/ Friday, 03 May,2024

راجی حامد شاہ قدس سرہ

آپ حضرت حسام الدین مانک پوری کے مرید تھے صحیح نسبت بلند مقامات اور اعلی صفات کے مالک تھے۔ سلطان شمس الدین التمش کے زمانہ اقتدار میں گردیز سے دو بھائی ہندوستان میں آئے۔ ان میں ایک کا نام سید شہاب الدین اور دوسرے کا سید شمس الدین تھا۔ سید شمس الدین تو میوات کی طرف جاکر آباد ہوگئے البتہ سیّد شہاب الدین دہلی میں رہے راجی سید شہاب الدین کا خطاب تھا آپ راجی حامد شاہ کے جد امجد تھے ابتدائی زندگی میں سپاہیانہ لباس میں رہا کرتے تھے۔ حسام الدین مانک پوری کی مجلس میں آئے تو عام لباس زیب تن آنے لگے۔ آپ کی زیر نگرانی بے پناہ ریاضتیں کیں مجاہدے کیے اور عبادت خداوندی میں مصروف رہے اسی طرح صفائی باطن حاصل ہوئی اگرچہ آپ ظاہری علوم میں اتنے ماہر نہ تھے مگر اس وقت علمائے کرام آپ سے استفادہ کرتے تھے کہتے ہیں اگر کسی دوسرے کے احوال باطنی یا خفیہ حالات ظاہر کرنا ہوتے تو اپنی کہانی بیان کرتے کرتے دوسرے کے حالات ۔۔۔

مزید

شیخ اسحاق قدس سرہ

آپ سلسلہ چشتیہ میں اہل کمال بزرگ ہوئے ہیں بڑی ریاضتیں کیں ملتان سے دہلی آکر قیام فرمایا بری لمبی عمر پائی فرمایا کرتے تھے مجھے ایک بیتے کی آرزو ہے جب پیدا ہوگا پھر میں اس دنیا سے جاؤں گا نہایت کبر سنی میں اللہ نے ایک بیٹا دیا بیٹے کی پیدائش کے بعد  اپنی خادمہ کو بلا کر  فرمایا گھر میں جو کچھ ہے لے آؤ خادمہ نے کہا آپ کے گھر میں کب کوئی چیز رہتی ہے جو لے آؤں فرمایا آج جو کچھ  ملتا  ہے لے آؤ خادمہ دو (۲) سیر غلہ اور دو کپڑے لائی آپ نے دونوں چیزیں فقرا کے حوالے  کردیں پھر فرمانے لگے  آج سماع کو جی چاہتا ہے کسی قوال کو  بلا لاؤ خادمہ نے کہا  آپ کے پاس  کیا ہے جو  قوال  کو دیں گے آپ نے فرمایا بلاؤ میں اسے اپنی پگڑی  اور  چادر  دے کر خوش  کر لوں گا۔اسی اثنا میں اپنے ایک  دوست کے گھر چلے گئے وہاں مجلس سماع برپا تھی شری۔۔۔

مزید

شیخ کبیر جولاہہ قدس سرہ

  آپ شیخ تقی کے مرید اور خلیفہ تھے زمانے کے مشہور اور باکمال ولی اللہ شمار ہوتے تھے اپنی ولایت  کے انوار کو ملامت کی چادر میں پوشیدہ رکھتے تھے اپنے وقت کے مواحدوں کے امام تھے آپ نے ہندی زبان میں بہت سے اشعار کہے۔ جو  ان کی بلند فکری اوراعلیٰ تخیل کے آئینہ دار ہیں۔  اگر اُن کے کلام میں تحقیق  اور تجسیس کیا جائے تو وصل خدا وندی کے عمدہ نمونے ملتے ہیں وہ میدانِ وصل میں فراق کی کیفیت کو سامنے نہیں آنے دیتے ہندوستان میں ہندی زبان  میں جس شخص کے حقائق و المعارف سب سے پہلے بیان فرماتے ہیں۔ وہ حضرت شیخ کبیر ہی تھے ان کے مختلف ہندی اشعار ملتے ہیں لیکن ان میں زیادہ بشن پدو  ساکی  کی قسم پائی جاتی ہے اگر انصاف  سے آپ  کے کلام کو  دیکھا  جائے تو یوں معلوم  ہوتا  ہے کہ انہوں نے زبان کے ترازو سے حقائق  کے موتی تولے ہیں۔ ہمیں ایسے۔۔۔

