حضرت سید علیم اللہ چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ قصبہ جالندھر کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کا شجرہ نسب زید بن حسن رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ شاہ ابو المعالی قدس سرہ کے مرید تھے ظاہری علوم میں کمال حاصل کیا اور علماء وقت میں ممتاز ہوئے آپ کی تصانیف میں انہار الاسرار شرح بوستان سعدی نزہتہ السالکین شرح اخلاق ناصری۔ زبدۃ الروایات نثر الجواہر جو اندر مرجان کا فارسی ترجمہ ہے جس میں بلند پایا کتابیں یاد گار زمانہ ہیں بچپن میں ہی حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی کی خدمت میں رہنے لگے تھے مگر بڑے ہوئے تو آپ کو سید میراں بھیکھہ رحمۃ اللہ علیہ سے خرقۂ خلافت ملا۔ آپ کی ساری عمر طلبا کی تعلیم اور خدامین کی تلقین میں گزری آپ کا شعری مذاق بڑا بلند تھا اور شعر خاص انداز میں کہتے تھے ہم آپ کی ایک غزل کا مطلع و مقطع دیتے ہیں۔ یار از خلوت گہہ قدسی عیاں تاختہتیغ استغنا بگردن ہائے اعتبار آختہاز تلو نہائ۔۔۔
مزید
آپ ترکستان کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے ہندوستان تشریف لائے اور بمقام نارنول قیام فرما ہوئے آپ کو سلطان ترک اور بر ترک کے نام سے پکارا جاتا تھا اور حضرت شیخ عثمان ہارونی کے مرید خاص اور خلیفہ تھے، آپ کو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہ نے بھی خرقۂ خلافت عطا کیا تھا وہ ایک عرصہ تک نارنول میں رہے اور خلق کو ہدایت کی راہ دکھاتے رہے، ابتدائے کار میں نارنول میں ہندوؤں کی اکثریت تھی، اور آپ کے ہمراہ ہی مسلمان تھوڑے تھے، ہندوؤں نے پروگرام بنایا کہ مسلمانوں کو قتل کردیا جائے وہ مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے۔ عیدالفطر پر مسلمان نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے شہر سے باہر جمع ہوئے جب تمام نماز مین کھڑے ہوئے تو ہندوؤں نے مل کر اچانک حملہ کردیا اور بہت سے مسلمانوں کو سجدہ میں ہی شہید کردیا، حضرت شیخ بھی اسی موقع پر جام شہادت نوش کرگئے اور اپنے حجرے میں دفن کردیے گئے اس مقام پر شہیدوں کا مشہد بنایا گیا مگ۔۔۔
مزید
صورت صفا سیرت وفا خواجہ کریم الملۃ والدین سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو مکارم اخلاق میں دنیا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے آپ کا ظاہر و باطن اہل تصوف کے اوصاف سے آراستہ تھا فضائل خاص اور علوم بے شمار میں بے مثل تھے آپ کی فیاض طبیعت غایت درجہ کی لطافت اور عقل کامل انتہا مرتبہ کی فراست پر واقع ہوئی تھی اور یہ تمام باتیں حقیقت میں اس کا ثمرہ تھا تھا کہ آپ سلطا المشائخ کی سلک ارادت میں منسلک تھے اور اپنے صفائی اعتقاد کی وجہ سے مخدوم جہان کی محبت میں نہایت راسخ قدم اور محکم تھے اور اس کے ساتھ ہی حضرت سلطان المشائخ کے ہمیشہ منظور نظر تھے یہاں تک کہ حضور کی بخشش و مہربانی آپ کے بارے میں حد درجہ تھی اور اس کا سبب یہ ہوا کہ آپ کے والد بزرگوار خواجہ کمال الملۃ والدین سمر قندی جو دولتِ خراسان کے وزیر اعظم تھے دیار ہندوستان میں تشریف لائے اور بادشاہ ہند کی طرح ۔۔۔
مزید
