بن عصر بن ربیع بن حارث بن اویم بن امیہ بن خدرہ بن کاہل بن رشد(مرادا فرک بن ہرم بن ہرم بن ہنی بن بلی ہے) ایک روایت میں ان کا نسب یوں مذکور ہے نعمان بن عصر بن عبید بن وائلہ بن حارثہ بن ضبیعہ بن حزام بن جعل بن عمرو بن جشم بن دوم ہن ذبیان بن ہمیم بن ذہل بن ہنی بن بلی بن عمرو بن حاف بن قضاعہ بلوی جو انصار کے حلیف تھے بعد میں بنو معاویہ بن مالک بن عوف کے حلیف ہوگئے) جناب نعمان بدر کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے انہوں نے جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ عبد اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ شرکائے بدر از بنو معاویہ بن مالک بن عوف النعمان البلوی کا جوان کا حلیف تھا ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر اور واقدی نے ان کے والد کا نام عَصَر بہ کَسرۂَ اول و سکون ثانی بیان کیا ہے ہشام بن کلبی۔۔۔
مزید
بن غصن بن حارث البلوی انصار کے حلیف تھے ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو موسیٰ نے با سنادہ ابو نعیم سے انہوں نے اب شہاب سے بہ سلسلۂ شرکائے بدر جن کا تعلق انصار کے ادس قبیلے سے تھا اور جونبو معاویہ بن مالک النعمان بن غصن سے تھا اور جونبوبلی سے ان کے حلیف تھے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ ان بیانات کا تعلق ابو نعیم اور ابو موسیٰ سے ہے لیکن جناب عصر کو جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں انہوں نے تصحیف کرکے غصن بنادیا ہے اور ہم اپنی رائے نعمان بن عصر کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں اور اسی طرح ابن مندہ پر اعتراض بھی مبنی بروہم ہے کیونکہ ابن مندہ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان کا نسب نہیں بیانس کیا ہاں ابن مندہ نے انہیں بلوی لکھا ہے اور چونکہ ابن مندہ نے ان کا نسب نہیں بیان کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہیں علیٰحدہ آدمی تصوّر کرتے ہیں اور اگرچہ ہم نے ۔۔۔
مزید
بن عدی بن نضلہ ایک روایت کے مطابق نضلہ بن عبد العزی بن حرثان بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب القرشی العدوی ہے باپ بیٹا دونوں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے جہاں جناب عدی فوت ہوگئے اور نعمان کو ان کی وراثت منتقل ہوئی اسلام میں جناب نعمان پہلے وارث تھے۔ حضرت عمر نے اپنے دورِ خلافت میں انہیں میسان کا عامل مقرر کیا ان کی بیوی نے خاوند کا ساتھ دینا چاہا لیکن اجازت نہ مل سکی چنانچہ وہاں سے انہوں نے ذیل کے اشعار لکھ کر اپنی بیوی کو بھیجے۔ فمن مبلغ الحسناء ان حلیلہا بمیسان یسقی فی زجاج و حنتم ۔۔۔
مزید
بن ابی فاطمہ ایک روایت میں ابو فطیمہ انصاری مذکور ہے ابو سلمہ اور محمود بن عمرو الانصاری نے نعمان بن ابی فاطمہ سے روایت کی کہ قربانی کے لیے انہوں نے ایک مینڈھا خریدا جس کی بڑی بڑی آنکھیں اور بڑے بڑے سینگ تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا یہ مینڈھا اس مینڈھے سے ملتا جلتا ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا تھا ابن عضراء نے اسی طرح کا ایک مینڈھا خرید کر حضور کو ہدیۃً پیش کیا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح فرمایا ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن قوقل اور ایک روایت میں نعمان بن ثعلبہ ہے اور بقولِ ابو عمر ثعلبہ کو قوقل کہتے تھے بقول موسیٰ بن عقبہ وہ غزوۂ بدر میں موجود تھے ابن کلبی نے ا ن کا نسب بیان کیا ہے نعمان الاعرج بن مالک بن ثعلبہ بن اصرم بن فہر بن ثعلبہ بن قوقل اور ان کا نام غنم بن عوف بن عمرو بن عوف تھا۔ ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ شرکائے بدر از بنو اصرام بن فہر بن غنم النعمان بن مالک بن ثعلبہ جنہیں قوقل کہتے تھے، روایت کی یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے غزوۂ احد میں کہا تھا میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ آج سورج غروب ہونے سے پہلے لنگڑاتا لڑکھڑاتا جنت میں پہنچ جاؤں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم(ان کی شہادت کے بعد) سنا تو فرمایا۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے ایک خواہش کی جو اس نے پوری کردی ہے میں نے اسے بہشت میں گھومتے دیکھا ہے اور وہ بالکل سیدھا چل رہا تھا۔ ابن ابی حاتم نے اپنے ۔۔۔
مزید