مزید

شیخ عبدالخالق لاہوری قدس سرہ

  آپ شیخ جان اللہ لاہوری کے خلیفہ تھے فقر و تجرید میں بلند مقامات کے مالک تھے وجد و سماع میں بڑا اضطراب پایا تھا جس پر نگاہ ڈالتے بے خود کر دیتے آپ کا لنگر محتاجوں اور مساکین پر ہر وقت کھلا رہتا تھا آپ کی خدمت میں بے پناہ لوگ آتے اور راہ ہدایت پاتے تھے آپ ۱۲؍ رجب المرجب ۱۰۵۹ھ میں فوت ہوئے تھے آپ کی خانقاہ میدان زین خان میں ہے۔ چو عبد خالق ز دار فنا مکان کرد در دار خلد بریں وصالش بگو فیض حقانی ست وگر عبد خالق امام یقین ۱۰۵۹ھ ۔۔۔

مزید

شیخ فیض بخش لاہوری قدس سرہ

  آپ لاہور کے صاحبِ حال اور صاحب وجد صوفیا میں سے تھے آپ سیّد حیدر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور وہ شیر شاہ لاہوری کے خلیفہ تھے آپ ریشم کے کپڑے بنا کر گزر اوقات کرتے تھے اور ہر سال میں آپ سترہ عرس سالانہ کیا کرتے تھےجن میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، عاشورہ مبارک، عرس حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ، عرس حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، عرس حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ  اور عرس حضرت خواجہ علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ ،منایا کرتے تھے۔ ان عرسوں پر بڑا پیسہ خرچ کرتے اور سماع کی مجالس قائم کرتے تھے  آپ کے مریدوں میں آپ کی کرامات بڑی مشہور ہیں ہم اس مختصر سی کتاب میں وہ کرامات نہیں لکھ سکتے ہر رات تین بار غسل کرتے اور اللہ کی عبادت میں ساری رات گزار دیتے دنیا کی لذیذ سے چیزوں سے پرہیز کرتے بعض اوقات ح۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ فخر الدین روزی

آپ سلطان الاولیاء کے مصاحبان خاص میں سے تھے بڑے متقی اور پرہیزگار تھے قرآن پاک کی کتابت کرتے عام لوگوں سے علیحدہ رہتے اور رجال الغیب آپ کی مجالس میں آیا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے حضرت محبوب الٰہی دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں عرض کی کہ ایک دن مجھے سخت پیاس لگی مجھے غائب سے ایک کوزہ آتا نظر آیا، میں نے اسے توڑ ڈالا اور سارا پانی زمین پر گر گیا اور کہا میں کرامت سے درآمد شدہ پانی نہیں پیوں گا، حضرت شیخ نے سن کر فرمایا پی لینا چاہیے تھا یہ غیب سے تھا، بے عیب تھا میں نے بھی ایک بار کنگھی کرنا چاہی مگر میرے پاس اپنی کنگھی نہ تھی دیوار پھٹی ایک شخص ظاہر ہوا اس کے ہاتھ میں کنگھی تھی پکڑ کر میں نے کنگھی کرلی، ایک بار میں وضو کر رہا تھا میں نے چاہا کہ داڑھی کو کنگھی کروں میری کنگھی خانقاہ کے اندر طاق میں پڑی ہوئی تھی وہ کنگھی اپنے طور پر اڑتی اڑتی میرے ہاتھ میں آپہنچی میں نے پکڑی اور کنگھی کرلی۔ شیخ فخرال۔۔۔

مزید

حضرت شیخ قطب الدین منور

آپ خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کے خاص خلیفہ تھے تجرید و تفرید میں یگانۂ روزگار تھے۔ ساری عمر خلوت میں گزار دی، اپنی مرضی سے حجرے سے ایک قدم بھی باہر نہیں رکھا اور کسی دنیا دار کے گھر نہیں گئے آپ کے والد برہان الدین بن شیخ جمال الدین  ہانسوی قدس سرہما تھے، بچپن میں والد کے انتقال کے بعد خواجہ فرید شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوئے، ظاہری و باطنی تعلیم حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی، آپ ہر سال ہانسی سے دہلی آتے اور حضرت محبو ب الٰہی کی صحبت میں رہ کر تربیت پاتے۔ ایک بار سلطان محمد تغلق نے قاضی کمال الدین حیدر جہاں کو حضرت شیخ قطب الدین کی خدمت میں ہانسی بھیجا، اور ساتھ ہی چند مواضعات کی ملکیت کے کاغذات بھی بھیجے۔ اس کی خواہش تھی کہ پہلے آپ کو دنیاوی لالچ میں دے کر زیر کرے پھر شاہی عتاب سے سرنگوں کرے کیونکہ یہ بادشاہ درویشوں اور فقراء کے خلاف تھا قاضی کمال الدین۔۔۔