آپ شیخ معین الدین چشتی کے پوتے، یعنی حسام الدین سوختہ کے فرزند تھے، چونکہ آپ کا نام بھی معین تھا اس لیے بڑے اور بزرگ بہ نسبت آپ کو خورد (یعنی چھوٹا) کہا کرتے تھے اور یہی تعریف آپ کے لیے بہت کافی ہے کہ آپ کامل درویش تھے۔ مرید ہونے سے قبل ہی ا تنی ریاضت اور مجاہدہ کیا تھا کہ بغیر کسی واسطہ کے خواجہ معین الدین چشتی سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ آخر کار خواجہ صاحب کے ارشاد سے شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے مرید ہوئے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ شیخ حسام الدین سوختہ کے چھوٹے بیٹے شیخ قیام بابریال بڑے خوبصورت بہادر، شجاع اور پُرعظمت تھے۔ خواجہ معین الدین خرد اور شیخ قیام الدین کی کثرت سے اولاد ہوئی۔ مندو میں جو خاندان چشتیہ ہے وہ بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں، اگرچہ ان کا نام شیخ قطب الدین تھا، لیکن محمود خلجی نے انہیں چشتیہ خاندان کا لقب دیگر دو ہزار سواروں کا سردار مقرر کردیا تھا۔ سلطان محمود ن۔۔۔
مزید
آپ بڑے دانشمند اور اپنے وقت کے مسلم استاد تھے، زہد و تقویٰ میں ممتاز تھے، آخر میں شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید ہوئے اور شیخ سے کمال درجہ کا اعتقاد رکھتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پانی پت جا رہا تھا تو سفر کے دوران میں نے صوفی کو دیکھا، میرے دل میں اس صوفی کے متعلق کچھ انکار اور سوء اعتقادی پیدا ہوئی (اس کو بذریعہ کشف یہ معلوم ہوگیا تو مجھے) کہا، مولانا آپ کو کچھ مشکلات درپیش ہیں! اور واقعہ بھی یہی تھا کہ مجھے کچھ علمی مشکلات کا حل مطلوب تھا، چنانچہ میں نے اس صوفی کو ایک ایک کرکے تمام اشکال بتائے، اس نے ہر ایک اشکال کا مدلل اور تسلی بخش جواب دیا، اس گفتگو کے بعد اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کس کے مرید ہو؟ میں نے کہا: سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کا، اس نے کہا کہ شیخ نظام الدین اولیاء ہمارے قطب ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ نظام الدین نے مولانا وجیہ الدین پائلی سے فرمایا کہ ہمارے اور۔۔۔
مزید
آپ کمال، ورع، تقویٰ اور دیانت داری میں مشہور تھے، شیخ نظام الدین اولیا نے آپ ہی سے ’’مشارق‘‘ کے حصوں کی سند حاصل کی اور ان سے مولانا برہان الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے استفادہ کیا اور ان سے میں نے فیض پایا۔ مولانا کمال الدین زاہد۔۔۔ مشارق کو شیخ نظام الدین اولیا نے سنا تھا آپ نے ان کا اجازت نامہ اپنے ہاتھ سے خود لکھا ہے جو سیرالاولیا میں موجود ہے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کی یہ آرزو تھی کہ مولانا کمال الدین زاہد کو امام مقرر کرکے ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں، چنانچہ اسی غرض سے مولانا موصوف کو اپنے ہاں بلایا اور کہا کہ مجھے آپ کے علمی کمالات، دیانت، حفاظت پر پختہ اعتقاد ہے مہربانی فرماکر اگر آپ امامت کا عہدہ قبول فرمالیں تو میں آپ کا رہین منت ہوں گا اور مجھے اپنی نماز کے قبول ہونے پر پورا یقین ہوجائے گا، مولانا نے جواب دیا کہ میرے پاس تو پہلے نماز ہی نماز باقی رہ گئی ہے ا۔۔۔