بروایتے یہ وہی ذی رعین ہیں جنہیں ملوکِ حمیر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا۔ ابو جعفر بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ جب حضور اکرم تبوک میں تشریف لائے تو حارث بن عبدِ کلال نعیم بن عبد کلال نعمان ذی رعین ہمدان اور معافر ملوک حمیر کا خط اور ان کے قبولِ اسلام کی اطلاع لے کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے نیز انہوں نے زرعہ ذایزن بن مالک بن مرہ ہاوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبولِ اسلام اور ترک شرک کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے اور نیز وہ کہتے ہیں کہ ابن اسحاق سے بھی ایسا ہی مروی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں صحیح بات یہ ہے کہ نعمان ذی رعین حارث اور نعیما ان ملوک حمیر کے نام ہیں جنہوں نے اپنے قاصد اور مکتوب دربارِ۔۔۔
مزید
بن مقرن: ایک روایت کے رو سے ان کا سلسلۂ نسب حسب ذیل ہے: نعمان بن عمرو بن مقرن بن عائد بن میجا بن ہجیز بن حبشیہ بن کعب بن عبد بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان بن عمرو بن اوبن طابخہ مزتی اور عثمان کی اولاد مزینہ شمار ہوتی تھی کیونکہ وہ اپنی ماں کی طرف منسوب تھے ان کی کنیت ابو عمرو یا ابو حکیم تھی اور فتح مکّہ کے موقعہ پر بنو مزینہ کا علم ان کے پاس تھا مصعب سے مروی ہے کہ نعمان بن مقرن نے اپنے سات بھائیوں کی معیت میں ہجرت کی تھی۔ ان سے مروی ہے کہ بنو مزینہ کا وفد جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو وہ چار سول سواروں پر مشتمل تھا اولاً انہوں نے بصرے میں سکونت اختیار کی پھر کوفے میں منتقل ہوگئے اور بعد میں مدینے آگئے اور وہاں قادسیہ کی فتح ان کے طفیل حاصل ہوئی۔ جب نہاوند پر حملہ ہونے کے لیے سوار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے تو خلیفہ ن۔۔۔
مزید
بن مسعود بن عامر بن انیف بن ثعلبہ بن قنقذ بن حلاوہ بن سبیع بن بکر بن اشجع بن ریث بن غطفان، غطفانی اشجعی۔ ان کی کنیت ابو سلمہ تھی غزوہ خندق کے موقعہ پر ایمان لائے یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے بنو قریظہ غطفان اور قریش میں بدگمانی پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے کا مخالف بنادیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھی، سردی اور فرشتوں کے لشکر کو مسلّط فرمادیا اور اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی لشکر کفار کے شر سے بچ گئے۔ جب جناب نعیم ایمان لائے تو انہوں نے دربار رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تگو میں کفار کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے کوئی داؤ پیچ کھیلوں فرمایا اجازت ہے کیونکہ الحرب حذعۃ۔ ان کے بیٹے سلمہ نے ان سے وہ واقعہ نقل کیا ہے جسے علامہ ابن اثیر نے با تفصیل الکامل فی التاریخ میں بیان کیا ہے۔ ابو یاسر بن ابی حبہ نے با سنادہ عبد اللہ بن احمد سے روایت۔۔۔
مزید
بن مقرن: نعمان بن مقرن مزنی کے بھائی تھے جب نعمان جنگ نہاوند میں شہید ہوگئے تو جناب نعیم نے ان کی جگہ لے لی اور علم اٹھا کر جنابِ حزیفہ کو دے دیا چنانچہ ایران میں جنابِ نعیم کے ہاتھوں کئی فتوحات ہوئیں دونوں بھائی اپنےقبیلے کے اثراف میں اور نیز کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی دونوں بھائوں کے فضل و کمال کے قائل تھے ابو عمر نے مختصراً ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن ہزال اسلمی: بنو مالک بن افصی سے تھے ان کے بھائی کا نام اسلم تھا اور انہیں اسلمی اور مالکی کہتے تھے مدینے میں بس گئے تھے۔ ابو احمد عبد الوہاب بن علی ابن سکینہ کو ابو غالب محمد بن حسن الماوری مناولہ نے باسنادہ ابو داؤد سے، انہوں نے محمد بن سلیمان انباری سے انہوں نے وکیع سے انہوں نے ہشام بن سعد سے انہوں نے نعیم بن ہزال سے انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ایک تییم لڑکا جس کا نام ماعز تھا، میرے والد کے زیر تربیت تھا اس نے قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ زنا کیا میرے والد نے اسے کہا آؤ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا واقعہ بیان کرو، شاید وہ تمہاری مغفرت کی کوئی صورت پیدا کرسکیں میرے والد کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس کے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے ماعز نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں مجھ پر احکام الٰہی کا۔۔۔
مزید