مزید

شیخ نظام الدین پکہاری علیہ رحمۃ اللہ الباری

آپ شیخ یوسف رحمۃ اللہ کے فرزند ارجمند تھے اور برہان پور کی ولایت کے صاحب منصب تھے بڑے متقی پرہیز گار اور ذوق و شوق کے مالک تھے۔ معارج الولایت میں لکھا ہے کہ آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں بارہ سال تک رہے بڑے علاج کروائے گئے بڑے بڑے طبیبوں سے مشورے لیے گئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا آخر بارہ سال کے بعد شیخ نظام الدین پیدا ہوئے چالیس دن گزرنے کے بعد والدہ نے غسل کیا اور مسکرا کر اپنے بیٹے کو کہنے لگیں میں تمہارے لیے بارہ سال تک کڑوی دوائیاں کھاتی رہی ہوں اور بڑی ہی تکلیف کا سامنا کرتی رہی ہوں ماں کی بات سُنتے ہی شاہ پکہاری نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ’’اماں آپ سچ کہہ  رہی ہیں وہ تمام کڑوی دوائیاں میں ہی بارہ سال  آپ کے پیٹ میں رہ کر کھاتا رہا ہوں‘‘ ماں چالیس روزہ بچے کے منہ سے یہ بات سن کر حیران رہ  گئیں اور اسی حیرانی اور ڈر میں فوت ہوگئیں آپ کی بڑی بہن بی بی الل۔۔۔

مزید

حضرت خواجہ موید الدین

آپ سلطان المشائخ کے خلیفہ اعظم تھے ابتدائی عمر دنیا داری میں گزری بڑے صاحب منصب اور جاہ و جلال کے مالک تھے ۔سلطان  علاء الدین کے دورِ حکومت میں بڑے اہم معرکے سر کیے، اور بڑی بڑی شاندار خدمات بجائے، لیکن جس دن حضرت سلطان المشائخ کے مرید ہوئے تو دنیا سے دست بردار ہوگئے، سلطان علاؤالدین بادشاہی تخت پر جلوہ فرما ہوئے تو آپ نے خواجہ معین الدین کو یاد کیا اور حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ موید الدین کو اجازت دیں کہ وہ دربار  میں آئیں کیونکہ اُن کے بغیر میرا کام نہیں چلتا، حضرت شیخ نے جواب میں کہا کہ انہوں نے اور کام بھی کرنے  ہیں، اب ان کاموں کی تکمیل میں مصروف ہیں، بادشاہ نے یہ جواب سنا تو بہت ناراض ہوا اور کہلا بھیجا کہ آپ تمام لوگوں کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا اپنے جیسا نہیں بلکہ اپنےسے کہیں بہتر دیکھنا چاہتا ہوں، بادشاہ نے یہ بات سنی تو خاموش ہوگی۔۔۔

مزید

حضرت شیخ وجیہہ الدین یوسف

آپ خواجہ نظام الدین کے عظیم خلفاء میں سے تھے حضرت سلطان المشائخ آپ پر بڑی رحمت و شفقت فرماتے، کہتے ہیں کہ جب آپ اپنے پیر کی خدمت میں حاض رہوتے تو پاؤں کی آواز بھی نہ ہونے دیتے، یوں معلوم ہوتا کہ آپ  سر کے بل حاضرِ خدمت ہو رہے ہیں ،کئی دفعہ لوگوں نے آپ کو ہاتھوں کے بل جاتے ہوئے دیکھا۔ حضرت شیخ نے آپ کو  دعا دی، آپ ہوا میں اُڑ سکتے  تھے پھر حاضر ہوتے وقت ہوا سے اُڑ کر آتے حضرت شیخ نے آپ کی تربیت  کی تو آپ مخلوق کی ہدایت میں مصروف ہوگئے اور چندیری کے علاقے میں قیام فرمایا اور وہاں ہی سات سو انتیس ہجری میں فوت ہوئے، آپ کا مزار چندیری میں ہے۔ شد ز دنیا چو در بہشت بریں شیخ مسعود یوسف ثانے یوسف عاقبت بگو سالش ہم  نجوان بود یوسف ثانی ۔۔۔

مزید