ملی تو دوڑ دوڑے حضرت خواجہ نظام الدین کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، ح۔۔۔

مزید

مولانا خواجگی قدس سرہ

آپ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہ کے خلیفہ خاص تھے۔ مولانا معین الدین عمرانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور حضرت قاضی شہاب الدین کے استاد مکرم تھے۔ صاحب اخبار الاخیار فرماتے ہیں۔ جن دنوں حضرت مولانا خواجگی دہلی میں زیر تعلیم تھے۔ اور حضرت مولانا معین الدین کے سامنے زانوائے ادب طے کیے ہوئے تھے ساتھ ساتھ ہی شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے باطنی رموز سیکھا کرتے تھے۔ مولانا معین الدین کو شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کے پاس ان کا جانا اور تصوّف کے رموز حاصل کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ آپ انہیں وہاں جانے سے منع بھی کیا کرتے تھے۔ مگر مولانا خواجگی کو دونوں سے عقیدت و محبت تھی وہ ان دونوں بزرگوں کی قلبی پرکاش کی وجہ سے ایک گونہ عذاب میں تھے ایک دفعہ مولانا معین الدین کو ضیق النفس اور قے کا شدید حملہ ہوا۔ اطباء نے جواب دے دیا مولانا بھی اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ مولانا خو۔۔۔

مزید

شیخ عین الدین قتّال قدس سرہ المتعال

پ شیخ سعد اللہ کیسہ دار قدس سرہ کے مرید بھی تھے اور فرزند بھی والد مکرم کے علاوہ سید امیر ماہ بہرائچی کے بھی مرید تھے اور ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں رہے اس دوراں بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے اس طرح کمالات ظاہری اور باطنی حاصل کیے وہاں سے رخصت لے کر کنتور میں متوطن ہوگئے اور طریقہ ملّامتیہ اختیار کرلیا۔ سر عام شراب نوشی کرتے بھنگ کو استعمال میں لاتے علماء شہر نے آپ کے اس رویہ کی شکایت آپ کے والد مکرم سے کی۔ شیخ سعد اللہ نے آپ کو ان حرکات سے روکنے کی بڑی کوشش کی۔ مگر جس طرف سے پانی لایا جاتا یا وضو کے لیے بھی مہیا کیا جاتا تو آپ کا ہاتھ لگتے ہی شراب میں تبدیل ہوجاتا پھر  شیخ سعداللہ نے کہا کہ میرے سامنے کنویں سے پانی نکال کر لاؤ۔ جب کنویں سے پانی لا کر پیش کیا گیا تو یہ بھی شراب بنا ہوا تھا پھر دریا سے پانی منگوایا گیا۔ مگر وہ بھی آپ کا ہاتھ لگتے ہی شراب ہوگیا۔ جب یہ صورت حال دیکھی تو انہ۔۔۔

مزید

شیخ شیر خان بک رحمۃ اللہ علیہ

آپ شاہ فیروز کے نزدیکی رشتہ دار تھے۔ ایک عرصہ تک اغنیا اور امراء کے انداز میں زندگی بسر کی۔ اتنے متکبر۔ درشت خو۔ اور متکبر تھے کہ کسی کو آپ سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔اچانک شیخ رکن الدین بن شیخ شہاب الدین امام کی نگاہ پڑی۔ تو آپ کے مرید ہوگئے ہر وقت خوف الٰہی سے روتے رہتے سلسلہ چشتیہ میں سے آپ کے علاوہ کسی نے اسرار الٰہیہ کو فاش نہیں کیا اور نہ ہی جذب و مستی کا اظہار کیا جس قدر حضرت شیخ شیر خان نے کیا تھا۔ آپ کے آنسو اس قدر گرم تھے۔ اگر ایک قطرہ کسی کے ہاتھ پر گر پڑتا تو جل جاتا آپ نے علم و تصوف و توحید میں چند گراں قدر کتابیں اور امیر خسرو کے دیوان کے جواب میں ایک دیوان لکھا۔ اور عین القضا ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی تمہیدات پر تعلیقات لکھیں آپ کی کتاب یوسف و زلیخا اور مراۃ العارفین لوگوں میں بہت مقبول و مشہور ہوئیں آپ کو مقبول اللہ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کی وفات ۸۳۶ھ میں ہوئی تھی۔ شیر خا۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری

آپ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے اور خلیفہ تھے، ظاہری اور باطنی علوم میں کمال حاصل کیا تھا، حلال کی روزی کمانے کے لیے کاشت کاری کیا کرتے تھے اور اجمیر کے قریب ہی موضع ماندل میں رہتے تھے ساری عمر مخلوق کی ہدایت میں گزار دی، چھ سو تریپن ہجری کو پیدا ہوئے آپ اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد بیس سال تک زندہ رہے آپ قصبۂ سروار میں فوت ہوئے اور وہاں ہی ایک تالاب کے کنارے پر آپ کا روضہ ہے۔ خواجہ دین جناب فخرالدین مثل گل رفت چوں بباغ جنان وصل او جوز خواجہ والا ۶۵۳ھ رحلتش خواں ز مقتدائے زماں ۶۵۳ھ۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ محمود مونیہ دوز

آپ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے اور خلیفہ تھے، ظاہری اور باطنی علوم میں کمال حاصل کیا تھا، حلال کی روزی کمانے کے لیے کاشت کاری کیا کرتے تھے اور اجمیر کے قریب ہی موضع ماندل میں رہتے تھے ساری عمر مخلوق کی ہدایت میں گزار دی، چھ سو تریپن ہجری کو پیدا ہوئے آپ اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد بیس سال تک زندہ رہے آپ قصبۂ سروار میں فوت ہوئے اور وہاں ہی ایک تالاب کے کنارے پر آپ کا روضہ ہے۔ خواجہ دین جناب فخرالدین مثل گل رفت چوں بباغ جنان وصل او جوز خواجہ والا ۶۵۳ھ رحلتش خواں ز مقتدائے زماں ۶۵۳ھ آپ قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید اور خواجہ قطب الدین کے عقیدت مندوں اور دوستوں میں سے تھے، خواجہ صاحب کی اکثر و بیشتر مجالس میں آپ شریک رہتے تھے، خواجہ صاحب کے ملفوظات میں آپ کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے، آپ کا مزار بھی خواجہ صاحب کے مزار کے نزدیک اس دروازے کے باہر ۔۔۔

مزید