مزید
آپ شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ کے فرزند ارجمند اور خلیفہ اعظم تھے والد کی وفات کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھے اور ہزاروں طالبان حق کی راہنمائی فرمائی۔ معارج الولایت کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق کے جو بھی اولاد ہوتی زندہ نہ رہتی تھی آخر کار آپ کی بیوی نے آپ سے ہی شکایت کی آپ نے فرمایا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے حق حق حق کر کے فوت ہوجاتا ہے میرے حلب میں صرف ایک ایسا بیٹا ہے جو زندہ رہے گا مگر ابھی تک اس کی پیدائش کا وقت نہیں آیا میں ایک سفر پر جا رہا ہوں واپسی پر آکر تمہیں بتاؤں گا کچھ عرصہ کے بعد حضرت سفر سے واپس آئے اور گھر قیام کیا ایک سال گزرا تھا کہ اللہ نے بیٹا دیا جس کا نام عارف رکھا گیا آپ نے اپنی بیوی کو فرمایا اسے کچھ نہ کہنا اور اللہ کی رضا پر قناعت کرنا یہ لڑکا بڑا ہو کر ظاہری اور باطنی علوم کا یگانہ روزگار ہوا اور فیض جاری ہوا حضرت شیخ عارف کے ایک فرزند شیخ محمد نے سلسلہ چ۔۔۔
مزید
آپ شاہ نور الدین قطب العالم کے مرید تھے۔ سلسلہ نسب حضرت بابا شکر گنج سے جاملتا ہے۔ حضرت شیخ پیر محمد چشتی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیضان پایا تھا خرقۂ خلافت حاصل کرنے کے بعد آپ کو ولایت لاہور ملی ایک کثیر مخلوق آپ کے فیض سے مستفیض ہوئی۔ تذکرہ چوہڑ قطب عالم کے مولّف نے آپ کا سن وفات ۸۸۲ھ لکھا ہے اور مزار مبارک لاہور میں ہے [۱] [۱۔ حضرت شاہ کاکو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک مسجد شہید گنج نو لکھا بازار میں واقعہ ہے یہاں محلہ شاہ کاکو بھی آباد تھا۔ جسے دارا شکوہ نے اپنے محلات میں ضم کرلیا تھا۔ پھر سلطنت مغلیہ کو نادر شاہ اور احمد شاہ ایرانی کے ہاتھوں جو نقصان پہنچا۔ اس میں محلہ دارا شکوہ محلات دارا شکوہ کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ کاکو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی پیوست زمیں ہوگیا۔ سکھوں کا دور آیا تو انہوں نے اس مقام کو خصوصی طور پر اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ بربریت ایک انتقامی کار۔۔۔
مزید
آپ حضرت حسام الدین مانک پوری کے مرید تھے صحیح نسبت بلند مقامات اور اعلی صفات کے مالک تھے۔ سلطان شمس الدین التمش کے زمانہ اقتدار میں گردیز سے دو بھائی ہندوستان میں آئے۔ ان میں ایک کا نام سید شہاب الدین اور دوسرے کا سید شمس الدین تھا۔ سید شمس الدین تو میوات کی طرف جاکر آباد ہوگئے البتہ سیّد شہاب الدین دہلی میں رہے راجی سید شہاب الدین کا خطاب تھا آپ راجی حامد شاہ کے جد امجد تھے ابتدائی زندگی میں سپاہیانہ لباس میں رہا کرتے تھے۔ حسام الدین مانک پوری کی مجلس میں آئے تو عام لباس زیب تن آنے لگے۔ آپ کی زیر نگرانی بے پناہ ریاضتیں کیں مجاہدے کیے اور عبادت خداوندی میں مصروف رہے اسی طرح صفائی باطن حاصل ہوئی اگرچہ آپ ظاہری علوم میں اتنے ماہر نہ تھے مگر اس وقت علمائے کرام آپ سے استفادہ کرتے تھے کہتے ہیں اگر کسی دوسرے کے احوال باطنی یا خفیہ حالات ظاہر کرنا ہوتے تو اپنی کہانی بیان کرتے کرتے دوسرے کے حالات ۔۔۔
مزید